مضامین

تاریخ، حبُّ الوطنی اور مسلمان قیادت کا امتحان

 🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
┄─═✧═✧═✧═✧═─┄

وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے، جو انسان کی روح میں اس کے اوّلین سانس کے ساتھ پیوست ہو جاتا ہے۔ لیکن جب یہ محبت ایمان کے نور سے جُڑ جائے، تو پھر اس کا رنگ محض جذباتی وابستگی کا نہیں، ایک مقدّس ذمّہ داری کا بن جاتا ہے۔ اسلام نے انسان کو محض زمین کا باسی نہیں بنایا، بلکہ اُسے زمین پر خلیفہ مقرر کیا، اور اس منصب کا تقاضا ہے کہ وہ جہاں بھی رہے، وہاں امن، عدل، خیر و فلاح اور تعمیر کا علمبردار بنے۔ اسلامی تعلیمات میں وطن سے محبت کو نہ تو شرک قرار دیا گیا ہے، نہ اسے نظر انداز کیا گیا ہے؛ بلکہ اسے ایک فطری جذبے کے طور پر تسلیم کر کے اس کی مثبت سمت متعین کی گئی ہے۔

ہندوستان، وہ سر زمین ہے جہاں مسلمانوں کی تاریخ ہزار برس پر محیط ہے—ایک ایسی تاریخ جو صرف سلطنتوں کی نہیں، تہذیبوں، خدمات، قربانیوں اور شراکتوں کی داستان ہے۔ مگر اسی تاریخ میں ایسے مقام بھی آئے جب وفاداریوں پر سوال اٹھے، حبُّ الوطنی پر شبہات کیے گئے، اور مسلمانوں کو اُن کی جڑوں سے کاٹنے کی کوشش کی گئی۔ ان زخموں نے نہ صرف ماضی کو چیر ڈالا، بلکہ حال اور مستقبل کی سمت میں بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے۔

یہ مضمون انہی سوالات کا احاطہ کرتا ہے—مولانا ابوالکلام آزاد کی عظمت سے لے کر اسدالدین اویسی کی موجودہ قیادت تک، اور اس کے درمیان بکھرے ہوئے مسلمانوں کے خواب، جدوجہد، اور امکانات تک۔ یہ تحریر کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتی، بلکہ ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اور آگے کہاں جانا چاہتے ہیں؟

اسلام انسان کو صرف اللّٰہ کا بندہ بناتا ہے، کسی نسل، قوم یا وطن کی غلامی کا درس نہیں دیتا۔ لیکن اسلام نے وطن سے محبت کو ایک فطری اور فطرتِ سلیم کا تقاضا قرار دیا ہے۔ رسول اکرمﷺ نے جب ہجرت کے وقت مکّہ کو الوداع کہا، تو ان کے لبوں پر مکّہ کی محبت کے الفاظ تھے: "اے مکّہ! تُو مجھے تمام شہروں سے زیادہ محبوب ہے، اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی، تو میں کبھی نہ جاتا”۔ یہی وہ جذبہ ہے جو مسلمان کو نہ صرف وطن سے جوڑتا ہے، بلکہ اس کی بھلائی اور تحفّظ کی ذمّہ داری بھی اس کے کندھوں پر رکھتا ہے۔

ہندوستانی مسلمان صدیوں سے اسی سر زمین کا جزو لاینفک ہیں۔ اُن کے بزرگوں نے نہ صرف اس سر زمین کو آباد کیا، بلکہ اپنے خون سے اس کی حفاظت کی۔ آزادی کی تحریک میں ان کا کردار محض شرکت کا نہیں بلکہ قیادت کا تھا۔ مگر تاریخ کے کچھ موڑ ایسے بھی آئے، جہاں ان کی وفاداری، قربانی اور حبُّ الوطنی کو آزمائش کی بھٹی سے گزارا گیا۔

