مضامین

امریکی سامراج: جھوٹ، مفاد پرستی اور تباہ کن پالیسیوں کی داستان

 🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
               📱09422724040
         •┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
وہ ربّ جو عدل کا سرچشمہ ہے، اور جس کی بارگاہ میں نہ طاقتور کا زور چلتا ہے، نہ مظلوم کی آہ رائگاں جاتی ہے، اُسی ربّ کی قسم! ظلم جتنا بھی مضبوط ہو، وقت کے پہاڑ جتنا کیوں نہ ہو، آخرکار حق کا سورج اسے پگھلا دیتا ہے۔ تاریخ یہی گواہی دیتی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: “وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ”۔ “اور ہرگز یہ نہ سمجھو کہ اللہ اُن اعمال سے غافل ہے جو ظالم لوگ کرتے ہیں” (سورۃ ابراہیم، آیت 42)۔
ظلم، فریب، جھوٹ، اور استحصال یہ وہ جرائم ہیں جو صرف انسان کے ہاتھ نہیں جلاتے، اس کی تاریخ، تہذیب اور نسلوں کو بھی جلا کر راکھ بنا دیتے ہیں۔ اور جب یہ ظلم طاقتور اقوام کی طرف سے کیا جائے، جو خود کو “مہذب دنیا” کا علمبردار کہلاتی ہیں، تو اس کی چوٹ اور بھی گہری، اور اس کا زخم اور بھی سیاہ ہوتا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ کے لیے یہ کوئی نئی کہانی نہیں۔ ہماری تاریخ مظلومیت، استقامت، اور صداقت کی وہ داستان ہے جس میں فرعونوں کے ایوانوں سے لے کر جدید سامراج کے گمراہ ایوانوں تک ہر ظالم نے اپنے باطل اقتدار کے بل پر حق کو دبانے کی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکا۔
یہ تحریر اُس سچائی کی آئینہ داری ہے، جو آج کے دورِ فتن میں حق و باطل کے درمیان تمیز کی پکار ہے۔ یہ صرف تاریخ کا بیان نہیں، ضمیر کی بیداری کی ایک کوشش ہے، تاکہ ہم بحیثیت مسلمان نہ صرف مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں، بلکہ ظالم کی مکاری کو بھی بے نقاب کریں۔ کیونکہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: “انصر أخاک ظالماً أو مظلوماً”۔ “اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم”۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: “یا رسول اللّٰہﷺ! مظلوم کی مدد تو سمجھ آتی ہے، مگر ظالم کی مدد کیسے؟” تو آپﷺ نے فرمایا: “تم اُسے ظلم سے روک کر اُس کی مدد کرو”۔ (صحیح بخاری)۔ یہ تحریر درحقیقت ظالم کو ظلم سے روکنے کی ایک صدا ہے، اور مظلوموں کے حق میں امت کے شعور کو بیدار کرنے کی ایک فکری جہاد۔
