مضامین

اُمّت کی فکری بازیافت وقتی نعرے سے دیرپا حکمت تک

   ✍۔مسعود محبوب خان (ممبئی)
             فون 09422724040
قوموں کی زندگی میں بحران کا آنا کوئی غیر معمولی یا انہونی بات نہیں۔ یہ زندگی کی اس فطری کشمکش کا حصّہ ہے جو ترقی اور زوال کے بیچ برپا رہتی ہے۔ دنیا کی ہر بڑی تہذیب، ہر عظیم قوم، کسی نہ کسی موڑ پر شدید بحرانوں سے دوچار ہوئی ہے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں سرخرو ہوئیں جنہوں نے ان بحرانوں کو جذبات کے طوفان نہیں، عقل کی روشنی، تدبر کی بصیرت، اور اجتماعی شعور کے ساتھ سمجھا اور اس کا سامنا کیا۔
رومن سلطنت کے ابتدائی دور میں جب اندرونی خلفشار نے سر اٹھایا، تو ریاست نے سیاسی اصلاحات، سماجی ہم آہنگی اور قانون کی حکمرانی سے اپنا توازن بحال کیا۔ عباسی خلافت، جس پر فتنوں، سازشوں اور خارجی حملوں کا دباؤ تھا، اس نے علمی و فکری ترقی کے ذریعے اپنی شناخت کو نئی جہت دی۔ بغداد کی گلیاں یونانی فلسفے، ایرانی حکمت اور ہندی ریاضیات سے گونجنے لگیں۔ برطانیہ نے صنعتی انقلاب سے پہلے معاشی زوال اور سماجی ابتری کا سامنا کیا، مگر بصیرت مند قیادت اور تعلیم کے فروغ نے اسے دنیا کی طاقتور قوموں میں لا کھڑا کیا۔
لیکن دوسری جانب، وہ قومیں جو ہر بحران کو صرف وقتی غصّے، شوریدہ بیانی، اور احتجاجی نعرہ بازی سے ٹالنے کی کوشش کرتی رہیں، وہ یا تو وقت کے دھارے میں بہہ گئیں یا تاریخ کے ملبے تلے دفن ہو گئیں۔ جذبات ایک لمحے کی حرارت تو دے سکتے ہیں، مگر وہ تعمیر کی مستقل بنیاد نہیں رکھ سکتے۔ جیسے کوئی مریض ہر بار درد میں صرف پین کلر کھا کر جیتا ہے، مگر اصل بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کی جستجو نہیں کرتا، ویسے ہی وہ معاشرے جو بحران کی جڑ تک پہنچنے کے بجائے سطحی ردعمل پر اکتفا کرتے ہیں، ان کا زوال مقدر بن جاتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی یہی افسوسناک روایت راسخ ہو چکی ہے۔ کوئی بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے چاہے وہ مہنگائی کا ہو یا عدالتی بحران، معاشرتی بے انصافی ہو یا سیاسی انتشار، ہم پہلے مرحلے میں ایک شور برپا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر طوفان اٹھتا ہے، چند بیانات دیے جاتے ہیں، عدالتی چارہ جوئی کی خبریں آتی ہیں، کچھ روز بعد جلسے جلوس ہوتے ہیں، اور پھر… سناٹا۔ گویا ہم نے مسئلے کا مستقل حل نہیں نکالا بلکہ فقط وقتی جذبات کی بھاپ خارج کر دی۔
