از قلم: محمد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
8495087865,
mdfurqan7865@gmail.com”اسلام غالب آئے گا“، یہ محض جذباتی نعرہ نہیں، بلکہ روشن حقیقت ہے، یہ صرف ایک دینی عقیدہ نہیں بلکہ ایک ایسا پیشین گوئی شدہ وعدہ ربانی ہے جسے نہ صرف قرآن و حدیث کی روشن تعلیمات میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، بلکہ عقلی، سائنسی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں بھی یہ وعدہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لیکن اس عقیدے پر اکثر غیر مسلموں، ملحدین اور ایکس مسلموں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ جب دنیا میں مسلمان آج بھی ایک اقلیت ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی، معیشت، تعلیم اور بین الاقوامی سیاست پر مغرب اور دیگر غیر مسلم اقوام کا واضح تسلط ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام ایک دن دنیا پر غالب آ جائے گا؟ ان کا استدلال یہی ہوتا ہے کہ اگر کوئی مذہب غالب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا عملی مظاہرہ بھی ہونا چاہیے، اور موجودہ عالمی حالات میں بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔ ایسے اعتراضات کا نہایت سنجیدہ، متوازن اور مدلل انداز میں جواب دینا ضروری ہے، تاکہ یہ غلط فہمیاں دور ہوں، حقیقت آشکار ہو، اور اسلام کے آفاقی پیغام کی صداقت و جامعیت دنیا کے سامنے واضح ہو سکے۔
اسلام کا تصورِ غلبہ دراصل صرف سیاسی یا جغرافیائی غلبے کا نام نہیں، بلکہ فکری، روحانی، تہذیبی اور اخلاقی غلبہ بھی اس میں شامل ہے۔ قرآن مجید کی کئی آیات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔ ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَیٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (سورہ توبہ، آیت 33) یعنی: ”وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے، چاہے مشرکوں کو ناگوار گزرے۔“یہی مضمون سورہ فتح (48:28) اور سورہ صف (61:9) میں بھی دہرایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وعدہ محض وقتی غلبے کی بات نہیں بلکہ ایک دائمی روحانی اور فکری غلبہ ہے۔ اس غلبے کی تائید کئی احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یبلغنّ ہذا الأمر ما بلغ اللیل والنہار، ولا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر إلا أدخلہ اللہ ہذا الدین، بعزّ عزیز أو بذلّ ذلیل، عزّاً یعزّ اللہ بہ الإسلام وذلّاً یذلّ بہ الکفر“ (مسند احمد) یعنی: ”یہ دین ہر اس جگہ پہنچے گا جہاں دن اور رات پہنچتے ہیں۔ یہ دین ہر گھر تک پہنچے گا، چاہے وہ کچا ہو یا پکا، اور لوگ اسلام میں داخل ہوں گے یا ذلت کے ساتھ اس کی عظمت کو قبول کریں گے۔“
یہ وہ ”غلبہ“ ہے جو نہ توپ سے حاصل ہوتا ہے، نہ تاج سے۔ بلکہ وہ نورِ ہدایت جو عقل و قلب میں اترتا ہے، اور جو انسان کو بندگیِ نفس سے
نجات دے کر بندگیِ ربّ کی طرف لے جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے معاشرے میں فکری غلبہ قائم کیا جس میں بتوں کی پوجا، نسل پرستی، فحاشی اور ظلم کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ نہ کوئی سیاسی سلطنت تھی، نہ عسکری طاقت۔ لیکن صرف 23 سال کے عرصے میں اسلام نے دلوں کو فتح کر لیا، عدل کو معاشرے کی بنیاد بنا دیا، اور سچائی، صبر، اور حلم کو قیادت کے معیار قرار دیا۔ غلبہئ اسلام کا یہ تصور آج بھی زندہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جن علاقوں میں اسلام کو سیاسی یا عسکری طاقت حاصل نہیں، وہاں بھی قرآن، سنت، اور اخلاقِ نبویؐ کی کشش سے لوگ دین کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اسلام کا غلبہ وہ ہے جو باطل کے نظام کو صرف شکست نہیں دیتا بلکہ دلائل اور اخلاق سے اس کی بنیاد ہلا دیتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ نے فرمایا: ”وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ“ یعنی مشرک جتنا چاہیں اس غلبے کو ناپسند کریں، یہ غلبہ ہوگا، کیونکہ یہ ربّ کے نظامِ ہدایت کا لازمی حصہ ہے۔ یہی غلبہ ہے جسے روکنے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، لیکن رب العالمین کا یہ وعدہ اور محسن انسانیت ﷺ کا یہ مشن مکمل ہوکر رہے گا، نہ صرف فکری، روحانی، تہذیبی اور اخلاقی اعتبار سے بلکہ سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے بھی مکمل ہوگا۔
