مضامین
ایران-اسرائیل تنازع: سچائی کے خلاف جھوٹ کی یلغار





•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
“وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا”۔ (اور کہہ دو: حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے والا ہی تھا) (سورۃ الاسراء: 81)۔ حق و باطل کا معرکہ ازل سے جاری ہے۔ کبھی فرعون کے ایوانوں میں موسیٰؑ کی لاٹھی بولتی ہے، کبھی نمرود کی آگ میں ابراہیمؑ کا صبر روشن ہوتا ہے، اور کبھی یزید کے دربار میں حسینؓ کی خاموشی گونج بن جاتی ہے۔ ہر دور میں باطل، اپنی چمک دمک، حربی قوت، اور پروپیگنڈے سے حق کو دبانے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر حق، اگرچہ کمزور اور تنہا نظر آئے، بالآخر سرفراز ہی ہوتا ہے۔
آج کے دور میں ایران کی مزاحمت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو ظاہری طاقتوں سے بے نیاز ہو کر باطل کے ایوانوں میں سچائی کی صدا بلند کر رہا ہے۔ اسرائیل کی غاصب ریاست، جو مظلومیت کا نقاب اوڑھ کر ظلم کی سنگین مثالیں قائم کر چکی ہے، درحقیقت اُس نظامِ طاغوت کی نمائندہ ہے جس سے انبیاء کرام ہمیشہ برسرِ پیکار رہے۔ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ ظلم کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا افضل ترین جہاد ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: “افضلُ الجهادِ كلمةُ عدلٍ عندَ سلطانٍ جائرٍ”۔ (افضل ترین جہاد ظالم حاکم کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے)۔ (سنن نسائی)۔ اسی روحانی اور فکری تناظر میں ایران-اسرائیل تنازع کو سمجھنا، فقط سیاسی یا جغرافیائی مسئلہ نہیں، بلکہ اسلامی ضمیر کی بیداری، حق و باطل کے امتیاز، اور مظلوم کی حمایت کا فریضہ ہے۔
دنیا کی سیاسی بساط ایک ایسی شطرنج ہے جہاں شطرنج کی چالیں نہ صرف مہروں کی قربانی مانگتی ہیں بلکہ اکثر انصاف اور سچائی جیسے اعلیٰ اقدار کو بھی روندتی چلی جاتی ہیں۔ یہ شطرنج صرف سفید و سیاہ خانوں پر کھیلا جانے والا کھیل نہیں، بلکہ یہ عالمی طاقتوں کا وہ مکروہ منصوبہ ہے جس میں کچھ خطے ہمیشہ کے لیے جنگ کی آگ میں جھونک دیے جاتے ہیں، اور کچھ اقوام کو مقدّر ہی میں قربانی کا بکرا بننا پڑتا ہے۔ ان مہروں کے سر پر نہ تاج ہوتا ہے، نہ ان کے ہاتھ میں کوئی اختیار بس ہر نئی چال کے بعد ان کا خون اس کھیل کو زندہ رکھنے کا ایندھن بنتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کا تنازع اسی خونی بساط کا وہ رُوح فرسا باب ہے جہاں سچائی کا گلا گھونٹنے کے لیے جھوٹ کے لشکر صف بند ہو چکے ہیں۔ یہاں حقائق کو مسخ کر کے پروپیگنڈے کے قالب میں ڈھالا جاتا ہے، اور میڈیا کی روشنی اتنی شدید ہے کہ آنکھوں کو دھوکہ دے، دلوں کو سچ سے بیگانہ کر دے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کا چمکتا چہرہ درحقیقت سچائی پر چڑھایا گیا نقاب ہے، جس کے پیچھے ظلم، ناانصافی، اور دوغلا پن پوری ڈھٹائی کے ساتھ مسکرا رہا ہوتا ہے۔