امریکہ کے جھوٹ، غلط بیانیاں، فریب، اور مفادات کی بُنیاد پر بنی وہ پالیسیاں جنہوں نے دنیا بھر کے معصوموں کو جلا دیا۔ تاریخ کی کتابیں جب کبھی صداقت کے لہو سے لکھی جائیں گی، تو ان میں ایک باب امریکہ کے ان چہروں پر ضرور روشن ہوگا جو بظاہر جمہوریت کے علمبردار، امن کے پیامبر، اور آزادی کے محافظ نظر آتے ہیں، لیکن باطن میں مکاری، فریب، اور مفاد پرستی کے سائے میں لپٹے وہ کردار ہیں جن کی چالوں نے دنیا کو بار بار لہو لہان کیا۔ امریکہ کی تاریخ فقط ایک قوم کی ترقی کی داستان نہیں، بلکہ کئی اقوام کی تباہی کی روداد بھی ہے۔ ایسے جھوٹ، سازشیں اور مفاد پرستانہ پالیسیاں جنہیں “قومی سلامتی” یا “جمہوری اقدار کے تحفّظ” کا لبادہ اوڑھا کر پیش کیا گیا، مگر درحقیقت وہ زمین پر بربادی، ظلم، اور انسانی المیوں کے بیج بو گئے۔
یہ صرف سیاسی یا سفارتی فیصلے نہیں تھے، یہ وہ زہریلے تیر تھے جو عراق کے صحراؤں سے لے کر ویتنام کے جنگلوں، افغانستان کے پہاڑوں، لیبیا کے کھنڈرات، اور فلسطین کی اجڑی گلیوں تک معصوموں کے سینوں میں پیوست کیے گئے۔ یہ وہ فیصلے تھے جن میں تیل کی خوشبو، اسلحے کے سودے، اور اقتدار کی ہوس تو تھی، مگر انسانیت کا کوئی رنگ، کوئی درد، کوئی سچائی نہ تھی۔ ان چالاکیوں میں چھپا “گلف آف ٹونکن” کا جھوٹ بھی تھا، جس نے ویتنام کی سر زمین کو خون میں ڈبو دیا؛ “ایٹمی ہتھیاروں” کا بے بنیاد دعویٰ بھی تھا، جس نے عراق کے مستقبل کو راکھ میں بدل دیا؛ “جمہوریت کی بحالی” کے نام پر ایران، لیبیا اور شام میں لائی گئی وہ آگ بھی تھی، جس نے نسلوں کو برباد کر دیا۔
امریکہ نے جب جب جھوٹ کا سہارا لیا، تاریخ نے سچ کے آنسو بہائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف چند “طاقتور ہاتھوں” کی جیبیں بھرنے کے لیے کیا گیا، جب کہ قیمت اُن معصوم بچّوں، عورتوں، اور بے گناہ شہریوں نے چکائی جو ان سازشوں سے ناآشنا تھے۔ یہ تاریخ ایک آئینہ ہے اور اس آئینے میں جھانکنے کا وقت آ گیا ہے۔ امریکہ کی ماضی و حال کی غلط بیانیوں اور خودغرض پالیسیوں کو صرف ریکارڈ میں نہیں، دل و دماغ میں بھی محفوظ رکھنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں سچ کو پہچان سکیں، اور دنیا کبھی دوبارہ فریب کے اُس زہریلے دھوئیں میں نہ لپٹے، جو “آزادی” کے نام پر چھوڑا جاتا ہے۔
1- ویتنام جنگ (1955ء-1975ء)
جب طاقت کی آنکھ پر غرور کی پٹی بندھی ہو، اور سچائی کو مفاد کے خنجر سے چیر دیا جائے، تو وہی ہوتا ہے جو 1964ء میں “خلیج ٹونکن” کی لہروں پر بچھائی گئی سازش کے پردے میں ہوا۔ امریکہ، جو خود کو دنیا کا نجات دہندہ اور جمہوریت کا پرچم بردار کہلاتا ہے، اس نے اسی دعوے کی آڑ میں ایک جھوٹا واقعہ گھڑ کر ویتنام کی سر زمین پر آگ برسائی۔ بتایا گیا کہ ویتنامی کشتیوں نے امریکی بحری جہاز پر حملہ کیا ہے، ایک دعویٰ جسے وقت نے محض ایک ڈرامہ قرار دیا۔ بعد کی تحقیقات نے عیاں کیا کہ نہ صرف اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، بلکہ اس کے اصل وجود پر بھی سوالیہ نشان تھا۔ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
