مضامین
انسانی ضمیر پر دستک: بھوک کا عالمی نوحہ



•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
اسلام، نہ صرف ایک دین بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس کی اساس عدل، رحم، مواخات اور مساوات پر قائم ہے۔ قرآنِ مجید کے صفحات بار بار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسانیت کی معراج اس وقت ہے جب وہ اپنے کمزور، بھوکے، پیاسے، اور محتاج بھائیوں کی فکر کرے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے سورۃ الماعون میں ایسے لوگوں پر افسوس کا اظہار فرمایا جو یتیم کو دھکے دیتے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے۔ پیغمبرِ رحمت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا: "وہ شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جو خود پیٹ بھر کر کھائے جب کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو”۔
اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں قحط پڑنے پر حکمرانوں نے سب سے پہلے اپنی خوراک روکی، عوام کے ساتھ بیٹھ کر فاقے کیے، اور بیت المال کو رعایا کے لیے کھول دیا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کے زمانے میں فقر و فاقہ اس قدر مٹ چکا تھا کہ زکوٰۃ لینے والا
کوئی نہ ملتا تھا۔ یہ سب اس تعلیم کا اثر تھا جس نے انسان کو صرف ایک جسم نہیں بلکہ ایک روحانی ذمّہ داری بھی سمجھا۔

آج، جب بھوک انسانیت کا سب سے بڑا سانحہ بن چکی ہے، جب وسائل کی فراوانی کے باوجود کروڑوں انسان نوالے کو ترس رہے ہیں، تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کہاں کھو گئی وہ تعلیم جس نے "کفالتِ عامہ” کو عبادت کا درجہ دیا؟ کہاں گم ہو گئی وہ روح، جو معاشی عدل کو ایمان کا لازمی تقاضا مانتی تھی؟ یہ مضمون نہ صرف اعداد و شمار کی ایک رپورٹ ہے بلکہ ہماری اجتماعی غفلت، بے حسی اور مادہ پرستی کے خلاف ایک خاموش احتجاج بھی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایک ایسے عالمی ضمیر کو بیدار کریں، جو ہر بھوکے انسان کو اپنا بھائی، اور ہر فاقہ زدہ چہرے کو اپنی ذمّہ داری سمجھے۔
دنیا کے افق پر ابھرنے والی تازہ ترین رپورٹ، اقوام متحدہ کے قلم سے تحریر شدہ وہ نوحہ ہے جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہے۔ یہ محض اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں، بلکہ انسانیت کی اجتماعی ناکامی کا نوحہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 2023ء میں جن 28؍ کروڑ 16؍ لاکھ انسانوں نے بھوک کی تپتی دھوپ میں اپنے پیٹ پر پتھر باندھے، اب اُن کی تعداد بڑھ کر 29؍ کروڑ 53؍ لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ یہ اضافہ محض ایک سال کا نہیں، بلکہ مسلسل چھ سالوں پر محیط اس افسوسناک سلسلے کا تسلسل ہے، جہاں ہر سال بھوک کا عفریت مزید بے رحم اور سفاک ہوتا جا
رہا ہے۔

65؍ ممالک پر محیط اس تحقیق کے نتائج نہایت تشویشناک ہیں۔ ان میں سے 53؍ ممالک کی آبادی کا ایک چوتھائی حصّہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے، یعنی ہر چوتھا فرد روزانہ کی روٹی کے لیے اذیت کی چکی میں پستا ہے۔ ان میں ایسے افراد کی تعداد بھی کم نہیں جو قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں، جن کے لیے ہر دن، ہر گھڑی، موت کی آمد کا ایک نیا خدشہ لے کر آتی ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد اب 19؍ لاکھ ہو چکی ہے—پچھلے برس کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی ہے، جو کہ دنیا کی اجتماعی بے حسی کا ثبوت ہے۔