یہ ایسا منظر ہے جہاں الفاظ کو ہتھیار بنایا گیا ہے، خبریں گولیوں کا کام دیتی ہیں، اور بیانیے توپوں کی مانند استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہاں تصویر وہی دکھائی جاتی ہے جو طاقتور کو راس آئے، اور آواز صرف وہی سنی جاتی ہے جسے طاقت کے ایوانوں سے منظوری حاصل ہو۔ ایران، جو اپنے نظریے، تہذیب اور مظلوموں کی حمایت کے سبب اس شطرنج کے خلاف کھڑا ہے، اسے ہر ممکن طریقے سے دبوچنے، بدنام کرنے اور تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا شطرنج کی ہر چال کامیاب ہوتی ہے؟ کیا ہر قربانی رائیگاں جاتی ہے؟ کیا سچائی واقعی دفن ہو سکتی ہے، یا وہ مٹی کے اندر بھی چراغ کی مانند جلتی رہتی ہے؟ یہی وہ سوالات ہیں جو آج کی دنیا کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ جھوٹ کی اس یلغار میں کہیں سچائی کی روشنی بجھ نہ جائے۔
تاریخ کے آئینے میں
اگر تاریخ ایک آئینہ ہے تو ایران اس آئینے کی وہ قدیم تصویر ہے جو وقت کی گرد کو چیر کر بھی روشن ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں تہذیب نے آنکھ کھولی، جہاں الفاظ نے معانی کا لباس پہنا، اور جہاں روحانیت، علم، فن اور حریت کا امتزاج نسل در نسل سفر کرتا آیا ہے۔ ایران کوئی مجرد خطۂ زمین نہیں، بلکہ وہ شعور ہے جس نے فردوسی کے قلم سے “شاہنامہ” جیسی ایسی فکری مشعل روشن کی جس نے صدیوں تک ظلم و جبر کی تاریکی میں سوچنے والوں کے لیے راہنمائی کا کام کیا۔ پھر جب وقت کی کروٹ نے ظلم کی نئی شکلوں کو جنم دیا، تو اسی ایران کی زمین نے امام خمینیؒ جیسی شخصیت کو جنم دیا، جو فقط ایک فرد نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک صدائے احتجاج، اور ایک انقلاب تھا۔ اُن کے الفاظ نے قوموں کو بیدار کیا، اور اُن کے افکار نے سیاسی غلامی کی زنجیروں کو چکنا چور کیا۔ ایران کا انقلاب، ایک قوم کی بیداری کا نہیں بلکہ پوری مظلوم انسانیت کے دل کی دھڑکن بن گیا۔
اس کے مقابل، اسرائیل ایک ایسی ریاست کے طور پر ابھرا جو نہ تاریخ کی گہرائی رکھتا ہے، نہ اخلاقی بنیاد۔ 1948ء میں ایک سیاسی منصوبہ بندی کے تحت اسے جبری طور پر نقشے پر کھینچا گیا، اور اس کے قیام کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ کی فضاؤں میں گولیوں کی گونج، بارود کی بو، اور مہاجر کیمپوں کی آہیں ہمیشہ کے لیے شامل ہو گئیں۔ فلسطین کی زمین، جو کبھی امن کا گہوارہ تھی، دیکھتے ہی دیکھتے دیواروں، چیک پوسٹوں اور ملبے کے ڈھیر میں بدل گئی۔ اسرائیل کی بنیاد فقط زمین پر نہیں، بلکہ مظلوموں کی چیخوں، بے گھری کے کرب، اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے پر رکھی گئی۔ ایران اور اسرائیل کا اختلاف فقط جغرافیہ یا سیاسی مفادات کا نہیں یہ درحقیقت دو فکری اور روحانی فلسفوں کا ٹکراؤ ہے۔ ایک طرف وہ ریاست جو طاقت اور ظلم کی زبان بولتی ہے، جو عالمی لابیوں کے سہارے زندہ ہے اور دوسری طرف وہ قوم جو صدائے حق بلند کرتی ہے، جو مظلوموں کی صف میں کھڑی ہوتی ہے، چاہے اس کے بدلے میں اسے پابندیاں، تنہائیاں یا جنگی خطرات ہی کیوں نہ جھیلنے پڑیں۔
