تاجدارِ علم و ہنر ہےمیری بہن !

(عقیل خان کی جانب سے بہن کے اعزاز میں)
تاجدارِ علم و فن، تو ہادیٔ راہِ شعور،
درس گاہوں کی فضا میں ہے تری خوشبو ضرور۔
تو بنی اک پیکرِ اخلاص، آئینہ صفات،
نورِ کردار و ہنر کی تو ہے روشن ممکنات۔
مستند ہر بات میں ہے، نرمیٔ لہجہ کی شان،
تیری آوازِ صداقت، جیسے بارانِ اذان۔
تزکیۂ دل، تھی کرتی درسِ ایمانی کے ساتھ،
بزمِ تعلیمات میں جگتی تھی تو ایماں کی بات۔
"ساجدہ”، پایا لقب سجدوں میں روئی زار زار
نام ہی میں ہے شرافت، نسبتوں کی پاسدار
ورثہء علمِ نبیؐ، سے دامنوں کو بھر دیا
ہر گُلِ ملت کو اپنی شفقتوں سے چُن لیا۔
عمر نے جب کہہ دیا: "اب ہے یہ رُخصت کا سفر”،
دل نے روکا، آنکھ نے چاہا، ٹھہر جائے ہنر۔
کوئی غفلت تھی ، نہ کمزوری تقاضا عمر کا،
ورنہ تو روشن تھی کرتی اور یہ شہرِ وفا۔
ہے سبکدوشی کی گھڑیوں میں، یہ بھائی کی دعا:
تیرا ہر لمحہ ہو روشن، ہو تری صبحِ ضیا۔
علم کا دریا بہے، تو کشتیء رحمت رہے،
فیض پائیں تشنگاں، تو مژدۂ حکمت رہے
تُو رہے ہر دل میں زندہ، جیسے خوشبو باغ کی،
بات تیری ہو سدا ، اک صورتِ بے داغ سی۔
ہے عقیلِؔ ناتواں نے یہ سخن دل سے لکھا،
"ہے تری خدمت عبادت، ہے تُو عالِم کی ادا”۔
(٣١ جولائی ٢٠٢٥ کو تدریسی خدمات سے سبکدوشی کے موقع پر)