مضامین
انسانیت بمقابلہ استعمار”اہلِ غزہ” اور ’آپریشن اورورا’

══════•○ا
ا○•══════






•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
"اور تم ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکو، ورنہ تمہیں بھی آگ چھو لے گی”۔ (ہود: 113)
اسلام ایک ایسا دین ہے جو مظلوم کی حمایت، عدل کی سربلندی اور ظلم کے ہر روپ کے خلاف مزاحمت کا داعی ہے۔ قرآن بارہا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ باطل کی قوت وقتی ہے، مگر حق کی صداقت دائمی ہے۔ نبوت کے پیغام کا مرکزی محور ہی یہی ہے کہ ضعیف کو اس کا حق دیا جائے، یتیم کو نہ جھڑکا جائے، اور مظلوم کے لیے آواز بلند کی جائے۔ فلسطین، اور خصوصاً غزہ، آج اُمّتِ مسلمہ کا مجروح دل ہے۔ وہ جگہ جہاں اذانیں توپوں کے سائے میں دی جاتی ہیں، وہ ماں جو اپنے لختِ جگر کو کفن میں لپیٹ کر صبر کی چادر اوڑھ لیتی ہے، وہ بچّہ جو ملبے کے درمیان بھی کتاب تھامے بیٹھا ہے یہ سب اسلامی روحِ مزاحمت کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔
جیسے نبی کریمﷺ نے ابو جہل کے ظلم کے خلاف کمزوروں کی حمایت کی، حبشہ کے نجاشی نے مظلوم مہاجروں کو پناہ دی، اور خلفائے راشدین نے مظلوموں کی آواز کو اپنی آواز بنایا ویسے ہی آج کا ہر زندہ دل مسلمان غزہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ "آپریشن اورورا” Operation Aurora جیسا منصوبہ صرف ایک سیاسی یا مالی منصوبہ نہیں، بلکہ انسانیت کے وقار، اسلامی اخوت، اور مظلوم کی حرمت پر حملہ ہے۔ اور ایک سچے مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ ظلم کو نہ صرف پہچانے، بلکہ اس کے خلاف قلم، زبان، اور دعا کے ہر ممکن ذریعہ سے جہاد کرے۔
فلسطین کی مظلوم سر زمین، خصوصاً غزہ، گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی استعماری طاقتوں کی جارحیت، محاصرے اور مظالم کا شکار ہے۔ صہیونی ریاست اسرائیل اور اس کے عالمی سرپرستوں نے صرف فوجی طاقت سے نہیں بلکہ سیاسی، معاشی اور نفسیاتی حربوں سے بھی غزہ کے عوام کو ان کے حقِ وطن، حقِ حیات اور حقِ مزاحمت سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ حال ہی میں برطانوی جریدے فائنانشل ٹائمز کی ایک تحقیقاتی رپورٹ نے ایک نہایت ہی گھناؤنے منصوبے کو بے نقاب کیا ہے، جس کا نام ہے "آپریشن اورورا”۔ اس منصوبے کا مقصد ہے: غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن سے دھوکہ دہی کے ذریعے بے دخل کرنا۔
سازش کی تفصیل:
1. خفیہ مالیاتی ماڈل: Boston Consulting Group (BCG) نے "آپریشن اورورا” کے تحت ایک مالیاتی ماڈل تیار کیا، جس میں اندازہ لگایا گیا کہ ہر فلسطینی کو تقریباً $9,000 "relocation package” کی ترغیب دے کر دوسرے ممالک میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ منصوبہ نصف ملین سے زائد افراد پر مشتمل تھا، جس پر مجموعی طور پر $4–5 ارب کی لاگت متوقع تھی۔