ایران کا اسرائیل سے اختلاف اس اصول پر ہے کہ دنیا فقط طاقت کے زور پر نہیں چل سکتی اسے عدل، حق اور انسانیت کی بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے ہمیشہ فلسطین کو صرف ایک قوم یا زمین کے طور پر نہیں، بلکہ ایک امانت، ایک امتحان اور ایک عقیدے کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ ایران کی حمایت فقط فلسطین کی سر زمین کے لیے نہیں، بلکہ اس سچ کے لیے ہے جو عالمی جھوٹ کے سمندر میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ اور اسرائیل، اپنے ظلم کو چھپانے کے لیے ہمیشہ ان طاقتوں کے سائے میں کھڑا رہا ہے جن کے ضمیر کو مفادات کی دھند نے اندھا کر دیا ہے۔
میڈیا کی تلوار اور سچائی کا گلا
زمانۂ حاضر کی جنگیں اب صرف ٹینکوں، توپوں اور بارود سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اب خیالات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بیانیوں کو محاذ بنایا جاتا ہے، اور میڈیا کو وہ شمشیر عطا کی گئی ہے جو زبانوں کو کاٹتی ہے، ذہنوں کو زخمی کرتی ہے، اور سچائی کا گلا دبانے میں مہارت رکھتی ہے۔ اس جدید دور کی جنگ میں گولی نہیں چلتی، بلکہ سرخی چلتی ہے؛ خون نہیں بہتا، بلکہ کردار رگیدے جاتے ہیں اور دھواں بارود کا نہیں، بلکہ فریب، افواہ، اور نفسیاتی تسلّط کا ہوتا ہے۔ اسی میدان میں اسرائیلی لابی نے ایک ایسا نظریاتی قلعہ تعمیر کیا ہے جس کی دیواریں میڈیا کی طاقت سے بنی ہیں، اور جس کے پہرے دار وہ مفاد پرست ادارے ہیں جو صحافت کی قسم کھا کر جھوٹ کا پرچار کرتے ہیں۔ انہوں نے مغربی میڈیا کو اس قدر پروپیگنڈہ کی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے کہ دنیا کے سامنے ایک مکمل جھوٹی تصویر کو “سچ” کے فریم میں سجا کر پیش کیا جاتا ہے۔
مظلوم کو ظالم بنا دینا اور ظالم کو امن کا علمبردار قرار دینا یہی آج کے میڈیا کی سب سے بڑی چالاکی اور ستم ظریفی ہے۔ ایران، جو ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ہمیشہ مظلوموں کی آواز بنا رہا، جس نے فلسطین کی حمایت صرف سیاسی مصلحت کے تحت نہیں بلکہ دینی، انسانی اور اخلاقی فرض سمجھ کر کی اُسے دنیا کے سامنے ایک ایسی صورت میں پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ عالمی امن کے لیے خطرہ ہو۔ ایران کا ایٹمی پروگرام، جس کی حقیقی نوعیت دفاعی، تحقیقی اور سائنسی ہے، اُسے خوف کی علامت بنا کر دکھایا جاتا ہے، جب کہ اسرائیل، جو دنیا میں خفیہ طور پر سینکڑوں ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہے، اُس کے بارے میں میڈیا کی زبان کو گویا لقوہ مار جاتا ہے۔ نہ کوئی سوال، نہ کوئی شور، نہ کوئی انکوائری جیسے اس پر تنقید کرنا مغربی اخلاقیات کے خلاف جرم ہو۔