امریکی بمبار جہاز آسمانوں سے آگ اگل رہے تھے، ویتنام کے سرسبز جنگلات ناپالم بموں سے جل رہے تھے، اور گاؤں کے گاؤں راکھ میں بدلتے جا رہے تھے۔ بچے جن کی معصوم آنکھوں نے ابھی رنگوں کی پہچان نہ کی تھی، وہ بارود کے دھوئیں میں اندھے ہو گئے؛ مائیں جنہوں نے امن کے سپنے دیکھے تھے، وہ اپنے لالوں کے بے جان جسموں کو گود میں اٹھائے بین کرتی رہیں۔ یہ جنگ صرف توپوں اور بندوقوں کی گھن گرج نہ تھی، یہ ایک فکری حملہ بھی تھا کہ کس طرح جھوٹ کو سچ کی چادر میں لپیٹ کر، ایک پوری قوم کو غلامی اور تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
دو دہائیوں پر محیط یہ جنگ، جسے “ویتنام جنگ” کہا جاتا ہے، درحقیقت امریکہ کی طاقت کے زعم، جھوٹے جواز، اور انسانی ہمدردی کے لبادے میں چھپے ظلم کی واضح تصویر ہے۔ لاکھوں ویتنامی، چاہے وہ فوجی ہوں یا عام شہری، اس جنگ کا ایندھن بنے۔ ملک کی معیشت، ثقافت، زمین اور نسلیں سب کچھ روند دیا گیا۔ اور بالآخر، جب امریکہ نے خود اس جنگ کو “غیر ضروری” اور “ناقابلِ جواز” مانا، تب تک ویتنام لہو سے رنگین ہو چکا تھا۔
دنیا نے نہ صرف ایک ملک کی بربادی دیکھی، بلکہ وہ نقاب بھی سرک گیا جس کے پیچھے امریکہ اپنا اصل چہرہ چھپائے بیٹھا تھا۔ “ٹونکن گلف” کا واقعہ تاریخ کی کتابوں میں ایک علامت بن چکا ہے۔ اس جھوٹ کی علامت، جس نے لاکھوں زندگیاں نگل لیں۔ ویتنام جنگ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب کوئی قوم طاقت کے نشے میں انصاف کو روند دے، تو سچائی آخرکار خود کو ظاہر کر ہی دیتی ہے۔ مگر تب تک زمین بے گناہوں کے خون سے سیراب ہو چکی ہوتی ہے، اور انسانیت اپنی قبروں میں نوحہ کناں۔
2- ایران میں 1953ء کی بغاوت
تاریخ کے صفحات میں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جن پر صرف سیاہی نہیں، بلکہ قوموں کے آنسو، بغاوتوں کی صدائیں، اور مظلوموں کی آہیں نقش ہوتی ہیں۔ ایران کا سال 1953ء بھی ایک ایسا ہی لمحہ ہے جب عوام کے ووٹ سے منتخب قیادت کو سامراجی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ڈاکٹر محمد مصدق، وہ روشن خیال، عوام دوست اور قومی غیرت کا علمبردار شخص، جس نے نہ تلوار اٹھائی، نہ بندوق چلائی صرف ایک فیصلہ کیا: “ایرانی تیل، ایران کا حق ہے”۔ یہ ایک فطری، جائز اور خودمختار ریاست کا اقدام تھا، مگر مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کے لیے یہ ناقابلِ برداشت تھا، کیونکہ اس تیل سے محروم ہونا ان کی معیشت اور سامراجی گرفت کے لیے خطرہ تھا۔
