مضامین
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا

مفتی اظہارالحق قاسمی ناندیڑ
ایمان! یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کی گہرائیوں میں لا محدود معانی پوشیدہ ہیں۔ ایمان صرف زبان سے اقرار کا نام نہیں، بلکہ دل کی تصدیق، عمل کی گواہی اور ہر مشکل گھڑی میں ثابت قدمی کا مظہر ہے۔ آج جب دنیا مادی ترقی کی انتہا کو چھو رہی ہے، انسانیت کئی نئے چیلنجوں سے دوچار ہے، ایسے میں ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان کی یاد شدت سے آتی ہے۔ ایک ایسے ایمان کی ضرورت ہے جو ہمیں ہر طرح کی آزمائش میں مضبوط رکھے اور حق پر قائم رہنے کی طاقت بخشے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ایمان کی لازوال داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے صرف ایک لفظ کہا، "حسبنا اللہ ونعم الوکیل” (ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے)۔ یہ ایمان کی وہ پختگی تھی جس نے آگ کو گلزار بنا دیا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ یہ ایک طرز زندگی کا پیغام ہے کہ جب انسان کا توکل صرف اور صرف اللہ پر ہوتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
آج ہماری دنیا میں بھی ‘آگ’ کی کئی صورتیں ہیں۔ یہ آگ غربت، ناانصافی، ظلم، فرقہ واریت اور اخلاقی گراوٹ کی شکل میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ کیا آج ہمارے اندر وہ ابراہیم والا ایمان ہے جو ہمیں ان آگوں میں کودنے کی ہمت دے؟ کیا ہم اس ایمان کے ساتھ ان مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں جو ہمیں حق کا ساتھ دینے اور سچ بولنے کے لیے درپیش ہیں؟
ابراہیم علیہ السلام کا ایمان محض انفرادی نہیں تھا، بلکہ وہ معاشرتی تبدیلی کا پیش خیمہ تھا۔ انہوں نے اپنے زمانے کے سب سے بڑے طاغوت، نمرود کے سامنے کلمہ حق بلند کیا، بت پرستی کی مخالفت کی اور توحید کا پرچم بلند کیا۔ آج ہمیں بھی اپنے معاشروں میں پھیلی ہوئی برائیوں، بے انصافیوں اور جھوٹ کے خلاف اسی طرح کے ایمان کی ضرورت ہے۔ یہ ایمان ہمیں مظلوموں کا ساتھ دینے، ظالموں کے خلاف آواز اٹھانے اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے کی ترغیب دے گا۔
یقیناً، آج بھی اگر ہم اپنے دلوں میں وہ ابراہیم سا ایمان پیدا کر لیں، جو ثابت قدمی، توکل اور بے خوفی کا مظہر تھا، تو ہم دنیا کی ہر آزمائش کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ ایمان ہمیں صرف آخرت کی کامیابی کی بشارت ہی نہیں دے گا، بلکہ دنیا میں بھی ہمیں ایک پرامن، عادلانہ اور خوشحال معاشرہ قائم کرنے میں مدد دے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف ابراہیم علیہ السلام کے قصے نہ دہرائیں بلکہ ان کے ایمان کی روح کو سمجھیں اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔اگر ان کو ہم اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے تو۔علامہ اقبال نے جن الفاظ میں کہا ۔آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا اگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا۔
"آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا” – یہ مصرعہ محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک پکار ہے، ایک آرزو ہے اس ایمانی قوت کی جو ہر دور میں، ہر مشکل کے سامنے انسان کو ثابت قدم رہنے کی ہمت دیتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان ایک ایسی مثال ہے جہاں ہر قسم کی آزمائش میں توکل، استقامت اور رب پر کامل بھروسہ سب سے بڑھ کر تھا۔
ان کا ایمان آگ میں کودنے کی ہمت دیتا ہے، وہ آگ جو نمرود کے حکم سے بھڑکائی گئی تھی، لیکن ابراہیم علیہ السلام کے یقین کی ٹھنڈک سے وہ گلزار بن گئی۔ یہ ایمان قربانی کے لیے بیٹے کو پیش کرنے پر آمادہ کرتا ہے، وہ قربانی جس میں پدری محبت کی گہرائی تھی اور خالق کے حکم کی تعمیل کا بے پناہ جذبہ تھا۔ ان کا ایمان ہجرت کرنے پر آمادہ کرتا ہے، گھر بار چھوڑ کر ایک نامعلوم سفر پر نکلنے کی ہمت دیتا ہے، جہاں نہ منزل کا پتہ ہے نہ کسی سہارے کا۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف اللہ کی رضا اور اس پر کامل بھروسے کی بدولت ممکن ہوا۔
آج کے دور میں بھی ہمیں ایسے ہی ایمان کی ضرورت ہے۔ دنیا جہاں مادی ترقی کی انتہا کو چھو رہی ہے، وہیں روحانی اور اخلاقی پستی کا بھی شکار ہے۔ مادیت پرستی، خود غرضی، اور بے یقینی نے ہمارے اندر کے "ابراہیم” کو کہیں دفن کر دیا ہے۔ ہمیں پھر سے وہ ایمان پیدا کرنا ہے جو ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے، چاہے کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آئیں۔
یہ ایمان ہمیں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات دے گا، خواہ مخالفت کا طوفان کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو۔ یہ ایمان ہمیں سچائی کا دامن تھامے رکھنے کی طاقت دے گا، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی چُکانی پڑے۔ یہ ایمان ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں استقامت دے گا، اور دوسروں کے لیے ایثار اور ہمدردی کے جذبے کو فروغ دے گا۔
ابراہیم علیہ السلام کا ایمان صرف ذاتی نجات کا ذریعہ نہیں تھا، بلکہ یہ نسلوں کے لیے ایک روشن مثال بن گیا۔ آج اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے اندر وہ ایمانی قوت بیدار کر لے تو یہ معاشرہ ایک بار پھر فلاح اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ جب ہر دل میں ابراہیم سا ایماں پیدا ہوگا، تو ہر مشکل آسان ہوگی، ہر خوف دور ہوگا، اور ہر طرف امن و سکون کا راج ہوگا۔