یہ وہ توہینِ سچائی ہے جو انسانیت کے ضمیر پر ایک ایسا بدنما داغ ہے جو کبھی دھل نہیں سکتا۔ جب حق بات کرنے والوں کی آوازیں دبا دی جائیں، جب باطل کو خوبصورت نقاب پہنایا جائے، جب خبریں “خبر” نہ رہیں بلکہ ایجنڈہ بن جائیں تو پھر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سچائی کی موت کا اعلان ہو چکا ہے، اور میڈیا کی تلوار اب دشمن کے ہاتھ میں ہے۔ اور جب تلوار دشمن کے ہاتھ میں ہو، تو وہ صرف جسموں کو نہیں کاٹتی وہ سچائی کی رگوں سے لہو نچوڑتی ہے، شعور کو مسخ کرتی ہے، اور دلوں میں شک کے کانٹے بو دیتی ہے۔ ایسے میں ایران کا مؤقف، جو صداقت کی بنیاد پر قائم ہے، اکثر مغربی میڈیا کی “فلٹرنگ” سے گزر کر اپنی روشنی کھو دیتا ہے۔ یہی وہ المیہ ہے جس نے آج کی دنیا کو ظاہری روشنیوں میں جکڑ کر باطنی اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔
جھوٹ کی یلغار کے مقابل سچائی کی خاموشی
یہ کیسا زمانہ آگیا ہے کہ جہاں لفظوں کی موت واقع ہو چکی ہے، اور سچائی کا کفن پروپیگنڈے کے سفید جھوٹ سے بُنا جاتا ہے۔ آج جب کوئی لب سچ کے لیے ہلتے ہیں، تو یا وہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیے جاتے ہیں، یا انہیں جنون، انتہاء پسندی یا شدّت پسندی کا نام دے کر معتوب کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ عہد ہے جہاں راست گوئی جرم بن چکی ہے، اور سچ بولنا خودکشی کے مترادف۔ ایران کی طرف سے جب کوئی مؤقف دنیا کے سامنے آتا ہے، تو وہ مغربی میڈیا کے ناپاک فلٹر سے گزر کر اپنی تاثیر کھو بیٹھتا ہے۔ ایک ایسا فلٹر جو صرف وہی دکھاتا ہے جو دکھانا مقصود ہو، اور وہی چھپاتا ہے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ سکتا ہے۔ ایران کا ہر بیان، ہر دلیل، ہر فکری نکتہ مغرب کے ایڈیٹوریل سانچوں میں ڈھل کر یا تو مسخ کر دیا جاتا ہے، یا مکمل طور پر نظر انداز۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سچائی ایک خاموش قیدی ہے، جسے نظر بند کر دیا گیا ہو، اور اس کے لبوں پر ظاہری امن کے تالا لگا دیا گیا ہو۔ وہ قیدی جو قفسِ میڈیا میں قید ہے، اور اس کی فریاد فضا میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔
اقوامِ متحدہ جیسے عالمی ادارے، جو انصاف، امن اور انسانی حقوق کے نگہبان کہلاتے ہیں، وہ بھی اکثر وہی کچھ دیکھتے اور بولتے ہیں جو انہیں دکھایا اور سنایا جاتا ہے۔ وہ آنکھیں جو غزہ کے معصوم بچّوں کی لاشوں پر بند رہیں، وہ ضمیر جو ایران کی مزاحمت کو دہشتگردی سے تعبیر کرے، وہ اقوام کیا واقعی متحد ہیں یا محض طاقت کے سامنے سجدہ ریز مصلحت پسند تماشائی؟ آج جھوٹ صرف ایک فریب نہیں، بلکہ ایک پوری صنعت بن چکا ہے۔ میڈیا ہاؤسز، تھنک ٹینکس، این جی اوز، اور بین الاقوامی پالیسی ادارے اس یلغار کے ایسے سپاہی بن چکے ہیں جو سچائی کے ہر دروازے پر پہرہ دے رہے ہیں۔ سچ اگر کبھی بے ساختہ در آئے تو فوراً اسے “غلط معلومات”، “سازشی نظریہ”، یا “شدّت پسند بیانیہ” کہہ کر دفن کر دیا جاتا ہے۔