اب ذرا عقلی دلائل پر غور کیجیے! اگر کوئی دین حقیقت پر مبنی ہو، اس کا پیغام خالص، ملاوٹ سے پاک اور جذباتی یا نسلی تعصبات سے بالاتر ہو، اگر وہ دین انسانی فطرت کے عین مطابق ہو اور انفرادی، خاندانی، معاشرتی، اخلاقی، روحانی اور معاشی زندگی کا ایک جامع اور متوازن نظام فراہم کرتا ہو، تو منطقی اعتبار سے وہی دین طویل مدت میں دنیا پر غالب آنا چاہیے۔ کیونکہ حق اپنی روشنی سے باطل کو مٹا دیتا ہے، فطرت کے خلاف چلنے والے نظام دیرپا نہیں ہوتے، اور جھوٹ کبھی بھی دائمی تسلط قائم نہیں رکھ سکتا۔ اسلام کی تعلیمات چاہے وہ توحید کا عقیدہ ہو، عدل و انصاف کا اصول ہو، زکوٰۃ و صدقات کا فلاحی تصور ہو، عفت و پاکیزگی کا معیار ہو، یا خاندانی زندگی کی ترتیب، یہ سب نہ صرف انسانی عقل و ضمیر سے ہم آہنگ ہیں بلکہ انسان کے ہر دور کی ضروریات کا حل بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہی وہ ہمہ گیر اور فطری نظام ہے جو خود اپنے وجود سے گواہی دیتا ہے کہ اسلام ہی وہ سچائی ہے جس کا غلبہ ایک منطقی و فطری انجام ہے، اور یہ غلبہ کسی جبر یا ظلم کے ذریعے نہیں، بلکہ دلیل، اخلاق، روحانیت اور سچائی کے ذریعے حاصل ہونا ہے۔ اسلام کا فطری، عقلی اور کامل نظام اس کا زندہ ثبوت ہے۔
اب ہم امریکہ کے تحقیق ادارے پیور ریسرچ سینٹر (Pew Research Center) کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔ حالیہ 2025 کی رپورٹ کے مطابق اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب بن چکا ہے۔ ساتھ ہی یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروپ بھی ہے اور 2050 تک مسلمان دنیا کی سب سے بڑی آبادی بن سکتے ہیں۔ 2010 سے 2020 کے درمیان مسلم آبادی میں 21 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، یعنی یہ اعداد و شمار 170 کروڑ سے بڑھ کر 200 کروڑ تک پہنچ چکا ہے۔ یہ اضافہ عالمی اوسط آبادی اضافہ (10 فیصد) سے دو گنا ہے۔ اب دنیا کا چار میں سے ہر ایک شخص مسلم ہے یعنی مسلمانوں کی پوری دنیا کی آبادی میں 26 فیصد عالمی حصہ داری ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمان نوجوان ترین مذہبی گروہ ہیں، دنیا کے کئی غیر مسلم ممالک میں اسلام قبول کرنے والوں کی شرح دیگر مذاہب کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، مغرب میں اسلام مخالف پروپیگنڈہ اور نفرت انگیز سیاست کے باوجود اسلام قبول کرنے والے نو مسلمین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
مثلاً امریکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کی بڑی تعداد کالے امریکیوں، لاطینیوں اور سابق عیسائیوں پر مشتمل ہے۔ پیو (Pew) ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی 2010 سے لے کر 2020 تک شمالی امریکہ میں 52 فیصد بڑھی ہے۔ یہاں کل مسلم آبادی 59 لاکھ ہے۔ فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، آسٹریلیا اور افریقہ میں بھی رجحان یہی ہے۔ خاص طور پر فرانس میں ہر سال ہزاروں لوگ اسلام قبول کرتے ہیں، جن میں تعلیم یافتہ نوجوان خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ جرمنی میں 2015 – 2020 کے دوران دسیوں ہزار افراد نے اسلام قبول کیا، ان میں بڑی تعداد پناہ گزینوں، یونیورسٹی طلبہ، اور مڈل کلاس یورپیوں کی تھی۔
اسلامی تعلیمات کی سچائی، وحدانیت، سادہ عقیدہ، سماجی عدل، روحانیت، خاندانی نظام، جنسی تطہیر، فطری زندگی، منصفانہ معیشت، یہ سب اسلام کو ایک ایسا مکمل نظام حیات بناتے ہیں جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسلام صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک مکمل نظام زندگی ہے جو صحت، تعلیم، تجارت، سیاست، انصاف، روحانیت، اخلاق، معیشت، معاشرت سب پر محیط ہے۔ یہی ہمہ گیر نظام ہی ہے جو دنیا کے بکھرتے ہوئے انسانوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ واقعاتی طور پر بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اسلام نہ صرف غریبوں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی مقبول ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر یوسف ایسٹس، امام حمزہ یوسف، عمر ریجن، فرانسسکا ماریا، جیریمی میکلالن، مارٹن لنگز، ان سب نے اسلام قبول کیا اور اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کیا، جبکہ ان میں کئی خود اسلام کے مخالف تھے۔
