مضامین

ایران-اسرائیل جنگ: مشرقِ وسطیٰ سےعالمی ضمیر تک ایک لرزہ خیز پیغام

 🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•

                        (حصّہ اوّل)

جب زمین ظلم سے بھر جائے، جب باطل اپنی حدیں پار کر لے، اور جب خونِ مظلوم بہانے والے طاقت کے نشے میں اندھے ہو جائیں، تب تاریخ کا پہیہ حرکت میں آتا ہے اور اللّٰہ کی سنّت لاگو ہو جاتی ہے۔ قرآن ہمیں خبردار کرتا ہے: ‘وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ’ (ابراہیم: 42) یعنی ‘ظالم جو کچھ کر رہے ہیں، اللّٰہ کو ہرگز غافل نہ سمجھو’۔ ایران-اسرائیل ممکنہ جنگ کو اگر صرف جغرافیائی یا سیاسی زاویے سے دیکھا جائے، تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔ یہ دراصل مظلوم و ظالم، حق و باطل، اور اُمّتِ مسلمہ کی اجتماعی غفلت و بیداری کا امتحان ہے۔ اس تصادم کے اثرات صرف فوجی یا سفارتی دائرے میں محدود نہیں رہیں گے، بلکہ یہ پوری انسانیت، عالمی امن، مسلم وحدت، اور مظلوم فلسطینیوں کی دیرینہ جدوجہد پر اثر انداز ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس صورتِ حال کو نہ صرف عقلی تجزیے بلکہ ایمانی بصیرت سے دیکھیں تاکہ ہم تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنا فریضہ پہچان سکیں اور حق کے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔

جب آسمان بارود سے بھر جائے، اور زمین ظلم کی گرمی سے تپنے لگے، تو جنگ صرف میدانوں میں نہیں لڑی جاتی وہ دلوں میں لرزتی ہے، شہروں کی گلیوں میں سسکتی ہے، اور اقوام کے ضمیر پر دستک دیتی ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین اگر وہ شعلہ بھڑک اٹھا، جس کا ایندھن برسوں کا غصّہ، مظلوموں کی آہیں، اور طاقت کے زعم میں ڈوبی قیادتیں ہوں، تو اس کی لپیٹ صرف دو پرچموں تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ تصادم مشرقِ وسطیٰ کی رگوں میں نئی آگ دوڑائے گا، خلیج کے ساحلوں سے لے کر شام کے کھنڈرات تک، ہر اینٹ کو ہلا ڈالے گا۔ تیل کی بوند بوند، گندم کی خوشبو، گیس کے ذخائر، اور تجارتی راستے سب کچھ اس آتشیں کھیل کا میدان بنیں گے۔ عالمی منڈیاں لرزیں گی، بازاروں میں بے یقینی کا شور ہوگا، اور سیاست کی میز پر نئی صف بندیاں جنم لیں گی۔

یہ جنگ محض ہتھیاروں کی گھن گرج نہیں ہوگی، یہ انسانیت کے امتحان کی گھڑی ہوگی۔ وہ معصوم جو اپنے خواب لے کر نیند میں تھے، وہ عورتیں جو اپنے بچّوں کو جھولوں میں سلائے ہوئے تھیں، وہ بوڑھے جو امن کے دن دیکھنے کی دعا کر رہے تھے، ان سب کے لیے یہ جنگ ایک اندھیر نگری ہوسکتی ہے۔ اس لیے ایران-اسرائیل جنگ کو محض “جغرافیائی کشمکش” کہہ دینا ناانصافی ہے۔ یہ ایک ایسا امکان ہے جو دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ سکتا ہے، طاقت کے توازن کو الٹ پلٹ سکتا ہے، اور اقوامِ عالم کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کر سکتا ہے جہاں خاموشی بھی جرم بن جائے۔ ایران-اسرائیل جنگ کے ممکنہ اثرات نہایت وسیع، خوفناک اور دنیا کے مختلف خطّوں پر گہرے اثرات ڈالنے والے ہوں گے۔ اس طرح کے تصادم کا دائرہ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کے درج ذیل علاقائی، عالمی، اقتصادی، تزویراتی (اسٹریٹجک) اور انسانی اثرات متوقع ہیں۔

1- ایران-اسرائیل کشیدگی: مشرقِ وسطیٰ میں ہمہ گیر جنگ کا خدشہ

ایران اور اسرائیل کے مابین براہ راست جنگ کی صورت میں مشرقِ وسطیٰ کا پورا خطہ ایک خوفناک اور تباہ کن جنگی دائرے میں داخل ہو سکتا ہے، جس کے اثرات صرف دونوں ممالک تک محدود نہیں رہیں گے۔ ایران کے پاس اس خطے میں متعدد غیر ریاستی حلیف اور ملیشیائیں موجود ہیں، جو برسوں سے اس کے زیرِ اثر یا ہمدرد سمجھی جاتی ہیں۔ لبنان، شام، عراق، یمن، ایران کے محاذی حلیف ہیں۔ ایران کے قریبی اتحادی جیسے لبنان میں حزب اللّٰہ، شام میں بشارالاسد کی حکومت، عراق میں حشد الشعبی، یمن میں انصاراللّٰہ (حوثی تحریک) ہیں۔ یہ تمام قوتیں کسی بھی بڑی جنگ کی صورت میں فوری طور پر متحرک ہو سکتی ہیں اور اسرائیل یا اس کے حامیوں کے خلاف براہ راست عسکری کارروائی کر سکتی ہیں۔ حزب اللّٰہ کے پاس ہزاروں راکٹ اور میزائل ہیں، جو شمالی اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ یمن سے سعودی عرب، امارات اور خلیج میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے جوابی طور پر نہ صرف غزہ، بلکہ بیروت (لبنان)، دمشق (شام)، بغداد یا نجف (عراق)، حتیٰ کہ تہران (ایران)، تک فضائی یا میزائل حملے ممکن ہیں۔ اسرائیل کی فوجی پالیسی ہمیشہ پیشگی حملے (Preemptive Strikes) پر مرکوز رہی ہے، لہٰذا وہ خطے کے کسی بھی ایسے مرکز کو نشانہ بنا سکتا ہے جہاں سے اسے خطرہ محسوس ہو۔ یہ صورتِ حال خلیج کے اندرونی توازن کو بھی بگاڑ سکتی ہے۔ ایران کی حمایت یافتہ شیعہ تنظیموں کے فعال ہونے سے سعودی عرب، بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں سنی-شیعہ تناؤ بڑھ سکتا ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب کے مشرقی علاقے، جہاں شیعہ آبادی ہے، ایک بار پھر بے چینی کا مرکز بن سکتے ہیں۔ یہ فرقہ وارانہ کشیدگی صرف داخلی سیاست تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ یہ پورے اسلامی اُمّہ میں نظریاتی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتی ہے، جس کا فائدہ دشمن قوتیں اٹھا سکتی ہیں۔

یوں مشرقِ وسطیٰ ایک ایسے میدانِ جنگ میں تبدیل ہو جائے گا جہاں ریاستیں، ملیشیائیں، اور فرقہ وارانہ گروہ سب ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہوں گے۔ اس جنگ کی آگ صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ مذہبی، نسلی اور نظریاتی بنیادوں پر پوری دنیا میں پھیل سکتی ہے۔ نتیجتاً خطے میں امن کی بحالی ایک طویل اور کٹھن عمل بن جائے گی۔

2- ایران-اسرائیل جنگ: توانائی بحران اور عالمی معیشت پر منڈلاتا خطرہ

ایران-اسرائیل جنگ کی صورت میں سب سے فوری اور نمایاں اثر عالمی توانائی منڈی پر پڑے گا۔ ایران دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو تیل اور گیس کی بڑی مقدار برآمد کرتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا جغرافیائی محل وقوع، بالخصوص آبنائے ہُرمُز کی اہمیت، اس ممکنہ بحران کو عالمی معیشت کے لیے نہایت خطرناک بنا دیتی ہے۔ آبنائے ہُرمُز جسے دنیا کا تیل کا شہ رگ سمجھا جاتا ہے۔ آبنائے ہُرمُز، جو ایران اور عمان کے درمیان واقع ہے، دنیا کی سب سے اہم تیل راہداری ہے۔ روزانہ تقریباً 2 کروڑ بیرل تیل اس آبی گذرگاہ سے گزرتا ہے، جو دنیا کی کل تیل سپلائی کا تقریباً 20 فیصد ہے۔ اگر جنگ کی صورت میں ایران اس آبنائے کو بند کر دیتا ہے جیسا کہ وہ ماضی میں دھمکی دیتا رہا ہے تو سعودی عرب، عراق، کویت، قطر، اور متحدہ عرب امارات کا تیل عالمی منڈی تک پہنچنے سے رک جائے گا۔ سمندری تجارت متاثر ہوگی، خاص طور پر ایشیا اور یورپ کے درمیان۔

تیل کی فراہمی متاثر ہونے کے ساتھ ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 150 سے 200 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہے۔ گیس کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگیں گی، خاص طور پر یورپ اور ایشیا میں جو روسی گیس پر انحصار کم کرکے مشرقِ وسطیٰ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ یہ قیمتیں عالمی سطح پر مہنگائی میں اضافے، کساد بازاری (Recession)، اور مالیاتی بے یقینی کا سبب بنیں گی۔ بھارت، جو اپنی توانائی کا 85% سے زائد حصّہ درآمد کرتا ہے، شدید متاثر ہوگا۔ روپے کی قدر گر سکتی ہے، صنعتی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے، اور عام آدمی کی زندگی مہنگائی کی چکی میں پس سکتی ہے۔

چین کی تیز رفتار معیشت کو جھٹکا لگے گا، کیونکہ وہ مشرقِ وسطیٰ سے تیل کی بڑی مقدار درآمد کرتا ہے۔ یورپ، جو پہلے ہی یوکرین جنگ کی وجہ سے توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے، مزید دباؤ میں آجائے گا۔ امریکہ اگرچہ توانائی میں نسبتاً خود کفیل ہے، لیکن عالمی قیمتوں کا اثر وہاں بھی مہنگائی، مالیاتی پالیسیوں، اور معیشت پر پڑے گا۔ ایران-اسرائیل جنگ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کو ہلا کر رکھ دے گی، بلکہ عالمی معیشت کے توازن کو بھی تہ و بالا کر دے گی۔ ایک محدود علاقائی جنگ کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے، اور تیل و گیس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ دنیا کے ہر ملک، ہر صنعت، اور ہر فرد کو متاثر کرے گا۔ یہ جنگ صرف خون ریزی ہی نہیں، بلکہ معاشی زلزلے کا بھی پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔

3- امریکی مداخلت اور عالمی صف بندیاں: ایران-اسرائیل کشیدگی کا عالمی پھیلاؤ

ایران اور اسرائیل کے درمیان براہ راست جنگ کی صورت میں عالمی طاقتوں کا غیر جانب دار رہنا تقریباً ناممکن ہوگا، بالخصوص امریکہ، جو نہ صرف اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے وسیع تزویراتی (اسٹریٹجک) مفادات رکھتا ہے۔ امریکہ کی مداخلت اس جنگ کو علاقائی دائرے سے نکال کر عالمی سطح کے تصادم میں تبدیل کر سکتی ہے۔

اسرائیل کا تحفّظ، امریکہ کی غیر مشروط پالیسی کا حصّہ ہے۔ اسرائیل امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی کا مرکزی ستون ہے۔ کسی بھی جنگ کی صورت میں امریکہ سیاسی، عسکری اور مالیاتی ہر سطح پر اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ ایف 35 طیارے، میزائل شیلڈز (جیسے Iron Dome, David’s Sling)، انٹیلیجنس اور سیٹلائٹ نیٹ ورک مکمل طور پر اسرائیل کے لیے مختص کیے جا سکتے ہیں۔ اگر ایران کی جانب سے اسرائیلی شہروں پر بڑے پیمانے پر حملے ہوتے ہیں، تو امریکہ براہ راست جنگ میں شریک ہو سکتا ہے۔

امریکی اڈے اور بحری بیڑے، ایران کے ممکنہ اہداف ہوسکتے ہیں۔ امریکہ کے پاس خلیجی خطے میں متعدد فوجی اڈے ہیں، جن میں نمایاں ہیں۔ الظفرہ (امارات)، العدید (قطر)، بحرین میں بحریہ کا پانچواں بیڑہ، عراق و کویت میں فضائی اور زمینی اڈے، ایران کی جانب سے ان اڈوں پر میزائل یا ڈرون حملوں کا امکان ہے، جس کا مقصد امریکہ کو جنگ سے باز رکھنا یا خطے میں اس کی موجودگی کو کمزور کرنا ہوگا۔ اس صورت میں خلیجی ریاستیں بھی اس جنگ میں گھسیٹی جا سکتی ہیں۔

ایران-اسرائیل جنگ کی صورت میں عالمی طاقتوں کی تزویراتی صف بندیاں واضح ہو جائیں گی۔ نیٹو NATO ممالک بالخصوص برطانیہ، فرانس، جرمنی وغیرہ امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کریں گے۔ روس، جو شام اور ایران کے ساتھ عسکری تعاون رکھتا ہے، ممکنہ طور پر اس جنگ کو امریکہ کی بالادستی کے خلاف ایک موقع کے طور پر دیکھے گا۔ وہ نہ صرف ایران کو اسلحہ، انٹیلیجنس یا سیاسی حمایت دے سکتا ہے بلکہ یوکرین کے محاذ پر دباؤ بڑھا کر مغرب کو تقسیم کرنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ چین، جو ایران سے توانائی کا بڑا خریدار ہے، کھل کر تو شریک نہ ہو لیکن امریکہ کے عالمی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے کے لیے سفارتی و اقتصادی سطح پر ایران کی پشت پناہی کر سکتا ہے۔

ان عالمی قوتوں کی شمولیت جنگ کو صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان محدود رکھنے کی بجائے بحیرۂ احمر، خلیج فارس، بحیرۂ روم، یوکرین اور تائیوان جیسے محاذوں پر بھی عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے۔ دنیا ایک مرتبہ پھر نئے سرد جنگ یا حتیٰ کہ تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت ایران-اسرائیل جنگ کو عالمی سطح پر وسعت دے سکتی ہے، جس کے اثرات سفارتی، عسکری، اقتصادی اور نظریاتی تمام میدانوں میں محسوس ہوں گے۔ اس مداخلت سے مشرقِ وسطیٰ صرف ایک میدانِ جنگ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات کا اکھاڑا بن جائے گا، جہاں ایک چنگاری بھی دنیا بھر میں تباہی کا طوفان لا سکتی ہے۔

4- ایران-اسرائیل جنگ کا معاشی زلزلہ: عالمی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک پر خطرناک اثرات

ایران اور اسرائیل کے درمیان کسی ممکنہ جنگ کا ایک نہایت سنگین اثر عالمی معیشت پر پڑے گا۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور عسکری عدم استحکام کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی تجارتی نظام اور مالیاتی منڈیوں میں زلزلہ آ سکتا ہے، جو پوری دنیا کو کساد بازاری (Recession) اور افراطِ زر (Inflation) کی لپیٹ میں لے لے گا۔ جنگ کی صورت میں نہ صرف تیل و گیس کی ترسیل رُک سکتی ہے، بلکہ یورپ-ایشیا تجارت جو بحیرۂ احمر، نہرِ سویز، اور خلیج فارس سے ہو کر گزرتی ہے، بری طرح متاثر ہو گی۔ بحری راستوں پر بڑھتے خطرات کے سبب شپنگ انشورنس مہنگی ہو جائے گی، جس سے مال برداری کی لاگت اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ سپلائی چین متاثر ہونے سے اشیائے خوردنی، الیکٹرانکس، اور ادویات کی فراہمی میں خلل پڑے گا۔

مالیاتی منڈیوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ جنگی خدشات اور غیر یقینی صورتِ حال کے باعث دنیا کی بڑی اسٹاک مارکیٹیں (New York, London, Tokyo, Mumbai) گر سکتی ہیں۔ سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال سے خوفزدہ ہو کر محفوظ اثاثوں (Safe Havens) کی طرف بھاگیں گے، جیسے سونا (Gold)، امریکی ڈالر (USD)، سوئس فرانک، امریکی ٹریژری بانڈز یہ رجحان ترقی پذیر ممالک سے سرمایہ کے انخلاء (Capital Flight) کا سبب بن سکتا ہے، جس سے ان کے کرنسی ریٹ متاثر ہوں گے۔

ترقی پذیر ممالک پر مہنگائی کا دباؤ بڑھ جائے گا۔ جنگ کے معاشی جھٹکوں سے پاکستان، بھارت، ترکی، مصر، نائیجیریا جیسے ممالک بری طرح متاثر ہوں گے۔ تیل و گیس مہنگی ہونے سے ٹرانسپورٹ، زراعت اور صنعتی پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہو گا۔ روپے یا مقامی کرنسی کی قدر میں کمی سے درآمدی مہنگائی (Imported Inflation) بڑھے گی۔ حکومتوں کو سبسڈی، کرنسی بچاؤ اقدامات اور مہنگائی کنٹرول پالیسیوں پر دباؤ بڑھے گا، جو ان کے بجٹ کو متاثر کرے گا۔

عالمی کساد بازاری کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اگر جنگ طویل ہوتی ہے تو عالمی معیشت سست روی کا شکار ہوگی۔ بین الاقوامی قرضوں پر انحصار کرنے والے ممالک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ سکتے ہیں۔ ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں، غربت میں اضافہ ہوگا، اور سماجی بے چینی میں اضافہ ممکن ہے۔ ایران-اسرائیل جنگ کا اثر صرف میدانِ جنگ تک محدود نہ رہے گا، بلکہ پوری دنیا کے معاشی نظام کو متزلزل کر دے گا۔ اسٹاک مارکیٹس کی گراوٹ، تجارتی راستوں کی بندش، مہنگائی کی لہر اور ترقی پذیر ممالک کا معاشی بحران یہ سب مل کر دنیا کو ایک نئے معاشی زوال کے دور میں دھکیل سکتے ہیں، جہاں غریب مزید غریب اور طاقتور مزید محتاط ہو جائے گا۔

5- ایران-اسرائیل جنگ کا انسانی المیہ: مہاجرین کا سیلاب اور عالمی ضمیر کا امتحان

ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ نہ صرف عسکری اور معاشی تباہی لائے گی بلکہ بے مثال انسانی بحران کو بھی جنم دے گی۔ جنگ کا سب سے پہلا نشانہ ہمیشہ عام شہری بنتے ہیں، اور یہ تنازعہ چونکہ کئی ممالک میں پھیل سکتا ہے، اس لیے مہاجرین کا ایک نیا، شدید اور ہمہ گیر بحران دنیا کو درپیش ہوگا۔ جنگی حملوں، فضائی بمباری اور میزائل بارشوں سے بچنے کے لیے ایران، شام، لبنان، عراق، اور اسرائیل جیسے ممالک سے لاکھوں افراد نقل مکانی و ہجرت پر مجبور ہوں گے۔ شہری علاقوں، خاص طور پر تہران، بیروت، دمشق، حیفہ، تل ابیب، غزہ، اور بغداد سے نکلنے والی انسانی لہر یورپ، ترکی، اردن اور دیگر پڑوسی ممالک کی طرف بڑھ سکتی ہے۔

پناہ گزینوں کا دباؤ کا شکار ترکی، اردن، یورپ اور پاکستان ہوسکتے ہیں۔ ترکی، جو پہلے ہی شامی مہاجرین کے دباؤ میں ہے، ایک نئی لہر سے شدید متاثر ہو سکتا ہے۔ اردن، جس کی آبادی کا بڑا حصّہ پہلے ہی فلسطینی پناہ گزینوں پر مشتمل ہے، مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا۔ یورپ، جہاں پہلے ہی مہاجرین مخالف جذبات اور نسل پرستی بڑھ رہی ہے، ایک نئے انسانی ریلے سے سیاسی، سماجی اور اخلاقی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔ اگر جنگ کی آگ مشرق سے مغرب تک پھیلتی ہے تو پاکستان میں بھی افغان مہاجرین کے بعد اب ایرانی یا عرب پناہ گزینوں کی آمد ممکن ہو سکتی ہے، خاص طور پر بلوچستان اور گلگت بلتستان کے راستے۔

مہاجرین کی آمد بظاہر انسانیت نوازی کا تقاضا اور ایک وقتی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کے طویل المدتی اثرات میزبان ممالک کے لیے کئی سنگین چیلنجز کو جنم دیتے ہیں۔ سب سے پہلا اثر بنیادی سہولیات پر پڑتا ہے، جن پر غیر معمولی بوجھ آجاتا ہے۔ صحت کے شعبے میں اسپتالوں کی گنجائش کم پڑنے لگتی ہے، ویکسین کی فراہمی متاثر ہوتی ہے، اور ادویات کی قلت جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح، تعلیم کا نظام بھی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسکولوں میں نشستیں ناکافی ہو جاتی ہیں، اساتذہ کی تعداد کم پڑ جاتی ہے، اور مہاجر بچّوں کی تعلیم کا تسلسل متاثر ہوتا ہے، جو مستقبل میں مزید مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔

روزگار کے میدان میں مقامی افراد اور مہاجرین کے درمیان مسابقت بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں بے روزگاری، غربت اور عدم اطمینان میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ ان تمام مسائل کا ایک قدرتی نتیجہ سماجی کشیدگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ قوم پرستی، نسل پرستی اور مذہبی منافرت جیسے رجحانات کو تقویت ملتی ہے، جو معاشرتی ہم آہنگی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جاتے ہیں۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر مہاجرین کے مسئلے کو منظم انداز میں نہ سنبھالا جائے، تو یہ ایک انسانی بحران سے بڑھ کر ایک سماجی اور معاشی بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

جنگ زدہ علاقوں میں غذائی ترسیل منقطع ہو سکتی ہے، جس سے قحط، غذائی قلت، اور بچّوں کی اموات میں اضافہ ہو گا۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی کا نظام متاثر ہونے سے وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہو گا، جیسا کہ ہیضہ، خسرہ، اور ملیریا۔ ایران-اسرائیل جنگ ایک ایسا انسانی المیہ جنم دے سکتی ہے جو شام، یمن یا یوکرین کے بحرانوں سے بھی بڑھ کر ہو گا۔ جب لاکھوں افراد چھت، تحفّظ اور خوراک سے محروم ہو جائیں گے، تو نہ صرف ان کی زندگیاں برباد ہوں گی بلکہ دنیا ایک اخلاقی امتحان میں بھی مبتلا ہو جائے گی: کیا وہ انسانیت کے ناطے مدد کرے گی، یا سیاسی مفادات کے تحت آنکھیں بند کر لے گی؟

(ان شاء اللّٰہ! کل حصّہ دوّم)

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!