2. تنظیم کا نقاب: اس سازش کی عملی شکل Gaza Humanitarian Foundation (GHF) کے ذریعے دی گئی، جو امریکی و اسرائیلی حمایت سے قائم کی گئی۔ بظاہر یہ تنظیم "انسانی امداد” کے نام پر سرگرم تھی، مگر درحقیقت یہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں، زمینوں اور تشخص سے محروم کرنے کا ایک بہروپ تھا۔
3. عالمی ردّعمل: اقوامِ متحدہ اور دیگر 170 سے زائد انسانی حقوق کی تنظیموں نے GHF کو "فگ لیف” یعنی ایک نقلی پردہ قرار دیا، اور اس کے ساتھ ہر قسم کے تعاون سے انکار کر دیا۔ دنیا بھر میں اس منصوبے کو جبری ہجرت اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
4. بی سی جی کی پسپائی: جب یہ منصوبہ منظر عام پر آیا، تو BCG نے دعویٰ کیا کہ یہ منصوبہ کمپنی کی پالیسی کے خلاف چند افراد کا ذاتی اقدام تھا۔ اس انکشاف کے بعد BCG نے اندرونی و بیرونی تحقیقات کا آغاز کیا اور دو سینئر پارٹنرز کو برطرف کیا، ساتھ ہی عوامی معذرت بھی پیش کی۔
5. ہلاکتوں کی آڑ میں امداد: جی ایچ ایف (GHF) کے مراکز کے گرد ہلاکتوں کی خبریں سامنے آئیں، اور اقوامِ متحدہ نے تصدیق کی کہ ان سرگرمیوں کے دوران 400–600 فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ یہ عمل امداد کے نام پر نسل کشی اور قبضے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔
"آپریشن اورورا” کے ذریعے جس "انسانی ہمدردی” کا دعویٰ کیا گیا، وہ درحقیقت استعمار کا نیا چہرہ ہے۔ یہ منصوبہ وہ کچھ چھیننے کی کوشش ہے جو اسرائیل مسلسل بمباری، محاصرے اور ظلم کے باوجود غزہ سے حاصل نہ کر سکا: زمین، شناخت اور مزاحمت۔ فلسطینی عوام نے بارہا واضح کیا ہے کہ ” ہمیں ہماری شہادتوں، مصیبتوں اور قربانیوں کے بدلے کوئی زمین، کوئی سکون، کوئی رقم نہیں چاہیے ہمیں اپنا وطن اور اپنی آزادی چاہیے”۔
غزہ کے عوام محض امداد کے منتظر نہیں ہیں، وہ اپنی مزاحمت کی بدولت پوری دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ ہر بچہ جو اپنے کھنڈر گھر میں بھی پڑھنے کی کوشش کرتا ہے، ہر ماں جو اپنے بیٹے کی شہادت پر صبر کے ساتھ سجدہ شکر بجا لاتی ہے، ہر وہ نوجوان جو ملبے تلے سے بھی "اللّٰہ اکبر” کی صدا بلند کرتا ہے وہ دراصل استعمار کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ ہے۔ آج کا دور انسانی حقوق، عالمی قانون، اور بین الاقوامی انصاف کا دعویدار ہے۔ مگر جب معاملہ فلسطین کا آتا ہے، تو وہی ادارے جو یوکرین، ہانگ کانگ یا روہنگیا کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، فلسطینیوں کے حق میں خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ "آپریشن اورورا” جیسے منصوبے اس تلخ حقیقت کی علامت ہیں کہ انسانی حقوق کا عالمی بیانیہ بھی مفادات کے تابع ہو چکا ہے۔