قومیں جذبات سے بنتی ہیں، مگر صرف جذبات سے نہیں۔ انہیں حکمت، علم، مکالمہ، تنقید اور سنجیدہ ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تک ہم مسائل کو اس کی جڑ سے سمجھ کر دیرپا حل تلاش نہیں کریں گے، ہم صرف دکھ کا لیپ لگا کر تسلی پاتے رہیں گے، اور ہماری حالت وہی رہے گی جیسے کسی خستہ حال عمارت پر صرف رنگ و روغن کر دیا جائے، مگر بنیاد کی دراڑیں باقی رہیں۔ یہی وقت ہے کہ ہم اجتماعی خوداحتسابی کی طرف بڑھیں۔ ہمیں اپنے طرزِ فکر، ردِعمل، اور قومی رویوں کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ بصورت دیگر، تاریخ ہم پر بھی وہی فیصلہ صادر کرے گی جو وہ ان اقوام پر کر چکی ہے جنہوں نے اپنی غلطیوں سے کچھ نہ سیکھا۔
■ ردّعمل بمقابلہ تجزیہ — جذبات کی لَے اور شعور کی گہرائی
کسی بھی زندہ قوم کی پہچان یہ نہیں کہ وہ حادثات سے محفوظ رہتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ حادثے کے بعد کس طرح خود کو سنبھالتی ہے، کس روش کو اختیار کرتی ہے: ردّعمل کی ہنگامہ خیز لَے کو؟ یا تجزیے کی سنجیدہ گہرائی کو؟ بدقسمتی سے، ہمارا قومی مزاج اس حقیقت کا غماز بن چکا ہے کہ ہم اکثر چیختے تو بہت ہیں، مگر سمجھتے کم ہیں؛ بولتے بہت ہیں، مگر سنتے نہیں؛ ردّعمل تو فوری ہوتا ہے، مگر تجزیہ یا احتساب کا عمل اکثر یا تو غائب ہوتا ہے یا محض رسمی دکھاوا بن کر رہ جاتا ہے۔
حادثہ پیش آتا ہے کوئی سیاسی بحران، عدالتی فیصلہ، معاشی زوال، یا سماجی انتشار تو ہم سڑکوں پر آ جاتے ہیں، ٹی وی اسکرینوں پر بحثیں چھڑ جاتی ہیں، سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگز کی برسات ہو جاتی ہے، مگر جیسے ہی وقت کا دباؤ کم ہوتا ہے، ویسے ہی جذبہ تحلیل ہو جاتا ہے، گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ ہم نے طوفان میں آوازیں تو بلند کیں، مگر یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ یہ طوفان آیا کیوں؟ کن بنیادوں پر آیا؟ اس کی گہرائی میں کون سی دراڑیں تھیں؟ وہ کون سے ناقص فیصلے، خاموش رویے، اور مسلسل نظر انداز کیے جانے والے مسائل تھے جنہوں نے بالآخر ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا؟
یہ رویہ بالکل ویسا ہے جیسے کوئی شخص ہر بار بخار آنے پر صرف پیناڈول لے لے، مگر اس بات کی تحقیق نہ کرے کہ بخار کسی اندرونی بیماری کا اشارہ تو نہیں۔ قومیں بھی ایسے ہی مریض کی مانند ہوتی ہیں جو محض علامتوں کو دبانے پر مطمئن ہو جائے، اور مرض جڑ پکڑتا چلا جائے۔ اسی طرح جدید دنیا کی مثال لیجیے، جاپان پر جب دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹمی حملہ ہوا، تو اس قوم نے واویلا نہیں مچایا، نہ ہی دنیا سے طویل شکایتیں کیں؛ بلکہ انہوں نے اپنے ملبے پر علم، تحقیق، محنت اور اخلاقی نظم کی بنیاد پر ایک نئی تہذیب کی عمارت اٹھا دی۔ انہوں نے ردّعمل کے بجائے تجزیے، اصلاح، اور خود احتسابی کو اپنایا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر مرتبہ ہار کر جیت کا جشن مناتے ہیں اور جیت کر بھی شکست خوردہ لہجے میں بات کرتے ہیں۔ ہم جذبات کے زور پر فیصلہ کرتے ہیں، اور جب جذبات کی آگ ٹھنڈی پڑتی ہے، تو حقیقت کے تھپیڑے ہمیں بے سمت کر دیتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی اس فکری بے سمتی کو پہچانیں۔ قوموں کے عروج کا راستہ احتجاج سے نہیں، احتساب سے نکلتا ہے؛ نعرے بازی سے نہیں، نظریاتی تعمیر سے نکلتا ہے؛ اور سب سے بڑھ کر، ردّعمل سے نہیں، گہرے تجزیے سے نکلتا ہے۔ کاش ہم اتنا ہی وقت سوال اٹھانے میں صرف کریں، جتنا شور مچانے میں کرتے ہیں۔ کاش ہم سانحے سے پہلے اسباب کا جائزہ لینا سیکھ لیں، تاکہ سانحے کے بعد ہمیں صرف نوحہ لکھنا نہ پڑے، بلکہ اصلاح کی راہیں کھل سکیں۔
■ ادارہ جاتی اصلاح: خواب سے حقیقت تک
قوموں کی تعمیر صرف جذبوں سے نہیں، اداروں سے ہوتی ہے۔ افراد آتے ہیں، جاتے ہیں، لیکن ادارے وہ ستون ہوتے ہیں جن پر تہذیبوں کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اگر یہ ستون کمزور ہو جائیں، تو قومیں محض آبادیوں کا ہجوم بن کر رہ جاتی ہیں منتشر، بے سمت، اور فکری طور پر بانجھ۔ آج جب ہم اپنے گردوپیش نگاہ دوڑاتے ہیں، تو واضح ہوتا ہے کہ ہمارا المیہ صرف شخصی یا وقتی نہیں، بلکہ گہری ادارہ جاتی کمزوریوں کا شاخسانہ ہے۔ اصلاح کی راہ خواب سے نکل کر حقیقت تک تبھی پہنچ سکتی ہے جب ہم چیخنے کے بجائے تعمیر کرنے کا عزم کریں۔
 ▪︎ میڈیا کا زوال: سچ کی عبادت، یا سازش کی خدمت؟
جب قلم کو تلوار بنا کر جھوٹ کے حق میں استعمال کیا جائے، جب کیمرہ مظلوم کے زخموں پر پردہ ڈال کر ظالم کے چہرے پر روشنی ڈالے، جب اینکر حقائق کو فریب کی چادر میں لپیٹ دے تو یہ محض صحافت کا زوال نہیں، یہ شعور کی اجتماعی خودکشی ہوتی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا اگر ریاستی پروپیگنڈہ کا آلہ کار بن جائے، اقلیتوں کو خطرہ بنا کر پیش کرے، اور "TRP” کی بھینٹ پر صداقت کو قربان کر دے، تو وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف تنقید نہ کریں، بلکہ ایک متبادل "قومی میڈیا” کی بنیاد رکھیں۔
ایسا میڈیا جو صرف بولے نہیں، سن بھی سکے؛ جو صرف دکھائے نہیں، سمجھا بھی سکے؛ جو صحافت کو کاروبار نہیں بلکہ عبادت جانے۔ ایک ایسا پلیٹ فارم جہاں مولانا ابوالکلام آزاد کی بصیرت، حسرت موہانی کی صداقت، اور شورش کاشمیری کی جرأت دوبارہ سانس لے۔ ہمیں وہ میڈیا پیدا کرنا ہوگا جو قوم کو آئینہ دکھائے، خوشنما خواب نہیں۔
 ▪︎ سیاست کا گند: نعرے نہیں، نظریات چاہییں: ہماری موجودہ سیاست ایک گندے تالاب کی مانند ہے، جس میں اچھے ارادے بھی گندے ہو جاتے ہیں۔ یہاں چہروں کا بدلنا تبدیلی نہیں، سوچ کا بدلنا انقلاب ہے۔ اگر ایک ہی نسل کے مفاد پرست سیاست دان بار بار ہمیں آزمانے کے باوجود ہماری گردن پر سوار ہیں، تو یہ ان کی چالاکی سے زیادہ ہماری فکری غفلت کا نتیجہ ہے۔ اس کا حل صرف جلسے جلوس نہیں، بلکہ سیاسی اخلاقیات کی بنیاد پر تربیت یافتہ قیادت ہے۔ ہمیں وہ نوجوان تیار کرنے ہوں گے جو علمِ سیاست میں مہارت، کردار میں پاکیزگی، اور وژن میں وسعت رکھتے ہوں۔ وہ جو صرف اقتدار کے بھوکے نہ ہوں، بلکہ خدمت کے بھاری بوجھ کو اٹھانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ جیسے ترکی میں طیب اردوان نے "امانت” کا بیانیہ اپنایا، یا جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے صبر، مفاہمت اور اعلیٰ اخلاق سے تاریخ رقم کی ویسا ہی وژن ہمیں اپنے نوجوانوں میں بونا ہوگا۔
 ▪︎ تعلیم اور تہذیب کا زوال: مدرسے، مکتب اور مکالمہ گاہیں: جب اسکولوں میں تعلیم محض ڈگری کی دوڑ بن جائے، جب نصاب سے اخلاق، کردار، اور فہمِ دین و دنیا نکال دیے جائیں، تو پھر ایسی تعلیم "ترقی” نہیں بلکہ تہذیبی تنزل کی گواہی ہوتی ہے۔ اگر ہمارے مسلم نوجوانوں کا کردار بگڑ رہا ہے، ان میں اعتماد کی جگہ اضطراب، اور شعور کی جگہ تفریق پیدا ہو رہی ہے، تو اس کا جواب صرف شکوے میں نہیں، بلکہ تربیتی اداروں کے قیام میں ہے۔ ہمیں اپنے بچّوں کے لیے وہ تعلیمی ادارے کھولنے ہوں گے جہاں صرف علم نہ دیا جائے، بلکہ اقدار سکھائی جائیں۔ جہاں تعلیم کے ساتھ تہذیب بھی ہو، اور مہارت کے ساتھ بصیرت بھی۔ ہمیں جدید علوم اور روایتی حکمت کو ایک چھت کے نیچے جمع کرنا ہوگا، جیسے دارالعلوم دیوبند نے دین کی خدمت کی، یا علی گڑھ نے تعلیم کو تحریک بنایا ویسے ہی نئے دور کی ضرورت کے مطابق "کردار سازی” کے مراکز کا احیاء ناگزیر ہے۔
 ▪︎ ملازمت میں امتیاز: شکایت سے خودکفالت تک: جب اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو روزگار میں منظم امتیاز کا سامنا ہو، جب میرٹ کے دروازے ان کے لیے بند اور نفرت کے دروازے کھلے ہوں، تو محض عدالتوں کی دہلیز پر دستک کافی نہیں۔ ہمیں شکایت سے بڑھ کر خود کفالت کا راستہ اپنانا ہوگا۔ اگر دروازے بند ہوں، تو اپنی چابیاں بنانی ہوں گی۔ "اپنی معیشت” کھڑی کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی کمپنیاں، فیکٹریاں، آئی ٹی فرمیں، میڈیا ہاؤسز اور کاروباری ادارے کھڑے کرنے ہوں گے جو نہ صرف روزگار دیں بلکہ خوداعتمادی، شناخت اور خود انحصاری کا ذریعہ بنیں۔ برِصغیر کے ممتاز مسلمان تاجروں، جیسے بدرالدین طیب جی یا سیٹھ حبیب، نے ثابت کیا کہ تجارت بھی قوم سازی کا ایک موثر ذریعہ ہو سکتی ہے۔ آج ہمیں اس سوچ کو زندہ کرنا ہوگا کہ "معاش” اور "معاشرت” ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب تک ہم اقتصادی غلامی سے آزاد نہیں ہوں گے، سیاسی و تعلیمی آزادی محض نعرہ رہے گی۔ ادارہ جاتی اصلاح خواب نہیں، ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ اگر ہم واقعی ایک باوقار، باعلم، اور خودمختار قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں شور مچانے کے بجائے متبادل نظام کھڑے کرنے ہوں گے۔ ہمیں وہ لوگ، وہ ادارے، اور وہ فکر پیدا کرنی ہوگی جو مستقبل کی نسلوں کو فخر اور شعور کے ساتھ جینا سکھا سکیں۔
■ مصلحین یا مکاروں کی معیشت؟ — مظلومیت کے کاروبار کی تہہ میں
یہ وہ نکتہ ہے جہاں اصلاح کا نقاب دراصل استحصال کی چادر بن جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں مصلحین کی زبان پر خیر کا نعرہ ہوتا ہے، مگر دلوں میں مفاد کا سودا۔ بظاہر وہ قوم کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، مگر حقیقت میں انہی زخموں سے روزی کماتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے قوم کی بیماری، ایک مقدس تجارت ہے؛ عوام کی جہالت، ایک قیمتی مارکیٹ؛ اور مظلومیت، ووٹ بٹورنے کا آزمودہ ہتھیار۔ اگر قوم سے لاعلمی ختم ہو جائے، تو "دانشوروں” کا کاروبار بند ہو جائے۔ اگر ہر فرد انصاف تک رسائی حاصل کر لے، تو "ثالثی” کے پردے میں جاری مفادات کی دکانیں ویران ہو جائیں۔ اگر غربت مٹ جائے، تو "فلاحی مہمات” کے پیچھے چھپے فنڈز کا بہاؤ رک جائے۔ یہ وہ مافیا ہے جو دعا بھی کرتا ہے، اور دل ہی دل میں چاہتا ہے کہ دعا قبول نہ ہو کیونکہ اگر حالات بہتر ہوگئے، تو ان کی دکانیں، ان کی حیثیت، اور ان کے نعرے بے معنی ہو جائیں گے۔
یورپ کی تاریخ میں قرونِ وسطیٰ کا کلیسا ایک ایسا ہی کردار تھا۔ عوام کو جہالت میں رکھا گیا تاکہ وہ ہر سوال کے جواب کے لیے پادری کی طرف رجوع کریں۔ علم کو Latin میں محدود کر دیا گیا، تاکہ صرف "چند برگزیدہ” اس تک رسائی رکھیں، اور باقی عوام صرف "آمین” کہنے پر مجبور رہیں۔ کلیسا کی طاقت اس بات پر منحصر تھی کہ عوام اندھیرے میں رہیں اور جب روشنی کا پہلا چراغ روشن ہوا، تو کلیسا نے اسے "کفر” کہہ کر بجھانے کی پوری کوشش کی۔ آج بھی کئی سیاسی و مذہبی رہنما بظاہر غریبوں کی مدد کرتے نظر آتے ہیں، مگر یہ مدد دراصل ان کی قیادت کی ضمانت بن چکی ہے۔ رمضان کے دسترخوان، زلزلہ زدگان کے لیے فوٹو سیشن، یا مدارس و یتیم خانوں کی سرپرستی ان سب میں خیر کی جھلک ضرور ہے، مگر اکثر اس خیر کے پردے میں "تشہیر”، "چندہ”، اور "چمک” کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ غربت اگر ختم ہوگئی، تو یہ کیمرے کہاں جائیں گے؟ اگر ہر شخص تعلیم یافتہ ہوگیا، تو کون ان کے جلسوں میں نعرے لگائے گا؟