جن کے لہو نے چمکائی تھی چراغِ آزادی
وہی سرِ راہ گمنام ہوئے، وہی ستم رسیدہ ہوئے

مسلمانانِ ہند کی تاریخ جب بھی حبُّ الوطن کے جذبے کی روشنی میں دیکھی جائے گی، ایک نام جگمگاتا ہوا نظر آئے گا—مولانا ابوالکلام آزاد۔ وہ جنہوں نے اپنے علم و فہم، اپنی تقریر کی سحر انگیزی، اور اپنے کردار کی دیانت سے قوم کے دلوں میں ایک مستقل مقام پیدا کیا۔ وہ نہ صرف تحریکِ آزادی کے سپہ سالاروں میں شمار ہوتے تھے، بلکہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے لیے امید کا استعارہ تھے۔ اُنہوں نے تحریکِ آزادی کے متوالوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آزادی کا خواب دیکھا، اور اس خواب کی تعبیر میں اپنے وجود کو مٹا دینے کا حوصلہ بھی رکھا۔

لیکن… تاریخ صرف ارادوں کی روشنی سے نہیں لکھی جاتی، وہ نتائج کی سیاہی سے بھی رقم ہوتی ہے۔ 1947ء کی خونی لکیر نے جب ہندوستان کے سینے پر زخم کاٹا، تو مسلمانوں کے خواب چکنا چور ہوگئے۔ آزادی کی اس صبح کا سورج ان کے لیے خون میں رنگا ہوا تھا۔ مولانا آزاد کی بصیرت، ان کی حبُّ الوطنی، اور ان کی پرخلوص اپیلیں—سب کچھ بے اثر ہوگئیں۔ انہوں نے دل سے چاہا کہ ہندوستان کا مسلمان اسی سر زمین پر اپنی جڑیں مضبوط کرے، لیکن فسادات کی آندھی میں اُن کی صدائیں دب کر رہ گئیں۔

آزادی کا سورج بھی ہم پر چھاؤں نہ لایا
ہم نے جو کھویا، وہ کسی نے نہ پایا

یہ تاریخ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر ایک مولانا آزاد، اپنی غیر متزلزل حبُّ الوطنی اور قربانیوں کے باوجود، مسلمانوں کو ظلم و ستم سے نہ بچا سکے—تو آج جب ہم اس وطن میں پھر کسی مسلم رہنما کو محبتِ وطن کا دعوے دار دیکھتے ہیں، تو دل بےاختیار سوال کرتا ہے: کیا آج کی دیش بھگتی، کل کا تحفّظ بن سکے گی؟ اس پس منظر میں اسدالدین اویسی صاحب کا نام ابھرتا ہے، جنہیں بعض لوگ مسلمانانِ ہند کا نئی صدی کا رہنما سمجھتے ہیں۔ ان کی تقریریں جذبات کو ابھارتی ہیں، ان کے بیانات خبروں میں جگہ پاتے ہیں، اور ان کی سیاسی حکمتِ عملی نے انہیں ایک ممتاز مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ وہ بھی اسی طرح، بار بار دہراتے ہیں کہ مسلمان اس ملک کے برابر کے شہری ہیں، اور اُنہیں ان کا حق چاہیے، نہ کہ خیرات۔

لیکن سوال وہی ہے، جو وقت کی دیوار پر کندہ ہے: کیا یہ دیش بھگتی، یہ نعرے، یہ پارلیمانی خطبے، اگلی بار فسادات کی آگ میں مسلمانوں کی جان و مال کی ضمانت بن سکیں گے؟ کیا یہ رہنما، جو جذباتی خطابت میں مولانا آزاد کی جھلک دکھاتے ہیں، عملی سیاست کے میدان میں وہ چراغ روشن کر سکیں گے جو نفرت کی اندھی رات میں رہنمائی کرے؟ یہ سوالات صرف اویسی صاحب سے نہیں، بلکہ ہر مسلمان سے ہیں—جو اس ملک میں نہ صرف جینا چاہتا ہے، بلکہ عزّت اور مساوات کے ساتھ جینا چاہتا ہے۔ مولانا آزاد کی دیش بھگتی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھی گئی، لیکن وہ وقت کے طوفان کا بند باندھ نہ سکی۔ اب دیکھیے، اویسی صاحب کی دیش بھگتی کس رنگ میں کھلتی ہے— کیا یہ رنگ اُمید کا ہوگا، یا پھر مایوسی کی کوئی نئی داستان؟