یہ جھوٹ کی یلغار اب محض ایک جھوٹ نہیں رہی، بلکہ ایک عالمی وائرس بن چکی ہے، جس نے انصاف کے خلیوں کو مفلوج کر دیا ہے، صداقت کی سانسیں روک دی ہیں، اور انسانیت کو بے حس بنا دیا ہے۔ یہ وہ وائرس ہے جو انسان کو انسان نہیں، مفاد کا آلہ سمجھتا ہے۔ وہی سچ جو کبھی اقوام کی بیداری کا سبب بنتا تھا، آج محض ایک رومانوی تصور بن چکا ہے، خوبصورت، مگر غیر مؤثر؛ دلکش، مگر ناکام۔ مگر پھر بھی… خاموشی کی تہہ میں کہیں ایک ہلکی سی سچائی کی صدا زندہ ہے۔ وہ جو دلوں میں دھڑکتی ہے، وہ جو ضمیر کی چوٹ پر آنکھوں کو نم کر دیتی ہے، وہ جو شب کی تاریکی میں صبح کی نوید جیسی ہے۔ سچ مر نہیں گیا وہ صرف خاموش ہے اور یہ خاموشی، ایک دن طوفان بن کر ضرور گرجے گی۔
ایران کی مزاحمت: ایک فکری جہاد
دنیا کی سیاست میں کچھ مزاحمتیں صرف ہتھیاروں کی گھن گرج سے نہیں، بلکہ فکر، شعور، اور ایمان کی روشنی سے کی جاتی ہیں۔ ایران کی مزاحمت بھی ایسی ہی ایک جہاد ہے، جس کی بنیاد بارود نہیں، بلکہ یقین کی چٹان پر رکھی گئی ہے؛ جس کی دیواریں مفاد پرستی کے بجائے اصول پسندی سے بنی ہیں؛ اور جس کی چھت پر انسانیت کا پرچم لہراتا ہے۔ ایران کا طرزِ عمل محض ایک ریاستی ردعمل نہیں، بلکہ ایک تہذیبی صدائے احتجاج ہے۔ یہ مزاحمت اُس وقت جنم لیتی ہے جب دنیا بھر کے سامراجی تھنک ٹینک، لابیز، اور سیاسی گٹھ جوڑ ظلم کو قانون اور انسانیت کو جرم قرار دیتے ہیں۔ یہ وہ مزاحمت ہے جو صرف میدان جنگ میں نہیں لڑی جاتی، بلکہ ہر اس جگہ برپا ہوتی ہے جہاں باطل اپنی چمکدار لفاظی سے سچ کا گلا گھونٹنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایران ظلم کو ظلم کہتا ہے، بلا مصلحت، بلا تاخیر، اور بلا خوف۔ یہ صدائے حق وہی ہے جس کا وارث حسینؓ تھا، جو کربلا میں سر دے کر بھی باطل کے سامنے سرنگوں نہ ہوا۔ یہی فلسفہ آج ایران کے نظریاتی مزاج میں سرایت کر چکا ہے۔ وہ چاہے اقتصادی پابندیاں ہوں، بین الاقوامی تنہائی ہو، یا جنگ کی دھمکیاں ایران نے ان سب کو خندہ پیشانی سے جھیلا، مگر حق کے بیانیے سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹا۔ یہ مزاحمت کسی قوم یا نسل تک محدود نہیں، بلکہ وہ عالمی ضمیر ہے جو ہر اس دل میں دھڑکتا ہے جو عدل، آزادی، اور انسانی وقار پر یقین رکھتا ہے۔ وہ دانشور ہو یا مظلوم، وہ طالب علم ہو یا مزاحمت کار جو بھی دنیا کی اس طبقاتی جنگ میں سچ کے ساتھ کھڑا ہے، وہ ایران کی اس فکری مزاحمت کا ہم قدم ہے۔
