مضامین
ایک سائبان

تحریر: خان افرا تسکین (اورنگ آباد)
فون نمبر: 9545857089
باپ… ایک ایسا لفظ، ایک ایسی ہستی، جسے بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ شاید میں کچھ بھی نہ لکھ سکوں اس عظیم ہستی کے بارے میں جس نے خود کو مٹا کر ہمیں بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اگر ماں محبت اور دعا کی علامت ہے تو باپ قربانی اور جدوجہد کی عظیم مثال ہے۔ باپ کی محبت درخت کی چھاؤں کی مانند ہے؛ خاموش، پرسکون، مگر سایہ دار، جو سخت دھوپ میں بھی اپنی اولاد کو ٹھنڈی ہوا کا احساس دیتا ہے۔ وہ اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر، اپنی راحتوں کو قربان کر کے، اپنی نیندوں کو تج کر صرف ایک خواب دیکھتا ہے — اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کا خواب۔
باپ کی جدوجہد کا انداز نرالا ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی سختیوں سے لڑتا ہے، موسموں کی شدتوں کا سامنا کرتا ہے، مگر اپنی اولاد کے سامنے کبھی اپنے درد کو ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ دن بھر کی تھکن کے باوجود جب شام ڈھلے گھر لوٹتا ہے تو مسکرا کر اپنے بچوں کی تھکن مٹا دیتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا ہر دن، ہر لمحہ، اپنی اولاد کے بہتر کل کے لیے گروی رکھ دیتا ہے۔ غربت ہو یا امارت، تنگی ہو یا آسانی، اس کے کندھے ہمیشہ ذمہ داریوں کے بوجھ سے جھکے ہوتے ہیں، لیکن اس کے چہرے پر کبھی مایوسی کا سایہ نہیں آتا۔
باپ کی فطرت قربانیوں سے لبریز ہوتی ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ چیزیں بھی بچوں کی خوشی پر قربان کر دیتا ہے۔ اپنے کپڑے پرانے رکھ لیتا ہے مگر بچوں کو نیا لباس پہنا دیتا ہے۔ اپنے خواب دباتا ہے تاکہ بچوں کے خوابوں کو تعبیر دے سکے۔ اس کا غصہ بظاہر سخت محسوس ہوتا ہے، لیکن اس کے اندر چھپی محبت سمندر سے زیادہ گہری اور آسمان سے زیادہ وسیع ہوتی ہے۔ وہ اپنی ہر دعا میں اپنی اولاد کے لیے خیر مانگتا ہے، چاہے خود کتنی ہی تکلیف میں ہو۔
باپ کی محبت الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔ وہ اپنی محبت کو زیادہ بول کر ظاہر نہیں کرتا، لیکن اس کی آنکھوں کی نمی، اس کی پیشانی کی لکیریں، اور اس کے جھکتے قدم گواہ ہوتے ہیں کہ اس نے اپنی پوری زندگی ہمیں سنوارنے میں لگا دی۔ وہ بیٹی کی ہر خوشی کو اپنی خوشی سمجھتا ہے، بیٹے کے ہر غم کو اپنا غم جانتا ہے۔ بیٹی کے رخصت ہوتے وقت دل خون کے آنسو روتا ہے مگر چہرے پر مسکراہٹ رکھتا ہے۔ بیٹے کو دنیا کی ٹھوکروں سے بچانے کے لیے خود ٹھوکریں کھاتا ہے۔
باپ ایک محافظ ہوتا ہے، ایک رہنما، ایک چھاؤں بھرا سائبان۔ جب دنیا کی ہوائیں ہمیں اکھاڑنے کی کوشش کرتی ہیں، تو باپ اپنی محبت اور قربانیوں کی ڈھال بن کر ہمیں تھام لیتا ہے۔ وہ خود تھک جاتا ہے، ٹوٹ جاتا ہے، مگر ہمیں کبھی کمزور نہیں ہونے دیتا۔ اس کی دعائیں ہر قدم پر ہمیں مضبوط بناتی ہیں، اس کا سایہ ہمیں سکون دیتا ہے۔
باپ وہ ہستی ہے جس کی قدر الفاظ میں نہیں سمائی جا سکتی۔ اگر دنیا کی ساری دولت، خوشیاں اور کامیابیاں ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور باپ کی محبت، قربانیاں اور دعائیں دوسرے پلڑے میں، تو باپ کا پلڑا ہمیشہ بھاری ہوگا۔ کیونکہ اس کی محبت بےلوث ہے، اس کی قربانیاں بےحساب ہیں، اور اس کی دعائیں کبھی تھکتی نہیں، کبھی رکتی نہیں۔
لیکن افسوس کہ اکثر ہم ان ہستیوں کی قدر اس وقت نہیں کرتے جب وہ ہمارے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ہم ان کی باتوں کو، ان کی فکر کو معمولی سمجھ لیتے ہیں۔ ان کے چہرے کی جھریوں اور ان کی تھکن کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور جب وہ ہم سے بچھڑ جاتے ہیں، تب احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کس نعمت کو کھو دیا ہے۔ تب دل تڑپتا ہے، آنکھیں نم ہوتی ہیں، اور ایک نہ ختم ہونے والی خلش دل میں رہ جاتی ہے۔
اب بھی وقت ہے۔
آئیے، اپنے والدین کے ساتھ وقت گزاریں۔ ان کی باتیں سنیں، ان کی دعائیں لیں، ان کے ساتھ ہنسیں، ان کے ساتھ بیٹھیں، ان کے چہروں پر خوشیاں بکھیریں۔ کیونکہ جب یہ عظیم ہستیاں چلی جاتی ہیں تو پھر چاہ کر بھی ہم وقت واپس نہیں لا سکتے۔ ان کی موجودگی سب سے بڑی نعمت ہے۔ ان کی دعائیں ہماری زندگیوں کی سب سے بڑی حفاظت ہیں۔