غزہ کی سر زمین، جو کبھی زیتون کے درختوں، خوشبو دار ہواؤں اور صدیوں پرانی تہذیبوں کی امین تھی، آج اسرائیلی محاصرے میں دم توڑتی انسانیت کا منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔ فوڈ سیکیورٹی مانیٹر کے مطابق غزہ میں دو ماہ سے شہری بھوک کے ہاتھوں تڑپ رہے ہیں، ان کی چیخیں اقوام عالم کے ایوانوں میں گونجنے کے باوجود بے صدا رہ گئی ہیں۔ سوڈان، یمن اور مالی جیسے خطے بھی بدامنی، خانہ جنگی اور معاشی زوال کی لپیٹ میں آ کر بھوک کے سمندر میں غرق ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس صورتحال کو "تباہ کن” کہا ہے، لیکن الفاظ کی گونج، خالی پیٹ کی سسکیوں کو سیراب نہیں کر سکتی۔
ان کروڑوں بھوکے انسانوں کے مقابلے میں ایک اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی خوراک کا ایک تہائی حصّہ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ زخم ہے جو معاشی نظام کی بے روح خود غرضی اور انسانی ضمیر کی سنگ دلی کو بے نقاب کرتا ہے۔ جب ایک طرف بچّے بھوک سے نڈھال ہو کر ماں کی چھاتی پر دم توڑ دیں، اور دوسری طرف امیر شہروں کے فریجوں میں کھانے سڑ جائیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، بلکہ عدل کی موت ہے۔
یہاں جو کربناک منظر کھینچا گیا ہے، وہ دراصل انسانی ضمیر کی بے حسی اور معاشی نظام کی غیر منصفانہ ساخت کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلام نہ صرف اس درد کو محسوس کرتا ہے بلکہ اس کے علاج کے لیے ٹھوس اصول، نظام اور رویے فراہم کرتا ہے۔
وسائل کی کمی نہیں، عدل کی کمی ہے – اور اسلام عدل کا علمبردار ہے: اسلامی معیشت کی بنیاد ہی عدل پر ہے۔ قرآن اعلان کرتا ہے: "إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ”۔ (بے شک اللّٰہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ – سورہ النحل: 90)۔ اسلامی ریاست کی ذمّہ داری ہے کہ وہ دولت کے ارتکاز کو روکے، معاشی توازن قائم کرے، اور ہر فرد کو اس کا حق دے۔
خوراک کا ضیاع – ایک اخلاقی جرم: رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا: "كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا فِي غَيْرِ سَرَفٍ وَلَا مَخِيلَةٍ”۔ (کھاؤ، پیو اور صدقہ کرو، مگر اسراف اور تکبر کے بغیر۔ – سنن نسائی)۔ آج جب خوراک فیشن کا حصّہ بن چکی ہے، اور اسے فضلہ سمجھ کر پھینکا جاتا ہے، تو اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر لقمہ اللّٰہ کی امانت ہے اور اس کا حساب ہوگا۔
نظامِ زکوٰۃ و صدقات – فقر کے خلاف ڈھال: اسلام نے غربت کے خاتمے کے لیے زکوٰۃ کو فرض قرار دیا اور صدقہ، فدیہ، کفارہ، عشر، اور وقف
جیسے متعدد ذرائع پیدا کیے تاکہ محروم طبقے کی بھوک مٹائی جا سکے۔

فرد، خاندان، اور معاشرہ – ہر سطح پر جوابدہی: اسلام فرد کو سیر ہو کر کھانے کے بعد بھوکے پڑوسی کی فکر کا پابند کرتا ہے، اور معاشرے کو یہ شعور دیتا ہے کہ بھوک کسی ایک کا نہیں، سب کا مسئلہ ہے۔
اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ اصل مسئلہ خوراک کی قلت نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کی قحط سالی ہے۔ جب دلوں میں ایمان اور سماج میں عدل ہو، تو نہ کوئی بھوکا مرتا ہے اور نہ ہی کوئی کھانا ضائع ہوتا ہے۔ اگر دنیا اسلامی معاشی اخلاقیات کو اپنائے، تو نہ صرف فریج کے کھانے بچیں گے، بلکہ فاقہ کش بچّوں کی زندگیاں بھی۔
یہ رپورٹ ہمیں محض متوجہ کرنے کے لیے نہیں، بلکہ متحرک کرنے کے لیے ہے۔ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں، ترجیحات اور طرزِ زندگی پر نظر ثانی کریں۔ دنیا کو ایک بار پھر خوراک کو نعمت اور انسان کو امانت سمجھنے کی ضرورت ہے، ورنہ بھوک کا یہ تیزاب سب کچھ گلا دے گا، تہذیب و تمدّن کے دعوے بھی، اور انسانیت کی باقی ماندہ رمق بھی۔ یہاں جس فکری اور اخلاقی بیداری کی دعوت دی گئی ہے، اسلام اس کے لیے پہلے ہی ایک جامع رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام ہمیں درج ذیل بنیادی پیغامات دیتا ہے:
خوراک کو نعمت سمجھنا: قرآن مجید بار بار رزق کو اللّٰہ کی نعمت قرار دیتا ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے: "فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ”۔ (اللّٰہ نے جو حلال و پاکیزہ رزق دیا ہے، اسے کھاؤ اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو۔ – سورہ النحل: 114)۔ اسلام خوراک کے اسراف، فضول خرچی، اور ضیاع کو سخت ناپسند کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف اللّٰہ کی ناشکری ہے بلکہ دوسروں کے حق پر بھی ڈاکہ ہے۔
انسان کو امانت سمجھنا: اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر انسان خلیفۃ اللّٰہ فی الارض ہے، یعنی زمین پر اللّٰہ کا نائب۔ "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ”۔ (ہم نے بنی آدم کو عزّت دی۔ – سورہ الاسراء: 70)۔ یہ عزّت انسان کی بنیادی ضروریات – خصوصاً خوراک، لباس، اور رہائش – کے تحفّظ کی ضامن ہے۔ اسلامی ریاست اور معاشرہ ان حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
غربت اور بھوک کے خلاف اقدام: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ليس المؤمن بالذي يبيت شبعان وجاره جائع إلى جنبه وهو يعلم”۔ (وہ شخص مؤمن نہیں جو خود سیر ہو کر سوئے جب کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔ – مستدرک حاکم)۔ اسلام نہ صرف انفرادی سطح پر صدقہ، زکوٰۃ اور خیرات کی ترغیب دیتا ہے بلکہ اجتماعی سطح پر فقر و فاقہ کے خاتمے کے لیے بیت المال، کفالتِ عامہ اور عدلِ معاشی نظام قائم کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اسلام ہمیں متوجہ ہی نہیں کرتا، بلکہ متحرک کرتا ہے؛ وہ ہمیں محض خوراک کی اہمیت نہیں سکھاتا بلکہ انسان کی عظمت، معاشی انصاف اور انسانی کرامت کے تحفّظ کے لیے عملی نظام دیتا ہے۔ اگر دنیا اس اسلامی پیغام کو اپنائے، تو بھوک کا یہ "تیزاب” تہذیب کو گُھلا نہیں سکے گا، بلکہ انسانیت ایک نئی زندگی پائے گی۔
اسلام بھوک کے خلاف صرف ہمدردی کا پیغام نہیں دیتا، بلکہ اس کا پورا نظامِ معیشت، فقر و فاقہ کے خاتمے، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور معاشرتی عدل پر مبنی ہے۔ قرآن، بھوکے کو کھانا کھلانے کو نجات کے راستوں میں سے ایک قرار دیتا ہے: "اور وہ قیدی، یتیم اور مسکین کو کھانا کھلاتے ہیں، اللّٰہ کی محبت میں، (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں محض اللّٰہ کے لیے کھلاتے ہیں، نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ” (الانسان: 8-9)۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو” (مسند احمد)۔ یہ حدیث صرف انفرادی احساس کی نہیں، بلکہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کی دعوت ہے جو دوسروں کے فاقے کو اپنی ذمّہ داری سمجھے۔ زکوٰۃ، صدقات، بیت المال اور وقف جیسے ادارے اسلامی نظام میں صرف عبادات نہیں بلکہ فقر و افلاس کے خاتمے کے عملی ذرائع ہیں۔
لہٰذا، جب اقوامِ متحدہ کی رپورٹ ہماری اجتماعی ناکامی کا نوحہ پڑھتی ہے، تو ہمیں اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جو نہ صرف بھوک کے خاتمے کا نظریہ رکھتی ہیں، بلکہ اس کے عملی اطلاق کا بھی جامع منصوبہ پیش کرتی ہیں۔ جب تک دنیا کا نظامِ معیشت "عدل” کی بنیاد پر استوار نہیں ہوتا، بھوکے پیٹوں کی آہیں ایوانوں میں گونجتی رہیں گی، اور زمین عدل کی پیاسی بنی رہے گی۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اسلامی اصولوں کو صرف مسجدوں تک محدود رکھنے کے بجائے، عالمی ضمیر کی بیداری کا ذریعہ بنائیں—تاکہ ہر بھوکا انسان سیر ہو کر سو سکے، اور ہر محروم چہرے پر عزّت کا نور چمک سکے۔