چنانچہ CIA اور MI6 نے خاموشی سے ایک سازش کا تانا بانا بُنا۔ میڈیا کو خریدا گیا، سیاسی فتنہ پیدا کیا گیا، اور بالآخر 1953ء میں ایک عوامی حکومت کو گرا کر، ایران کو پھر شاہی آمریت کے سائے میں دھکیل دیا گیا۔ شاہ محمد رضا پہلوی، جو مغربی ایجنڈوں کا وفادار، مگر اپنی قوم سے بیگانہ حکمران تھا، تخت پر بٹھا دیا گیا۔ تخت بچا رہا، مگر قوم کا وقار پامال ہوا۔ خفیہ پولیس (ساواک) کے شکنجے، آزادی اظہار پر پہرے، اور ہزاروں بے قصور قیدی یہی وہ تحفے تھے جو امریکہ اور برطانیہ نے ایران کے عوام کو مصدق کے بدلے میں دیے۔
لیکن ظلم کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ دہائیوں کے جبر کے بعد 1979ء میں ایران نے اپنے زخموں سے انقلاب کے شعلے بھڑکا دیے۔ سڑکیں عوام کے نعروں سے گونج اٹھیں، اور وہی شاہ جو واشنگٹن اور لندن کا لاڈلا تھا، دنیا میں جائے پناہ ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ مگر اس انقلاب کی چنگاری، اس دن بھڑکی تھی جب مصدق کو زبردستی ایوانِ اقتدار سے نکال کر نظر بند کیا گیا۔ یہ انقلاب نہ صرف ایران کی سیاسی تاریخ کا ایک موڑ تھا، بلکہ یہ سامراجی سازشوں کے خلاف شعور کی بیداری بھی تھی۔
ایران کی 1953ء کی بغاوت ہمیں بتاتی ہے کہ جب طاقتور اقوام، کمزور ممالک کے وسائل پر قبضے کے لیے جمہوریت کا گلا گھونٹتی ہیں، تو بالآخر عوام کا شعور بیدار ہوتا ہے اور تاریخ اُن چہروں کو بے نقاب کر دیتی ہے جو آزادی کے نعروں کے پیچھے غلامی کا نظام چلاتے ہیں۔
3- عراق پر حملہ (2003ء): وہ جنگ جو جھوٹ کی کوکھ سے پیدا ہوئی
تاریخ کبھی کبھی چیخ چیخ کر سچ بولتی ہے، مگر سُننے والے تب بھی کانوں میں طاقت، غرور، اور مفاد کی روئی ٹھونس لیتے ہیں۔ 2003ء میں عراق پر امریکہ کی قیادت میں ہونے والا حملہ بھی ایسا ہی ایک المیہ تھا جسے آزادی، سلامتی، اور عالمی امن جیسے دلکش الفاظ میں لپیٹ کر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا، مگر اندرونِ خانہ وہ محض جھوٹ، لالچ، اور انتقام کا ایک خونی کھیل تھا۔
امریکہ نے پوری دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ صدام حسین کے پاس “تباہی پھیلانے والے مہلک ہتھیار” یعنی ایٹمی، کیمیائی اور حیاتیاتی اسلحہ موجود ہیں، جو کسی بھی لمحے عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ یہ بیانیہ میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا، اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر پیش کیا گیا، اور جھوٹ کو اتنی بار دہرایا گیا کہ وہ سچ معلوم ہونے لگا۔
مگر جب امریکی فوجیں بغداد کے در و دیوار کو توپ و تفنگ سے روندتی ہوئیں آگے بڑھیں، تو ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ایک اور سچ عیاں ہوتا گیا ایسے کوئی ہتھیار تھے ہی نہیں۔ نہ کوئی ایٹمی فیکٹری ملی، نہ کیمیائی گودام، نہ وہ خطرناک میزائل جن کی تصویریں پاور پوائنٹ پریزینٹیشنز میں دکھائی گئیں۔ ہاں، جو کچھ واقعی ملا، وہ تھا لاشوں کا انبار، شہروں کا ملبہ، بچّوں کی چیخیں اور ایک قوم کی تباہ شدہ روح!!!
صدام حسین کی آمریت پر لاکھ تنقیدیں ممکن ہیں، لیکن جس “آزادی” کے نام پر عراق پر یلغار کی گئی، اس نے نہ صرف ایک حکومت کو گرایا بلکہ پورے معاشرے کو عدم استحکام، خانہ جنگی اور فرقہ واریت کے دلدل میں دھکیل دیا۔ اسی تباہی کے بطن سے جنم لیا داعش جیسے عفریت نے ایک ایسی دہشتگرد تنظیم جو خود امریکہ کی پیدا کردہ خالی جگہ اور بداعتمادی سے فائدہ اٹھا کر ابھری، اور جس نے نہ صرف عراق، بلکہ پورے خطے میں آگ و خون کا بازار گرم کر دیا۔
عراق کی وہ سر زمین، جو کبھی تہذیبِ انسانی کا گہوارہ تھی، بابل، نینوا، اور بغداد جیسی علمی و تاریخی روایات کا وارث اُسے امریکہ نے محض ایک جھوٹے بہانے پر خاک و خون میں نہلا دیا۔ عراق پر 2003ء کا حملہ محض ایک عسکری کارروائی نہیں تھا، بلکہ سچائی کے گلے پر جھوٹ کے خنجر کا وار تھا۔ یہ تاریخ کا وہ باب ہے جس میں انصاف دفن ہوا، انسانیت روئی، اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک جھوٹ اگر بڑی طاقت کہے لاکھوں سچوں کو مٹی میں دفن کر سکتا ہے۔
4- افغانستان پر حملہ (2001ء)
دنیا ابھی نائن الیون کے دھوئیں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ نیویارک کے ٹاورز سے اٹھنے والے شعلوں نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑا، اور پوری دنیا کے دلوں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مگر اس سانحے کے بعد جس انداز سے امریکہ نے ردعمل دیا، وہ غم سے زیادہ طاقت کے زعم، اور انصاف سے زیادہ انتقام کا استعارہ بن گیا۔ افغانستان ایک شکستہ، تھکی ہوئی، جنگ زدہ قوم جس نے گزشتہ دو دہائیوں میں پہلے سوویت یونین کے پنجے جھیلے، پھر خانہ جنگی کا سامنا کیا، اب ایک بار پھر غیر ملکی حملے کا نشانہ بننے جا رہی تھی۔ امریکہ نے القاعدہ کے چند عناصر کی موجودگی کو جواز بنا کر پورے ملک پر بمباری کی یلغار کر دی، جیسے ایک کانٹے کو نکالنے کے لیے پوری شاخ ہی جلا دی جائے۔
“دہشتگردی کے خلاف جنگ”!! یہی وہ نعرہ تھا جس کے سائے میں بچّوں کے اسکول ملبہ بنے، خواتین بیوہ ہوئیں، بزرگ پناہ گزین کیمپوں میں دم توڑ گئے، اور پورا افغان معاشرہ بارود اور بندوقوں کے شور میں دفن ہو گیا۔ طالبان کی حکومت ضرور گرائی گئی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں بے گناہ افغان شہریوں کی زندگیاں بھی ملبے تلے دفن ہو گئیں۔ امریکہ نے “قوم کی تعمیر” کا وعدہ کیا، مگر اس کے نتیجے میں کرپشن، کٹھ پتلی حکومتیں، مغربی ایجنڈوں کی کھچڑی، اور ناقابلِ فہم عدم استحکام ہی سامنے آیا۔
یہ جنگ 20 برس تک چلتی رہی، ایک نسل اس میں جوان ہوئی، دوسری دفن ہو گئی۔ ہر سال، ہر موسم، افغانستان کی فضاؤں میں ڈرونز کی گونج، سڑکوں پر باردوی سرنگوں کی دھمک، اور گھروں میں یتیمی کی خامشی چھائی رہی۔ اور جب وقتِ رخصت آیا، تو امریکہ نے خاموشی سے بوری بسترا سمیٹا، اور رات کی تاریکی میں وہی طالبان دوبارہ اقتدار میں واپس آ گئے، جنہیں دو دہائیوں پہلے “دہشتگرد” کہہ کر ہٹایا گیا تھا۔