یہ منصوبہ صرف غزہ کے خلاف نہیں، بلکہ تمام مظلوم اقوام کے خلاف ایک خطرناک نظیر ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم ہمیشہ نئے چہرے، نئے طریقے اور نئے بہانے اختیار کرتا ہے، مگر اس کا اصل مقصد ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے کمزور کو اس کی زمین، شناخت اور آزادی سے محروم کرنا۔ غزہ کے عوام نے ایک بار پھر پوری دنیا کو یاد دلایا ہے کہ: "نہ ہم اپنا وطن چھوڑیں گے، نہ اپنی مزاحمت!”۔ ہمیں نہ صرف "آپریشن اورورا” جیسے منصوبوں کو بے نقاب کرنا ہے بلکہ ان کے خلاف مسلسل آواز بلند کرنی ہے۔ غزہ کی جنگ صرف ان کی نہیں، انسانیت کی بقاء کی جنگ ہے۔ غزہ زندہ ہے کیونکہ اس کی روح مزاحمت سے سرشار ہے۔ اور مزاحمت کبھی مرا نہیں کرتی۔
دنیا کے ظالم نظاموں، کارپوریٹ منصوبہ سازوں، اور منافق عالمی اداروں کے لیے غزہ محض ایک محصور سر زمین ہوسکتی ہے، لیکن اہلِ ایمان کی نگاہ میں یہ وہ مقدس خطہ ہے جہاں صبر، شہادت اور مزاحمت نے اپنے خیمے گاڑ رکھے ہیں۔ جہاں خاک اڑتی ہے، وہیں ماؤں کی گود میں بے خوف مجاہد جنم لیتے ہیں، جہاں چھتیں نہیں، وہیں قرآن کے حافظ پیدا ہوتے ہیں، جہاں پانی کی بوند بوند کو ترستے لب ہیں، وہیں اللّٰہ اکبر کی صدائیں افق کو چیرتی ہیں۔
"آپریشن اورورا” جیسا منصوبہ اُس زخم کو اور گہرا کر گیا ہے جو صہیونی استعمار نے فلسطینی جسم پر عرصہ دراز سے کاری وار کر کے چھوڑا ہے۔ مگر استعمار کی یہ بدنیتی، اور سرمایہ دارانہ منصوبہ بندی کی یہ مکاری فلسطینیوں کی اُس فطری وابستگی کو ہرگز نہیں توڑ سکتی جو انہیں ارضِ مقدس سے ہے، نہ اس جذبے کو ختم کر سکتی ہے جو ان کے دلوں میں مزاحمت اور آزادی کے لیے دہک رہا ہے۔
یقیناً یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ طاقت، دولت، ذرائع ابلاغ اور عالمی ادارے بظاہر استعماری طاقتوں کے ساتھ کھڑے ہیں، مگر تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ حق اور عدل کے حق میں ہوا ہے۔ فرعون کے دربار سے لے کر نمرود کے قلعے تک، اور ابو جہل کے خیمے سے لے کر آج کے صہیونی لابیوں تک ظلم کی تاریخ ایک جیسی ہے، اور مزاحمت کا انجام ہمیشہ روشنی کا پیغام لے کر آیا ہے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ غزہ کی حمایت محض سیاسی وابستگی نہیں، بلکہ یہ ایمانی تقاضا ہے۔ یہ وقت خاموش تماشائی بنے رہنے کا نہیں، بلکہ قلم، قدم، اور دعا کے ساتھ غزہ کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ظلم کے خلاف بولنے سے کچھ نہیں بدلتا، وہ تاریخ کے اُن صفحات کو نہیں دیکھتے جن پر حضرت موسیٰؑ، حضرت ابراہیمؑ اور نبی کریمﷺ کے قدم ثبت ہیں۔
آج ہر ذی شعور انسان پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غزہ کے خلاف اس سفاک منصوبے کو صرف رد نہ کرے، بلکہ اس کے خلاف ایک اخلاقی مورچہ قائم کرے۔ کہ قلم کو تلوار بنائے، دعا کو ڈھال بنائے، اور ظلم کے ہر چہرے کو بے نقاب کرنے کا عزم لے کر اٹھے۔ کیونکہ غزہ کا مقدمہ صرف فلسطینیوں کا نہیں یہ انسانیت، اخوت، غیرت، اور حریتِ فکر کا مقدمہ ہے۔ اور جو قومیں ان مقاصد کے لیے آواز نہیں اٹھاتیں، وہ تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو جایا کرتی ہیں۔ غزہ زندہ ہے، مزاحمت زندہ ہے اور ان شاء اللّٰہ! آزادی کی صبح بھی جلد طلوع ہوگی۔ یہ وعدہ ہے مظلوموں کے خدا کا اور وہ وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔
