اسرائیلی حملے میں نطنز کی زیرزمین جوہری تنصیبات تباہی سے دوچار، ایران میں ایمرجنسی صورتحال
اقوام متحدہ کی تحمل کی اپیل، اسرائیل کا "رائزنگ لائن" آپریشن جوہری خطرے کے خلاف پیشگی حملہ قرار

اسرائیلی فوج نے جمعے کے روز اعلان کیا ہے کہ اس کے فضائی حملوں میں ایران کی نطنز جوہری تنصیب کے زیر زمین سینٹری فیوجز کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ حملہ ان کئی فضائی کارروائیوں کا حصہ تھا جو اسرائیل نے ایران کے مختلف مقامات پر کیں۔
اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق، “نطنز کے زیر زمین حصے کو نقصان پہنچا ہے، جہاں متعدد منزلوں پر مشتمل یورینیم افزودگی کی تنصیبات، سینٹری فیوجز، بجلی کے کمرے اور دیگر بنیادی انفراسٹرکچر موجود تھا”۔
فوج کا مزید کہنا ہے کہ اس حملے میں اس اہم تنصیباتی ڈھانچے کو بھی نشانہ بنایا گیا جو نہ صرف نطنز کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کا ذریعہ ہے بلکہ ایرانی جوہری پروگرام کو ہتھیار بنانے کی طرف لے جانے میں بھی مددگار ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی چینل 12 نے رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیلی فضائی حملے میں نطنز کی جوہری تنصیب مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔ ایرانی سرکاری ٹی وی نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ نطنز جو ملک کے وسط میں یورینیم افزودگی کی مرکزی تنصیب ہے کئی بار فضائی حملوں کا نشانہ بنی۔
ایرانی ٹی وی پر نشر ہونے والی ویڈیوز میں تنصیبات سے اٹھتے دھویں کے بادل دکھائے گئے اور بتایا گیا کہ جمعے کی صبح نطنز میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
ایرانی صوبہ اصفہان میں واقع نطنز جوہری مرکز پر نئے دھماکوں کی بھی اطلاع دی گئی۔
تابکاری کے پھیلاؤ کی تردید ایران کی ایٹمی توانائی کی تنظیم کے مطابق حملے سے نطنز کی تنصیب کو نقصان ضرور پہنچا ہے تاہم ابتدائی تحقیقات میں کسی قسم کی تابکاری یا کیمیائی آلودگی کے آثار نہیں ملے۔
تنظیم کے بیان میں کہا گیا کہ “تنصیب کے متعدد حصے متاثر ہوئے ہیں اور نقصان کا مکمل اندازہ لگانے کے لیے تحقیقات جاری ہیں”۔
ادھر اقوام متحدہ کے تحت قائم ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی (IAEA) نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایران کی طرف سے تابکاری میں کسی غیر معمولی اضافے کی اطلاع نہیں دی گئی۔ ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر بتایا کہ ایران نے مطلع کیا ہے کہ نہ ہی نطنز اور نہ ہی بوشہر جوہری پلانٹ کو نقصان پہنچا ہے۔
ایجنسی کے مطابق اصفہان کی جوہری تنصیب بھی محفوظ ہے۔ گروسی نے کہا کہ “ہم ایران کی صورت حال کا بہ غور جائزہ لے رہے ہیں اور مقامی انسپکٹرز کے ساتھ رابطے میں ہیں”۔
اقوام متحدہ کی طرف سے تحمل کی اپیل
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اسرائیل اور ایران دونوں سے شدید تحمل کی اپیل کی ہے۔ ترجمان کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ گوتریش مشرق وسطیٰ میں کسی بھی عسکری تصادم کے خلاف ہیں اور اسرائیلی حملوں پر شدید تشویش رکھتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ “خطہ مزید کسی تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا، دونوں فریقین کو ہر قیمت پر کشیدگی سے گریز کرنا چاہیے۔”
اسرائیل نے اس وسیع حملے کو “رائزنگ لائن” (ابھرتا شیر) کا نام دیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس کارروائی کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو نقصان پہنچانا تھا خاص طور پر تہران کے اس علاقے کو نشانہ بنایا گیا جہاں پاسدارانِ انقلاب کے سینئر کمانڈرز رہائش پذیر تھے۔
ایرانی سرکاری میڈیا نے بھی تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ حسین سلامی، خاتم الانبیاء فضائی دفاعی ہیڈکوارٹر کے کمانڈر جنرل غلام علی رشید اور ایرانی فوج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ “ایران کے خلاف ہماری یہ کارروائی ایک پیشگی حملہ ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ ایران کی جانب سے جوابی میزائل یا ڈرون حملے جلد ہوں گے”۔
انہوں نے ملک بھر میں شہری دفاع کی ہنگامی حالت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