ایران کا جوہری پروگرام ہو یا فلسطین کی حمایت اس کے ہر مؤقف میں صرف مفاد نہیں، بلکہ نظریہ بولتا ہے۔ اس کی زبان میں مصلحت کم، اور مزاحمت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عالمی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک “خطرہ” ہے، کیونکہ وہ سود و زیاں کے ترازو پر نہیں، اصولوں کے میزان پر فیصلے کرتا ہے۔ یہ فکری جہاد وہ چراغ ہے جو اندھیروں میں بھی امید کا پرتو بن کر جلتا ہے۔ وہ درسگاہوں میں پڑھائی جانے والی نصابی فکر نہیں، بلکہ روح میں اتری ہوئی ایک شعوری آگ ہے جو ظلم کے ایوانوں کو بے نقاب کرتی ہے، اور باطل کی چمکدار عمارتوں کے نیچے چھپی سچائی کو روشن کرتی ہے۔ جی ہاں، یہ ایران کی مزاحمت ہے… جہاد بالقلم، جہاد بالعقل، اور جہاد بالضمیر۔ یہ مزاحمت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت وہ نہیں جو ہتھیار رکھتی ہے، بلکہ وہ ہے جو حق پر قائم رہتی ہے، چاہے ساری دنیا اسے اکیلا چھوڑ دے۔
اسرائیل کی حکمتِ عملی: مظلوم بن کر ظالمی کا جواز
یہ تاریخ کا وہ ستم ظریف باب ہے جہاں ظالم خود کو مظلوم کہلوانے پر مصر ہے، اور دنیا بینائی رکھتے ہوئے بھی نابینا بنی بیٹھی ہے۔ اسرائیل کی حکمتِ عملی ایک ایسا چالاک بیانیہ ہے جو آنسوؤں کی مصنوعی نمی سے ظلم کی پیاس بجھاتا ہے۔ وہ جو بم برساتا ہے، خود کو بارش کا پیامبر کہتا ہے؛ وہ جو بستیاں جلاتا ہے، خود کو چراغِ امن قرار دیتا ہے۔ فلسطین کی گلیوں میں گونجتی اذانیں، مسمار ہوتی مساجد، معصوم بچّوں کے بکھرے کھلونے، اور ماؤں کی آہیں گواہی دیتی ہیں کہ یہاں ظلم کی فصل برسوں سے بوئی جا رہی ہے۔ لیکن جب یہ ظلم دنیا کے طاقتور کی شہ پر ہوتا ہے، تو پھر اسے “حقِ دفاع” کا لباس پہنا دیا جاتا ہے۔ عالمی میڈیا کی چمکتی اسکرینوں پر اسرائیلی آنکھوں سے ٹپکتا ہر آنسو خبروں کا مرکزی عنوان بن جاتا ہے، مگر فلسطینیوں کا خون… وہ شاید صرف زمین سیراب کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ وہ ستم ہے جہاں لاشوں کے بیچ بھی ایک تاثر کی جنگ جاری ہے، سچ کے چہروں پر جھوٹ کا نقاب چڑھایا جاتا ہے، اور ظالم کی آنکھوں میں مصنوعی نمی ڈال کر اسے مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کی پوری حکمتِ عملی اسی فریب کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ وہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے سلا دینے کی کوشش کرتا ہے، اور مغربی دنیا، جو انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، یہاں خاموش تماشائی بنی کھڑی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کیا ظلم صرف وہی ہوتا ہے جو ٹینک اور بندوق سے کیا جائے؟ یا وہ بھی ظلم ہے جو سچ کو دفن کر کے جھوٹ کو تخت نشین کرے؟
اسرائیل کا اصل ہتھیار فقط اسلحہ نہیں، بلکہ بیانیہ سازی کی وہ طاقت ہے جو اس نے میڈیا، سفارت کاری، اور لابیز کے ذریعے حاصل کی ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو مظلوم کی چیخ کو دبانے اور ظالم کی خاموشی کو “امن پسندی” کے طور پر پیش کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ یہی تو ہے وہ عالمگیر فریب، جہاں فلسطینی بچّوں کی موت “جنگی نقصان” اور اسرائیلی دیوار پر گری خراش “دہشت گردی” بن جاتی ہے۔ اس جھوٹ کے طوفان میں، جو بات سب سے زیادہ مجروح ہوتی ہے، وہ سچائی ہے وہ سچ جس کے ساتھ نہ کوئی کیمرہ جاتا ہے، نہ کوئی اینکر، بس وہی دل اس سچ کو محسوس کرتے ہیں جو انسانیت کی دھڑکن کو ابھی سننے کے قابل ہیں۔ پس، اسرائیل کی یہ حکمتِ عملی صرف ظلم کا جواز ہی نہیں بناتی، بلکہ دنیا کے ضمیر کو مردہ قرار دے کر اس کی قبر پر امن کے پھول چڑھانے کا عمل بھی ہے۔
قلم کا محاذ: شعور و سچائی کے چراغ کی جنگ
جب تلواریں کند ہو جائیں اور توپوں کی آوازیں گونگی ہو جائیں، تو ایک ہی ہتھیار باقی رہ جاتا ہے، قلم اور جب قومیں خاموش ہو جائیں، تو صرف شعور کی سرگوشیاں تاریخ کا رخ موڑنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے تنازعے میں فقط بندوقیں نہیں بولتیں، بلکہ بیانیے، تاثر، اور الفاظ کی جنگ بھی پورے زور سے لڑی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں اگر کوئی سب سے مہلک ہتھیار ہے تو وہ جھوٹ کا منظم جال ہے، جو سچائی کے چراغ کو بجھانے کے درپے ہے۔ مگر سچ کی فطرت ہے کہ وہ لمحاتی شکست کھا سکتا ہے، مگر دائمی فنا اس کا مقدر نہیں۔ وہ اندھیروں میں بھی ایک ننھا سا چراغ بن کر جلتا رہتا ہے، کبھی کسی صحافی کی بے خوف رپورٹ میں، کبھی کسی شاعر کی رگِ جاں سے نکلی ہوئی نظم میں، اور کبھی کسی عام انسان کے سچے آنسو میں۔
ہمیں اس دور کے سب سے بڑے فتنے یعنی ذہنی غلامی اور شعور کی بندش کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ جہاد تلوار کا نہیں، بلکہ فکر کا ہے یہ جنگ زمین کی نہیں، ذہنوں کی ہے۔ ہمیں سچ کو سنوار کر، نکھار کر، دنیا کے سامنے رکھنا ہے بغیر ڈر کے، بغیر جھجک کے۔ قلم کو فقط الفاظ کا امین نہیں، حق کا محافظ بنانا ہوگا۔ زبان کو صرف بولنے کا ذریعہ نہیں، سچ کی صدا بنانا ہوگا۔ اور شعور کو فقط جاننے کا ہنر نہیں، پہچاننے کا شعور عطا کرنا ہوگا۔ یہ جہاد اُن کے خلاف ہے جو جھوٹ کو پرچم، اور سچ کو جرم سمجھتے ہیں۔ یہ اُن عالمی اسٹیجوں کے خلاف ہے جو انصاف کے نام پر ناانصافی کی روشنی میں فیصلے سناتے ہیں۔
ایران کی مزاحمت ہو یا فلسطین کی چیخ، یہ آوازیں تب تک مؤثر نہیں ہوں گی جب تک ہم اپنی دانش، اپنی تحریر، اپنی سوچ کو اس کارزار میں شریک نہیں کرتے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو صرف تاریخ نہیں، تاریخ کا فہم دینا ہوگا۔ انھیں سکھانا ہوگا کہ جس قوم کے پاس قلم کا ہنر ہو، وہ کبھی غلام نہیں رہتی، اور جس کے شعور میں بیداری ہو، وہ کبھی باطل سے مرعوب نہیں ہوتی۔ پس، اگر سچائی کا چراغ ماند پڑ رہا ہے، تو یہ ہماری خاموشی کی سزا ہے۔ آئیے! قلم کو تلوار، فکر کو سپر، اور شعور کو مشعل بنا کر نکلیں، اس یلغار کے خلاف جس کا مقصد صرف ایک ہے، سچ کو دفن کرنا۔ لیکن ہم دفن ہونے سے پہلے ایک حقیقت لکھ جائیں گے: “باطل کے پاس اگر میڈیا ہے، تو حق کے پاس شہیدوں کا لہو اور اہلِ قلم کا شعور!”
•┅┄┈•※✤م✿خ✤※┅┄┈•