اسی طرح ہندوستان میں بھی اسلام مخالف بیانیے، تشدد، قانونی رکاوٹوں اور میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے باوجود اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد کم نہیں ہو رہی۔ Pew Research Center کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ صرف پیدائش کی بنیاد پر نہیں بلکہ نو مسلمین کے سبب بھی ہے۔ دہلی، کیرالہ، آندھرا پردیش، گجرات، مہاراشٹر، اور بنگال میں اسلام قبول کرنے والوں کی خبریں میڈیا میں مسلسل آتی رہی ہیں۔ کئی سابق ہندو پنڈت، سکھ، عیسائی اور دہریے (atheists) اسلام قبول کر چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے افراد نے اسلام کی اخلاقیات، انصاف، توحید، اور مساوات سے متاثر ہو کر اسلام کا راستہ اختیار کیا۔
اسی کے ساتھ ساتھ، اسلام پر بڑھتے ہوئے حملے، میڈیا میں منفی پروپیگنڈا، اور حکومتوں کی سختیاں دراصل اسی بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام نہ صرف زندہ ہے بلکہ پھیل رہا ہے۔ جب کوئی نظریہ یا دین کسی کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، تو اس نظریے کی طاقت کا وہی سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ اسلام کو سب سے زیادہ نشانہ اسی لیے بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے، فطرت سے ہم آہنگ ہے، اور باطل نظاموں کے لیے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ مغرب میں مذہب سے دوری، تنہائی، ذہنی بیماریوں، خودکشیوں، خاندانی ٹوٹ پھوٹ اور اخلاقی انارکی کا دور ہے۔ مغربی معاشرے مذہبی روحانیت سے خالی ہو چکے ہیں اور وہاں کے نوجوان ‘meaninglessness’ (بے معنویت) کا شکار ہیں۔ یہی خلا انہیں اسلام کی طرف کھینچ رہا ہے۔
یہ تمام دلائل نہ صرف اسلام کے غلبے کے نظریے کو تقویت دیتے ہیں بلکہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام کا غلبہ محض کوئی جذباتی دعویٰ یا غیر حقیقت پسندانہ خواہش نہیں، بلکہ ایک ایسا ناقابل انکار سچ ہے جو روز بروز حقیقت کا روپ دھارتا جا رہا ہے۔ یہ غلبہ کوئی تلوار، جنگ یا سیاسی سازش کے بل پر حاصل نہیں ہو رہا، بلکہ دلیل کی روشنی، اخلاق کی طاقت، علم کی برتری اور روحانیت کی لطافت کے ذریعے قلوب و اذہان کو تسخیر کر رہا ہے۔ اسلام کا نور ان دلوں میں اپنی جگہ بنا رہا ہے جو سچائی کے متلاشی، روحانی سکون کے طلبگار، اور اخلاقی زوال سے پریشان ہیں۔ قرآن نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ”یُرِیدُونَ لِیُطْفِءُوا نُورَ اللَّ?ہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّ?ہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ” (الصف: 8) کہ ”یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں، لیکن اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا، چاہے کافر کتنے ہی ناپسند کریں۔” اور سچ یہ ہے کہ نور کا مقابلہ اندھیرے سے ممکن نہیں، اور حق کا دبایا جانا جتنا بھی ممکن ہو، اس کا ابھرنا طے شدہ حقیقت ہے۔ کوئی بھی غیر جانبدار، انصاف پسند، اور تعصب سے پاک ذہن جب اسلام کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے سامنے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ ایک ہمہ گیر نظامِ زندگی ہے، ایسا نظام جو انسان کی فطرت سے ہم آہنگ، دل و دماغ دونوں کو مطمئن کرنے والا، اور ہر دور کے تقاضوں کا جامع حل فراہم کرنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جدید ترین، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ قوموں کے افراد بھی اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ وہ اسلام کو محض روایتی عقائد نہیں بلکہ ایک مربوط، سائنسی، عملی، اور پرامن طرزِ حیات کے طور پر اپنا رہے ہیں۔
اسلام کا غلبہ اب دور کی بات نہیں رہا، بلکہ ہر دن، ہر لمحہ، یہ غلبہ ذہنوں اور دلوں میں راسخ ہو رہا ہے۔ مغربی پروپیگنڈہ، میڈیا کی مہمات، اسلاموفوبیا، اور شدت پسند تحریکیں سب مل کر بھی اسلام کے اس پرامن، علمی اور روحانی غلبے کو روکنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ اسلام ایک فطری دین ہے، اور فطرت کے خلاف کوئی بھی طویل جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔ ”اسلام غالب آئے گا” یہ محض ایمان کا تقاضہ نہیں، بلکہ تاریخ، عقل، سچائی، اور زمینی حقائق کی صدا بھی یہی ہے۔
اس دنیا کے آفاق پر، رحمت کا بادل چھائے گا
اور پاک سے پاکیزہ تر، پورا عالم ہوجائے گا
پھر کفر کا،الحاد کا، سکہ نہ چلنے پائے گا
پیغمبرِ اسلام کا، پرچم یہاں لہرائے گا
اسلام غالب آئے گا، اسلام غالب آئے گا
(مضمون نگارمرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی و ڈائریکٹر ہیں)
Mohammed Furqan
+918495087865