مضامین
ایک اُمّت، ایک عالمی اسلامی فوج: ایک ممکن تعبیر یا ناقابلِ حصول خواب





•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
جب امتیں خوابوں سے بیدار ہو کر حقیقت کی زمین پر قدم رکھتی ہیں تو محض جذبات کی روشنی میں نہیں، بلکہ بصیرت کی مشعل ہاتھ میں لیے آگے بڑھتی ہیں۔ آج کا سوال یہ نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ‘کیا عالمی اسلامی فوج کی تشکیل موجودہ عالمی صورتحال میں ممکن ہے؟’ اس کا جائزہ صرف مذہبی جذبے یا تاریخی تمنا کی بنیاد پر نہیں، بلکہ سیاسی، عسکری، اقتصادی اور تزویراتی (strategic) حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے لینا ہوگا۔ جب خواب بیدار ہو جائیں اور تمنائیں حقیقت کا راستہ دیکھنے لگیں، تو قوموں کو جذبوں کے دریا سے نکل کر حکمت کی کشتی میں سوار ہونا پڑتا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ صدیوں سے وحدت، عظمت اور عالمی قیادت کا خواب دیکھتی آئی ہے۔ کبھی اس خواب نے اسے خلافت کی صورت میں تعبیر دی، اور کبھی سپین، بغداد، قاہرہ اور دہلی کے علمی و تہذیبی میناروں کی صورت میں۔ مگر آج جب یہ خواب ماضی کے دریچوں میں مقید ہو کر، حال کے تپتے صحرا میں پیاسا کھڑا ہے، تو سوال یہ نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔
یقیناً یہ جذبہ کہ تمام مسلم ممالک ایک پرچم تلے جمع ہوں، ایک فوج، ایک قیادت، ایک آواز ہوں، نہایت پاکیزہ اور پراثر خیال ہے، مگر تاریخ کا یہ سبق ہے کہ خوابوں کی تعبیر صرف خواہشوں سے نہیں، بصیرت، تدبّر، قربانی اور حکمتِ عملی سے ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ہم اس اہم سوال کا سامنا کرتے ہیں کہ “کیا عالمی اسلامی فوج کی تشکیل موجودہ عالمی صورتحال میں ممکن ہے؟” تو ہمیں صرف مذہبی جوش و خروش یا تاریخی نوستالجیا سے آگے بڑھنا ہوگا۔
یہ سوال اب ایک عقیدے یا آرزو کا نہیں رہا، بلکہ ایک وسیع الجہات، کثیر الجہتی اور باریک بین تجزیے کا متقاضی ہے۔ ہمیں اس کا جائزہ ان زاویوں سے لینا ہوگا جہاں سیاست دانوں کی ترجیحات بدلتی ہیں، عسکری اداروں کی وفاداریاں بٹی ہوتی ہیں، اقتصادی پالیسیوں پر عالمی مالیاتی اداروں کا سایہ ہے، اور تزویراتی فیصلے اقوامِ متحدہ یا کسی نیٹو کمان کے طواف کے بغیر ممکن نہیں ہوتے۔ امتیں جب خوابوں سے بیدار ہو کر حقیقت کی سنگلاخ زمین پر قدم رکھتی ہیں، تو انہیں صرف الفاظ کی روشنی نہیں، عمل کی آگ، فیصلے کی تپش، اور شعور کی مشعل درکار ہوتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں محض چاہنا کافی نہیں ہوتا، بلکہ ممکنات کی دنیا میں راستہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔
● نظریاتی بنیاد: اُمّتِ واحدہ کا عسکری شعور
جب کوئی اُمّت بکھراؤ، کمزوری اور غلامی کے اندھیروں سے نکلنے کا خواب دیکھتی ہے، تو سب سے پہلے اسے اپنے نظریاتی خدوخال پر غور کرنا پڑتا ہے۔ اسلام محض ایک مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو اپنے ماننے والوں کو نہ صرف روحانی ارتقاء بلکہ اجتماعی تحفّظ، دفاع اور عزّت و وقار کا جامع تصور بھی عطا کرتا ہے۔ اسی تناظر میں اسلامی اتحاد اور مشترکہ دفاعی فورس کا تصور کسی جدید سیاسی یا عسکری مصلحت کا نام نہیں، بلکہ قرآن و سنّت کی روشنی سے پھوٹنے والی ایک فطری شعوری ضرورت ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: “وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ” (الأنفال: 60)۔ “اور ان کے مقابلے کے لیے ہر ممکن قوت تیار رکھو”۔ یہ حکم کوئی وقتی تدبیر نہیں، بلکہ ایک دائمی اصول ہے، اُمّت کے تحفّظ، خودمختاری، اور باہمی دفاع کا قرآنی منشور۔ مزید برآں، نبی کریمﷺ نے اُمّتِ مسلمہ کو “جسدِ واحد” سے تعبیر کیا۔ فرمایا کہ اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہو، تو پورا بدن بے چین اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ مثال محض جذباتی ہمدردی کا اظہار نہیں، بلکہ ایک اجتماعی احساسِ ذمّہ داری کا اعلان ہے۔
خلافتِ راشدہ کی تاریخ گواہ ہے کہ جب دشمنانِ اسلام نے سرحدوں پر قدم بڑھایا، تو شام، مصر، ایران اور یمن کی فوجیں ایک وحدت کی صورت میں، مرکز کی قیادت میں میدان میں اتریں۔ کسی ملک، نسل یا قومیت کا فخر درمیان نہ آیا، صرف “اُمّت” بولتی تھی، اور “دین” حرکت میں آتا تھا۔ پس، نظریاتی اور اخلاقی سطح پر عالمی اسلامی فوج کا قیام کوئی غیر مانوس یا اجنبی تصور نہیں، بلکہ عین اسلامی روح سے ہم آہنگ ایک لازمی اور فطری تقاضا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اگر اخلاص، اتحاد اور حکمت کی عمارت اٹھائی جائے تو نہ صرف عسکری قوت کا احیاء ممکن ہے بلکہ ایک ایسا عالمی توازن بھی قائم ہوسکتا ہے جو مظلوموں کی ڈھارس بنے اور ظالموں کے لیے تنبیہ۔
● عملی مشکلات: انتشار، دباؤ اور انحصار کی زنجیروں میں جکڑی اُمّت
نظریات اگرچہ روح کو گرما دیتے ہیں، مگر عمل کی دنیا میں قدم رکھنے کے لیے صرف تمنائیں کافی نہیں ہوتیں وہاں حقیقت کی سنگلاخ زمین پر عزم، تدبّر اور ہمت کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ عالمی اسلامی فوج کا تصور اپنی اساس میں مقدس اور مطلوب سہی، مگر اس کے راستے میں ایسی دیواریں کھڑی ہیں جو صدیوں کے زوال، مفادات کے تصادم اور عالمی سازشوں کی اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔
الف)۔ سیاسی انتشار اور خودمختاری کا مسئلہ
آج اُمّتِ مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ اس کی سیاسی تقسیم اور قیادت کی بکھری ہوئی کشتیاں ہیں۔ تقریباً پچاس سے زائد مسلم ممالک اپنے اپنے جغرافیے میں مقید، اپنے مفادات کے اسیر، اور اپنی نظریاتی ترجیحات میں متضاد ہیں۔ سعودی عرب و ایران کی رقابت، ترکی و مصر کے سیاسی رخ، پاکستان و قطر کی سفارتی ترجیحات سب ایک دوسرے سے مختلف بلکہ بعض اوقات برعکس ہیں۔ جہاں ایک اُمّت کو صفِ واحد ہونا تھا، وہاں سفارتی صف بندی بھی منقسم ہے۔ ہر ملک اپنی خودمختاری کے خول میں ایسا بند ہے کہ وہ کسی مرکزی قیادت یا اجتماعی نظم کے سامنے جواب دہی کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اُمّت کے بدن میں ہر عضو اپنی الگ دھڑکن رکھتا ہے، اور کوئی دل نہیں جو ان تمام دھڑکنوں کو ایک لَے میں پرونے والا ہو۔
ب)۔ عالمی دباؤ
اگر بفرضِ محال چند مسلم ممالک ایک عسکری اتحاد کی طرف بڑھنے لگیں، تو مغرب کی طاقتیں بالخصوص امریکہ، یورپی یونین اور اسرائیل اسے نئے خلافتی خطرے کے طور پر دیکھیں گی۔ نیٹو جیسے اتحاد کی شکل میں اگر مسلمان اپنے دفاع کے لیے ایک بلاک بناتے ہیں، تو مغرب کو یہ اپنے عالمی مفادات، بالخصوص اسرائیل کے تحفّظ، توانائی کے ذخائر، اور سیاسی اثر و رسوخ کے لیے براہِ راست چیلنج محسوس ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مغرب نے ہر اس کوشش کو کچلنے کی ٹھانی جو وحدت اسلامی یا خودمختاری کی طرف اشارہ کرتی ہو، خواہ وہ جمال عبدالناصر کا عرب نیشنلزم ہو یا اخوان المسلمون کا سیاسی ابھار، یا ترکی کا دفاعی انڈیپنڈنس پروگرام۔ ایسا اتحاد نہ صرف مغرب کے لیے ناقابلِ قبول ہوگا بلکہ اس کے خلاف عالمی میڈیا، پابندیاں، بغاوتیں اور معاشی جنگیں برپا کر دی جائیں گی۔
ج)۔ اقتصادی انحصار
جب قومیں دوسروں کے دسترخوان پر پلتی ہوں، تو وہ نہ تلوار اٹھا سکتی ہیں، نہ قلم۔ مسلم دنیا کی معاشی حقیقت یہی ہے کہ بیشتر ممالک مغربی بینکوں، قرضوں، عالمی مالیاتی اداروں اور تجارتی معاہدوں کے جال میں گرفتار ہیں۔ دفاعی ساز و سامان کی صنعت میں ہماری حالت شرمناک ہے، ہمیں طیارے، میزائل، راڈار، حتیٰ کہ گولیاں تک مغرب یا اس کے حلیفوں سے خریدنی پڑتی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کبھی کوئی اسلامی عسکری اتحاد وجود میں آئے بھی، تو اس کی تلوار دوسروں کی نیام میں ہوگی، اور اس کے بازو دوسروں کی مرضی سے حرکت کریں گے۔
جس فوج کا خواب ہم دیکھ رہے ہیں، اس کے راستے میں صرف دشمن کی رکاوٹ نہیں، ہماری اپنی کوتاہیاں، وابستگیاں اور مفاد پرستی بھی دیوار بن کر کھڑی ہیں۔ جب تک اُمّت سیاسی طور پر بیدار، معاشی طور پر خود کفیل، اور نظریاتی طور پر متحد نہیں ہوتی، تب تک عسکری اتحاد کی راہ محض خواب رہے گی، ایک ایسا خواب جو جاگتے میں دیکھنا تو اچھا ہے، مگر اس کی تعبیر کے لیے کئی قربان گاہیں عبور کرنا باقی ہیں۔
● موجودہ کوششیں: علامتی قافلے اور ادھورے کارواں
جب تمنّا کے صحرا میں اندھیروں کو چیرتی کوئی مشعل دکھائی دے، تو دل امید باندھتا ہے کہ شاید اب راستہ روشن ہو جائے۔ مگر کئی بار یہ روشنی قریب آ کر پتہ دیتی ہے کہ یہ محض جھلملاتی سراب ہے، کچھ وقت کے لیے آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، مگر ہاتھ بڑھانے پر بجھ سی جاتی ہے۔ اُمّتِ مسلمہ نے بھی وحدتِ عسکر کا خواب لیے دو ایسے قافلوں کی آہٹ سنی: OIC اور Islamic Military Counter Terrorism Coalition (IMCTC)۔ آئیے دیکھیں کہ یہ آہٹیں کتنی دیر پا اور کتنی بار آور ہیں۔
الف) او آئی سی Organisation of Islamic Cooperation (OIC): کاغذی پرچم تلے خاموش صفیں
جدہ کے ساحلوں پر قائم اس تنظیم کی بنیاد نصف صدی قبل اس جوش میں رکھی گئی تھی کہ ایک آواز میں بولنے والے ممالک ایک دن مشترکہ قوت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ مگر سچ یہ ہے کہ “یہ محض ایک علامتی مجمع ثابت ہوئی جس کے خیمے میں نہ عسکری بازو ہے، نہ سیاسی چنگ۔ 57؍ سے زائد ممالک کے وفود کی گھن گرج اجلاس ہال سے باہر نہیں نکل پاتی؛ قراردادیں پاس ہوتی ہیں، مگر میدانِ عمل میں قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ جب فلسطین پر بم برستے ہیں یا وادی کے کوہسار سسکتے ہیں، تو OIC کی زبان پر آہیں اور قلم پر مذمتی بیانات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یوں OIC ایک ایسے درخت کی مانند ہے جس کی شاخیں سایہ تو دیتی ہیں، مگر اس پر پھل نہیں لگتا، اور تنے میں زخموں کا مرہم نہیں۔
ب) Islamic Military Counter Terrorism Coalition (IMCTC): ریاض کا بگل—محدود محاذ
دسمبر 2015ء کی ایک صبح، ریاض کے طلائی ہال میں جب 41؍ مسلم ممالک نے ہاتھ ملائے تو خبر اڑی کہ اُمّت نے عسکری وحدت کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے۔ مگر جلد ہی حقیقت نے دروازہ کھٹکھٹایا یہ اتحاد صرف دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو اپنا منشور بتاتا ہے، فلسطین کے زخمی زیتون، یا اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی واضح لائحۂ عمل اس کے پاس نہیں۔ ایران اور شام کی عدم شمولیت نے اس کارواں پر فرقہ واریت کی چھاپ لگا دی؛ جس وحدت کا پھریرا سبز ہونا تھا، اس پر سیاسی رنگوں کی پچکاری دکھائی دینے لگی۔ اختیارات اور فیصلہ سازی کا مرکز سعودی عرب ہے، یوں یہ اتحاد بظاہر ایک شاخ پہ کھڑا ہے، جسے پورے درخت کی جڑوں تک رسائی حاصل نہیں۔ آئی ایم سی ٹی سی IMCTC کا سپاہی اگرچہ وردی پہنے تیار ہے، مگر اس کی میدان بندی مختصر، اور دائرۂ کار خط نما نشانوں تک محدود ہے گویا شمشیر نیام سے نکلی تو سہی، مگر صرف ایک رخ پر چمکنے کو پابند ہے۔
او آئی سی (OIC) ہو یا IMCTC دونوں اپنے اپنے انداز میں وحدت کا علم لہرانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ایک کے پاس پرچم تو ہے، ہاتھ میں عصا نہیں، دوسرے کے پاس عصا تو ہے، مگر راستہ نشان زدہ نہیں۔ جب تک یہ دونوں ایک کی علامتی طاقت اور دوسرے کی عسکری صلاحیت ایک ہی دستِ قیادت میں نہ آجائیں، اُمّت کی اجتماعی قوت ادھوری رہے گی۔ سچ یہ ہے کہ حقیقی وحدت کی راہ میں صرف دشمن کی مزاحمت نہیں، ہمارے اپنے خوف، تعصبات اور مفادات بھی دیوار بنے کھڑے ہیں۔
● موجودہ عالمی صورتحال میں امکانات: خواب کی کرچیاں اور تعبیر کے امکانات
جب تاریخ کی ساعتیں تبدیلی کے کنارے پر ٹھہرتی ہیں، تو بعض اوقات ایک ہی لمحہ قوموں کی تقدیر کا دھارا موڑ دیتا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ کی عسکری وحدت بھی ایسے ہی نازک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں امید کے چراغ ہلکورے لے رہے ہیں، مگر ہوا میں مایوسی کی سرد لہر بھی شامل ہے۔ آئیے دیکھیں کہ کون سی شرائط اس چراغ کو روشن کر سکتی ہیں، اور کون سی کمزوریاں اس کی لَو کو بجھا دیتی ہیں۔
الف) شرائطِ تعبیر: جب ریگستانوں کی ریت ہاتھ میں سیسہ بن جائے
اعتماد کا پل!!! اگر ترکی کی بوسفورس سے ایران کے دشت، پاکستان کے کوہسار سے سعودی ریگستان اور مصر کے نیل تک پانچ بڑے ممالک باہم بیٹھ کر شک کے کانٹوں کو چن لیں، تو دلوں کے درمیان پل بن سکتا ہے۔ اعتماد وہ کندھا ہے جس پر سپاہ اپنی تلوار تیز کرتی ہے۔
مشترکہ خطرے کی مشترکہ حکمتِ عملی!!! صہیونی جارحیت کے سراب زدہ خنجر ہوں یا اسلاموفوبیا کے زہریلے تیر اگر ان سب کے خلاف ایک ہی ڈھال ڈھالی جائے، تو اُمّت بکھری ڈھالوں کے بجائے ایک چھتری کے نیچے آ سکتی ہے۔ دشمن کی صف بندی اگر ایک سمت میں ہو، تو دوستوں کی صف کیوں ٹیڑھی ہو؟
اقتصادی خود کفالت اور ٹیکنالوجی میں خود انحصاری!!! تیل کے کنویں اگرچہ دولت اُگلتے ہیں، مگر جب تک اُن کی دولت سے ریسرچ لیبارٹریاں، دفاعی کارخانے اور ڈیجیٹل شاہراہیں نہ بنیں، خزانے سینوں کی بجائے بیرونی تجوریوں میں پڑے رہیں گے۔ معاشی خودمختاری فاقہ کش سپاہ کو زوائدِ خورشید کی خوگر بنا دیتی ہے اور خودکفیل سپاہ سورج کو بھی زِیرِ سایہ کر دیتی ہے۔
داخلی استحکام!!! کسی ملک کا سپاہی تبھی سرحد پر ڈٹا رہتا ہے جب اس کے گھر کا آنگن محفوظ ہو۔ اقتدار کی کرسی اگر لرزاں ہو، تو توپ کا دہانہ کانپتا ہے۔
ب)- تعویق کی شبِ تار: نیت، اتفاق اور قیادت کا فقدان
نیت کا سہم جانا!!! حُسنِ نیت وہ پہلا چراغ ہے جو جل کر راستہ دکھاتا ہے، مگر آج ہر ریاست اپنے چھوٹے سے مفاد کی حفاظت میں اتنی مشغول ہے کہ بڑے خواب کو آنکھ جھپکنے تک کی مہلت نہیں دیتی۔
اتفاق کا بے سایہ شجر!!! کانفرنس ہالوں میں مسکراہٹیں، تصویریں اور مشترکہ اعلامیے تو بنتے ہیں، مگر دل کے دروازے ایسے بند ہیں کہ دستک کی صدا بھی لوٹ آتی ہے۔
قیادت کی مسندِ خالی!!! اُمّت کے کارواں کو وہ علم بردار نہیں مل رہا جو ہجوم کو صف میں ڈھال دے، کوئی صلاح الدین، کوئی محمد الفاتح، یا کوئی عمر مختار۔ یوں قافلہ راہوں کی گرد میں اپنا نقشِ پا کھو بیٹھا ہے۔
تصورِ اُمّت کی مدھم ہوتی روح!!! جب قومیت، نسل اور مسلک کی آندھیاں چلتی ہیں، تو اُمّت کا چراغ ٹمٹمانے لگتا ہے۔ فکرِ مسلم کی وہ چنگاری جس نے کبھی اندھیروں کو جلا ڈالا تھا، اب راکھ کی تہہ میں سسک رہی ہے۔
اگر اعتماد کے معبد میں نیت کی شمع روشن ہو جائے، اور قیادت کا صبح دم طلوع ہو، تو ترکی کے کارخانے، ایران کے انجینئر، پاکستان کے سپاہی، سعودی عرب کے وسائل، اور مصر کی دانش مل کر وہ دیوار اٹھا سکتے ہیں جس پر اُمّت کے دفاع کا پرچم لہرائے۔ لیکن آج اسی لمحے یہ ممکن نہیں کہ خواب کی آنکھ میں ابھی تک شک کا کانٹا چبھتا ہے، اور نعرے کا گلا کسی ٹھوس لائحۂ عمل کی پیاس سے سوکھا ہے۔ جب چراغ کی لو اور تیز ہو جائے، جب ہوا کا رُخ ساتھ دینے لگے، تو شاید یہی صحرا موسلا دھار بارش میں ہرا بھی کھل اٹھے۔ اس دن تک، ہمیں ریت پر نقش بنا کر نہیں سنگِ گراں پر کندہ کر کے چلنا ہو گا۔
● حرفِ امید و حقیقت: خوابِ بلند اور سنگِ گراں
جب افقِ تمنا پر عالمی اسلامی فوج کا پرچم لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو دل یقیناً سرشاری میں ڈوب جاتا ہے۔ مگر یہ پرچم ابھی چشمِ تصور میں ہی لہرا رہا ہے، زمینِ واقعہ پر اس کی کوئی طناب نصب نہیں کیوں کہ راستے میں ایسی آہنی زنجیریں پڑی ہیں جو صدیوں کے زوال اور اندرونی تعصبات کی بھٹی میں تپ کر سخت ہو چکی ہیں۔ اُمّت کی بکھری وحدت جسدِ واحد کے بجائے بے شمار دھڑکنیں، جن کی تال ایک دوسرے سے بےگانہ ہے۔ خود غرضی اور مفادات کا خاردار جنگل جہاں ہر ریاست اپنی چھاؤں میں سستانا چاہتی ہے، مگر کسی مشترک درخت کی جڑیں سینچنے کو آمادہ نہیں۔
مغربی انحصار کا طوق، جو گردنوں کو اس قدر خمیدہ رکھتا ہے کہ نگاہِ بلند فرمانِ قرآن کی طرف اٹھنا چاہے تو قرض و ضرورت کے پتھر آنکھ پر آ گرتے ہیں۔ قیادت کا خلا جہاں صلاح الدین کی تلوار اور عمرِ فاروق کی بصیرت دونوں محوِ خواب دکھائی دیتے ہیں، اور قافلے کی باگیں مختلف ہاتھوں میں لرزتی ہیں۔ یہی وہ سنگِ گراں ہیں جو اُس بلند و بالا مگر فی الحال غیر حقیقی قصرِ خواب کی بنیاد بننے نہیں دیتے۔ لیکن اگر اور یہ اگر نہایت قیمتی اور کٹھن ہے، اُمّتِ مسلمہ سیاسی اختلافات کی کلفت کو بردباری کے حریر میں لپیٹ کر مفاہمت کی میز پر رکھ دے فرقہ وارانہ تعصبات کے خاردار جھاڑ جھنکار کو آگ لگا دے، تاکہ راستہ ہموار ہو، مفادات کی غلامی سے زنجیریں توڑ کر اپنی معیشت، علم اور حرفت کا چراغ خود جلائے اور قیادت ایسے ہاتھوں میں آ جائے جو کاتبِ تقدیر کی سیاہی سے زیادہ اجلے ہوں۔
تو یہی رُت بنجر ریگستان میں بارانِ رحمت بن کر برسے گی۔ پھر انہی ریگ زاروں میں لشکر کے خیمے گڑیں گے، اور انہی پرچموں کی طنابیں وہیں نصب ہوں گی جہاں آج ٹھوکریں ہیں۔ یہ انقلاب نفوس میں بادِ نسیم کے جھونکے کی طرح خاموش نہیں آئے گا، بلکہ درسگاہوں میں قلم کو بال و پَر دینا ہوں گے، منبروں پر خطیب کی صدا میں سوزِ عمل بھرنا ہوگا اور ذرائعِ ابلاغ کے دریچوں سے ایسی ہوا چلانی ہو گی جو شعور کو چراغ کر دے۔
قیادت ایسی جو خود نگہباں ہو، نہ نگہبانی کی محتاج، جوڑنے والی ہو، جوڑ توڑ کی نہیں، اور جس کے ہاتھ میں لوحِ ارادہ ہو، زبان پر لوحِ ملامت نہیں۔ عالمی اسلامی فوج کا خواب بلاشبہ آسمان پر ستارے کی طرح چمکتا ہے، مگر اس کی روشنی زمین تک اسی وقت آئے گی جب ہم دل کے دشت میں فصلِ اتحاد اگائیں، ذہن کے پتھروں کو کندہ کر کے دانائی کے میمبر تراشیں، اور ارادے کی کج راہوں کو سیدھا کر کے ایک ہی سمت میں گامزن ہوں۔ وہ دن شاید دور ہو، مگر ناممکن نہیں کیوں کہ تاریخ نے کئی بار دیکھا ہے کہ جب ایک اُمّت اپنے آپ سے اٹھ کر اپنے ربّ کی طرف رُخ کرتی ہے، تو پہاڑ راستہ دیتے ہیں اور سمندر راستا بن جاتا ہے۔