یہ سوال آج بھی افغان فضاؤں میں گونج رہا ہے آخر 20 سال کی جنگ کا حاصل کیا تھا؟ ایک نسل کی قربانیاں، ہزاروں لاشیں، کھنڈرات میں بدلتے شہر!! کیا یہ سب صرف ایک دائرے میں گھومنے کا سفر تھا؟ افغانستان پر 2001ء کا امریکی حملہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جب طاقتور اقوام انصاف کے نام پر انتقام لیں، تو اصل قربانی وہ معصوم عوام دیتے ہیں جو نہ مجرم ہوتے ہیں، نہ فریق صرف ملبہ بن کر تاریخ کے کونے میں دفن ہو جاتے ہیں۔
جدید دنیا میں ظلم کے نئے چہرے: طاقت کی سیاست، معصوموں کی قیمت
وقت بدلتا ہے، چہرے بدلتے ہیں، مگر طاقت کے کھیل کا اصل رنگ ہمیشہ ایک سا ہی رہتا ہے سرخ، لہو کا سرخ۔ آج کا دور، جہاں حقوقِ انسانیت کے عالمی منشور لہرائے جاتے ہیں، وہاں المیہ یہ ہے کہ انہی پرچموں کے سائے میں ظلم کا بازار گرم ہے، اور امریکہ ایک بار پھر اس کھیل کا سب سے بڑا “ناظم” بن کر سامنے آیا ہے۔
1- فلسطین-اسرائیل تنازع: ایک ننگی حقیقت اور مغرب کی مجرمانہ خاموشی
فلسطین، وہ زخمی زمین جس پر ہر صبح سورج نہیں نکلتا، صرف دھواں اور بارود اٹھتا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جاری بمباری، محاصرہ، اور نسل کشی جیسے اقدامات پر دنیا کی آنکھیں نم ہونی چاہئیں، مگر امریکہ کی آنکھیں نہیں وہ تو ان کارروائیوں کے پیچھے کھڑا، ان کا سرپرست بنا نظر آتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں جب فلسطینیوں کی حمایت میں کوئی قرارداد پیش ہوتی ہے، تو واشنگٹن کے ہاتھ میں ایک ویٹو ہوتا ہے جو انصاف کو دفن کرنے کی مہارت رکھتا ہے۔ اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد، جنگی ساز و سامان، اور سیاسی تحفّظ دے کر امریکہ دراصل ایک مظلوم قوم کے زخموں پر نمک نہیں، تیزاب چھڑک رہا ہے۔
2- مسلم ممالک پر ڈرون حملے: موت جو آسمان سے آتی ہے
“انسدادِ دہشتگردی” کا نعرہ، درحقیقت ایک پردہ تھا!! جس کے پیچھے وہ جنگ لڑی گئی جو قانون، اخلاق اور انسانیت کے تمام اصولوں کو روندتی گئی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں، یمن کے گاؤں میں، اور صومالیہ کے صحراؤں میں وہ ڈرون پرواز کرتے رہے جو نہ چہروں کو پہچانتے تھے، نہ معصوموں کو بخشتے تھے۔ ان حملوں میں مارے جانے والے وہ بچّے تھے جو اسکول جا رہے تھے، وہ مائیں تھیں جو روٹی پکا رہی تھیں، وہ خاندان تھے جو امن کی دعا مانگ رہے تھے۔ یہ حملے صرف زمین پر نہیں، اعتماد، انصاف اور عالمی نظام کے چہرے پر بھی کیے گئے۔
3- پراکسی وارز اور معاشی پابندیاں: جدید استعمار کا نیا روپ
شام کی گلیاں، لیبیا کے میدان، وینزویلا کی معیشت، اور ایران کی سڑکیں یہ سب امریکی مفادات کی کشمکش کا میدان بن گئے۔ جب براہِ راست جنگ ممکن نہ رہی، تو پراکسی وارز چھیڑی گئیں! باغی گروہوں کو فنڈنگ، اسلحہ، اور خفیہ مدد دی گئی۔ اور جب زمین پر خون بہانا مشکل لگا، تو معاشی پابندیوں کے ذریعے پوری کی پوری اقوام کو بھوک، بے روزگاری، اور بیماریوں کی طرف دھکیل دیا گیا۔ ظاہر ہے، پابندیوں کا اثر حکومتوں پر کم، مگر عام عوام پر شدید پڑتا ہے جو ادویات، خوراک، اور روزگار کے حق سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔
4- ایران-اسرائیل تنازع: پروپیگنڈے کی فضا میں سچ کا گلا گھونٹا جا رہا ہے
ایران کے خلاف “جوہری ہتھیاروں کی تیاری” کا شور، وہ نغمہ ہے جو دہائیوں سے امریکہ گاتا آ رہا ہے، مگر جس کی کوئی پختہ دھن آج تک سنائی نہ دی۔ اس جھوٹے پروپیگنڈے کے سائے میں امریکہ اسرائیل کو بھرپور تعاون دیتا ہے، تاکہ ایران کو سیاسی طور پر تنہا، اور اقتصادی طور پر مفلوج کر کے اسے جھکنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ کھیل دراصل طاقت کے توازن کو بگاڑنے، اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی اجارہ داری قائم رکھنے کی سازش کا حصّہ ہے۔ ایران کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، تاکہ وہ اشتعال میں آ کر خود وہ ردعمل دے، جسے جواز بنا کر اسے مکمل طور پر تباہ کیا جا سکے۔
آج کا دور وہ ہے جہاں ظلم نئے چہروں میں مسکراتا ہے، اور انصاف مرنے سے پہلے قہقہے سننے پر مجبور ہے۔ امریکہ، جو خود کو دنیا کا ضمیر سمجھتا ہے، وہ دراصل ان بے زبان لاشوں کا مجرم ہے جن کی آوازیں تاریخ کے سینے میں دفن ہیں۔ دنیا کو اب ان ویٹوز، ڈرونز، پابندیوں اور پروپیگنڈوں کے پیچھے چھپے سامراجی چہرے کو پہچاننا ہوگا ورنہ انسانیت اسی طرح چند طاقتوروں کی مٹھی میں قید، اور مظلوموں کے خون سے رنگین رہے گی۔امریکی فیصلوں کی بازگشت: جب طاقت کے فیصلوں نے انسانیت کو تاریکی میں دھکیل دیا۔
جب فیصلے واشنگٹن کی میزوں پر بیٹھ کر ہوتے ہیں، تو اُن کا لرزہ کابل، بغداد، دمشق، اور صنعاء کی گلیوں میں محسوس ہوتا ہے۔ جب ایک دستخط سے کسی قوم پر پابندی لگتی ہے، تو وہ صرف اقتصادی نہیں، انسانی زندگیوں پر پابندی بن جاتی ہے روٹی پر، دوا پر، سانس پر۔ امریکہ کے سیاسی، فوجی اور معاشی فیصلے، جو بظاہر “عالمی استحکام” یا “جمہوری اقدار” کے نام پر کیے جاتے ہیں، درحقیقت ایسی تباہ کاریوں کے دروازے کھولتے ہیں جو نسلوں تک بند نہیں ہوتے۔
جنگ، بھوک، پناہ گزینی، اور بدامنی یہ سب الفاظ نہیں، بلکہ وہ سچ ہیں جو ان لاکھوں بے گناہ لوگوں کے وجود پر نقش ہو چکے ہیں جو ان فیصلوں کا ایندھن بنے۔ کبھی کسی ملک کو “خطرہ” قرار دے کر اس پر میزائل برسائے جاتے ہیں، اور کبھی “معاشی اصلاحات” کے نام پر ایسے قرضے دیے جاتے ہیں جن کی زنجیروں میں پورا معاشرہ قید ہو جاتا ہے۔ مقامی معیشتیں جو محنت، ثقافت، اور خودداری سے پھلتی تھیں امریکی مداخلت کے بعد یا تو عالمی کارپوریشنز کے رحم و کرم پر آ جاتی ہیں، یا IMF اور World Bank کے دباؤ میں، صرف اعداد و شمار بن کر رہ جاتی ہیں۔ کسان زمین چھوڑ دیتا ہے، مزدور وطن اور ایک پوری قوم اغیار کے مفادات کی منڈی بن جاتی ہے۔