بعض "دانشور” ٹی وی اسکرینوں پر قوم کے زوال پر ماتم کرتے ہیں، مگر ان کا رزق اسی زوال کی تجزیہ کاری سے وابستہ ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں ہر بار "تبدیلی” کا نعرہ لگا کر آتی ہیں، مگر اگر تبدیلی واقعی آ گئی، تو ان کا پورا بیانیہ زمیں بوس ہو جائے گا۔ بعض "مذہبی رہنما” اخلاقی انحطاط پر گریہ کرتے ہیں، مگر ان کے مدارس میں مکالمے کی گنجائش، جدید تعلیم کی شمولیت اور فکری تنوع کی سخت ممانعت ہوتی ہے، تاکہ طلبہ صرف اطاعت گزار رہیں، سوال نہ کریں۔ یہ وہ صنعتی منافقت ہے جہاں تبدیلی کا نام لیا جاتا ہے، مگر تبدیلی کا آنا ناپسندیدہ ہے۔ قوموں کو محض جھوٹے مصلحین کی تقریریں نہیں، سچے کرداروں کی خاموش جدوجہد درکار ہوتی ہے۔ ہمیں ان چہروں کو پہچاننا ہوگا جو قوم کے زخموں پر سیاست کرتے ہیں، اور ان ہاتھوں کو تلاش کرنا ہوگا جو بغیر کیمرے کے مرہم رکھتے ہیں۔
اس کے لیے! علم کی روشنی عام کرنا ہوگی تاکہ جہالت کی تجارت بند ہو۔ شفاف ادارے بنانے ہوں گے تاکہ ثالثوں کی دکانیں بند ہوں۔ سیاسی شعور بیدار کرنا ہوگا تاکہ انتخاب مظلومیت پر نہیں، وژن پر ہو۔ احتساب کا نظام مضبوط بنانا ہوگا تاکہ فلاحی کام بھی جوابدہ ہوں۔ یہ وقت ہے کہ ہم طفیلی نجات دہندوں سے نجات حاصل کریں۔ وہ "ڈاکٹر” جو بیماری سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ کبھی شفا کے خواہاں نہیں ہو سکتے۔ ہمیں ان نعروں، ان بیانات، اور ان چہروں سے آگے بڑھ کر اصل شعور، اصل خدمت، اور اصل سچ کی طرف بڑھنا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، ہم مرتے رہیں گے، اور وہ زندہ رہیں گے ہماری لاشوں پر، ہمارے خوابوں پر، اور ہمارے زخموں پر۔
■ حل: شعور، خود انحصاری، اور منصوبہ بندی — جذبات سے ادارے تک کا سفر
قوموں کی تاریخ میں ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب شور، احتجاج، اور وقتی نعرے بازی اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ جب جذبات، آہوں اور احتجاجی جلوسوں کی جگہ تعمیر، تدبر اور حکمت کو لینا پڑتا ہے۔ ہم اس لمحے پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں فیصلہ کن سوال یہ نہیں کہ ہمارے خلاف کون سازش کر رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ ہم خود کب تک اپنی بے عملی کے گناہ پر پردہ ڈالیں گے؟ یہ درست ہے کہ ہمیں تعصب کا سامنا ہے، ناانصافی ہمارے راستے کی دیوار ہے، اور سازشوں کا جال ہمیں جکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے زخموں کو تجارت میں بدلنے والوں کے حوالے کر دیا ہے۔ ہم نے اپنا درد ان ہاتھوں میں دے دیا جو اس درد کو بیچتے ہیں، اس پر سیاست کرتے ہیں، اور ہمیں دکھوں کے چرچے میں مصروف رکھ کر نظام کی تبدیلی سے دور رکھتے ہیں۔
 ▪︎ پہلا قدم ہے شعور — وہ شعور جو محض جذبات سے بلند ہو، اور حقائق کو سمجھنے، پرکھنے اور ان کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یہ شعور ہمیں سکھاتا ہے کہ سڑک پر نعرے لگانے سے کہیں زیادہ اہم ہے اپنے بچّوں کے لیے بہتر اسکول بنانا، اپنی بیٹیوں کے لیے محفوظ معاشرہ تشکیل دینا، اور اپنی قوم کے لیے ایک منظم بیانیہ تخلیق کرنا۔ قوم پرستی کا سب سے خطرناک دشمن "جذباتی نعرہ بازی” ہے جو وقتی سحر تو پیدا کرتی ہے، مگر دیرپا شعور سے خالی ہوتی ہے۔ آج ہمیں ایسے تعلیمی ادارے، تحقیقی مراکز، اور مکالمہ گاہیں بنانی ہوں گی جہاں صرف سبق نہ پڑھایا جائے بلکہ سوچنے، سوال اٹھانے اور مسائل کا حل نکالنے کی تربیت دی جائے۔
 ▪︎ دوسرا قدم ہے خود انحصاری — صرف معاشی نہیں، بلکہ فکری اور ادارہ جاتی خود کفالت۔ ہمیں اب یہ طے کرنا ہوگا کہ اگر ہمیں میڈیا میں انصاف نہیں ملتا، تو ہم اپنا میڈیا بنائیں؛ اگر نصاب میں ہمارے تشخص کی توہین ہے، تو ہم اپنا نصاب تخلیق کریں؛ اگر روزگار کے دروازے بند ہیں، تو ہم اپنی معیشت، اپنی کمپنیاں، اپنی فیکٹریاں کھڑی کریں۔ جب تک ہم دوسروں کے رحم و کرم پر جیتے رہیں گے، ہم صرف ہمدردی کے بھیک مانگتے رہیں گے، اور وہی "ہمدرد” ہمیں خاموشی سے کمزور کرتے رہیں گے۔ جیسے یہودیوں نے ہولوکاسٹ کے بعد اپنی ریاست، اپنے ادارے، اپنی مالیاتی طاقت اور اپنا عالمی بیانیہ تخلیق کیا، ویسے ہی ہمیں بھی اپنی خودی کو نظام کی سطح پر زندہ کرنا ہوگا۔
 ▪︎ تیسرا اور فیصلہ کن ستون ہے منصوبہ بندی۔ ہمیں صرف جذباتی فیصلوں سے آگے بڑھ کر ایک سوچ، ایک حکمت عملی، اور ایک لانگ ٹرم وژن پر کام کرنا ہوگا۔ قومیں لمحاتی ردّعمل سے نہیں، صدیوں پر محیط منصوبہ بندی سے بنتی ہیں۔ جیسے رسولِ اکرمﷺ نے مدینہ کی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی مسجدِ نبوی کی تعمیر، مواخات کا نظام، معاہدۂ مدینہ، تعلیم کا فروغ، اور عدالتی نظم یہ سب کچھ صرف روحانی تربیت نہیں بلکہ سیاسی اور انتظامی حکمت عملی کا شاہکار تھا۔ ہمیں بھی ایسے ہی مدلل، متوازن اور پائیدار نظام کی بنیاد رکھنی ہوگی جو صرف آج کے بحران کا نہیں، آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرے۔
اگر ہم واقعی درد مند ہیں، تو ہمیں اپنے زخم خود سنبھالنے ہوں گے انہیں ان لوگوں کے ہاتھ سے چھین لینا ہوگا جو ان زخموں کو "بیچنے” میں ماہر ہیں۔ ہمیں اپنے ادارے، اپنے قائد، اپنا وژن، اپنی ترجیحات اور اپنی بنیادیں خود تشکیل دینی ہوں گی۔ ورنہ ہم چیختے رہیں گے، روتے رہیں گے، اور وہی لوگ جو "نجات دہندہ” بنے بیٹھے ہیں، ہماری بے بسی کو اپنی طاقت کا ذریعہ بناتے رہیں گے۔ یہ وقت جذبات کا نہیں، تعمیر کا وقت ہے۔ یہ جنگ ہتھیاروں کی نہیں، نظاموں کی جنگ ہے۔ یہ انقلاب نعرے سے نہیں، منصوبے، کردار، قربانی، اور علم سے آئے گا۔ اگر ہم نے اب بھی یہ موقع گنوا دیا تو ہم ایک بار پھر تاریخ کے کنارے پر روتے رہیں گے اور تاریخ، ہمیشہ کی طرح، بے رحم رہے گی۔
✒️ Masood M. Khan (Mumbai)
todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!