جب سب کچھ چھن جائے، تو امید بھی چھن جاتی ہے اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں انتہاء پسندی جنم لیتی ہے۔ جب نوجوانوں کے ہاتھ میں قلم نہ ہو، پیٹ میں نان نہ ہو، اور دل میں امن کا خواب نہ ہو، تو وہ یا تو خود کو تباہ کر لیتے ہیں یا دوسروں کو۔ امریکہ نے جہاں جہاں بم برسائے، وہاں وہاں دہشتگردی نے جنم لیا کیونکہ فاقہ کشی، ظلم اور بے بسی وہ زہر ہے جو نفرت کو جنم دیتا ہے۔ امریکہ کے فیصلے، اگرچہ اس کی سرحدوں میں سکون اور خوشحالی لا سکتے ہیں، مگر باقی دنیا کے لیے وہ زلزلہ ہوتے ہیں جو گھروں کو کھنڈر، بچّوں کو یتیم، اور امن کو خواب بنا دیتے ہیں۔ یہ دنیا اب مزید ان فیصلوں کی متحمل نہیں ہو سکتی جن میں طاقت ہو، مگر درد نہ ہو؛ جن میں منصوبے ہوں، مگر انسان نہ ہوں۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو عدل، رحم، اور انسانی عظمت کا علمبردار ہے۔ قرآن کا پیغام واضح ہے کہ “اِنَّ اللّٰهَ يَأمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسانِ…”۔ (بیشک اللّٰہ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے) (سورۃ النحل: 90)۔ اسلامی تعلیمات ظلم کے کسی بھی روپ کی سختی سے مذمت کرتی ہیں، چاہے وہ کسی قوم پر مسلط کیا گیا ہو، کسی فرد کی آزادی کو چھینا گیا ہو، یا معصوموں کا خون بہایا گیا ہو۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: “اتقوا دعوة المظلوم، فإنها ليس بينها وبين الله حجاب”۔ (مظلوم کی دعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللّٰہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا) (صحیح بخاری)۔
امریکہ کی پالیسیاں، جن میں جھوٹ، فریب، اور طاقت کے نشے میں معصوموں پر ظلم کیا گیا، صرف سیاسی یا جغرافیائی مسئلہ نہیں، بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے ایک کھلی بغاوت ہے اُس عدلِ الٰہی کے خلاف جسے زمین پر نافذ کرنے کے لیے انبیاء مبعوث کیے گئے۔ اُمّتِ مسلمہ کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں نہ صرف تاریخ سے سبق لینا ہے بلکہ قرآن و سنّت کے نور سے اپنے حال و مستقبل کو روشن کرنا ہے۔ اسلام ظلم کے خلاف خاموش رہنے کو بزدلی سمجھتا ہے، اور حق کے لیے کھڑے ہونا “جہادِ اکبر” یعنی نفس اور ظلم کے خلاف سب سے عظیم جہاد قرار دیتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے دلوں کو ایمان، آنکھوں کو بصیرت، اور زبانوں کو سچائی سے روشن کریں، تاکہ ہم نہ صرف ظلم کو پہچان سکیں بلکہ اس کے خلاف آواز بن سکیں۔ “وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ…”۔ (اور ظالموں کی طرف ذرا بھی نہ جھکو، ورنہ تمہیں جہنم کی آگ چھو لے گی) (سورۃ ہود: 113)۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں سچائی کو سچ جاننے، اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور وہ دن جلد لائے جب دنیا میں عدل کا پرچم بلند ہو، اور ہر مظلوم کو اس کا حق ملے، خواہ وہ فلسطین کا بچّہ ہو یا افغانستان کی ماں۔ وَاللهُ أَعلَمُ بِالصَّوَاب
           •┅┄┈•※‌✤م✿خ✤‌※┅┄┈•
       🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!