یہ وقت ہے کہ ہم تاریخ کے زخموں سے عبرت حاصل کریں اور مستقبل کی سمت اجتماعی بصیرت کے ساتھ قدم بڑھائیں۔ نہ ماضی کے سہارے جینے کا وقت ہے، نہ صرف جذباتی نعروں سے مستقبل کی تعمیر ممکن ہے۔ ہمیں ایک طرف حبُّ الوطنی کا وہی خالص جذبہ درکار ہے جو رسول اللّٰہﷺ نے مکّہ کے لیے دکھایا، اور دوسری طرف وہ سیاسی حکمت، دینی بصیرت اور اجتماعی شعور درکار ہے جو صحابۂ کرامؓ نے مدینہ کی ریاست میں پیش کیا۔

کہاں سے لائیں وہ چراغ کہ جن کی لو میں ہو بصیرت
کہاں سے آئیں وہ رہبر جو بنیں قوم کی عزّت

اسلام ہمیں جذبات کی گہرائی کے ساتھ عقل کی روشنی بھی عطا کرتا ہے۔ کسی بھی قیادت، خواہ وہ مولانا آزاد ہو یا اویسی صاحب، محض تقریروں یا شہرت سے نہیں بلکہ اس کی دور اندیشی، اصول پسندی، اور امت کے اجتماعی مفاد کے لیے قربانی سے پرکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنے اندر یہ یقین زندہ رکھنا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں زمین پر نائب بنایا ہے، نہ کہ بے حیثیت تماشائی۔ "إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ”۔ (بے شک اللّٰہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔ – سورہ رعد: 11)

نہ ہو جو فکر کی روشنی، نہ ہو شعورِ کارواں
تو پھر یہی زمین بن جائے گی گردابِ امتحاں

پس، اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں ہمارا وقار بحال ہو، ہمارا تحفّظ یقینی ہو، اور ہماری آنے والی نسلیں عزّت و اطمینان سے جی سکیں—تو ہمیں فکری، تعلیمی، اخلاقی اور سیاسی ہر سطح پر بیداری، اتحاد اور کردار کی سچائی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ رہنما آئیں گے، آزمائے جائیں گے، اور تاریخ اُنہیں مقام دے گی—لیکن اُمت کی اصل طاقت اس کا ایمان، اس کا علم، اور اس کی وحدت ہے۔ اللّٰہ کرے کہ اس ملک کی فضا ایسی ہو جائے جہاں صرف شناخت نہیں، بلکہ مساوات اور انسانیت کی قدر ہو۔ اور مسلمان نہ صرف اپنے دینی تشخص کے ساتھ جئیں، بلکہ اس ملک کے لیے رحمت، امانت اور تعمیر کا نشان بنیں۔

وَقُلِ اعۡمَلُوۡا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمۡ وَرَسُوۡلُهٗ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ‌ؕ وَسَتُرَدُّوۡنَ اِلٰى عٰلِمِ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‌ۚ۔

اور آپ کہہ دیجیے کہ عمل کئے جاؤ سو تمہارے عمل کو اللّٰہ اور اس کا رسول اور مومنین ابھی دیکھے لیتے ہیں اور تمہیں ضرور ہی غیب و شہادۃ کے جاننے والے کے پاس واپس جانا ہے تو وہ تم کو بتلا دے گا کہ تم اب کیا کرتے رہے ہو۔ (القرآن – سورۃ التوبة: 105)

آمین یا ربّ العالمین۔

                    (05.06.2025)
•┅┄┈•※‌✤م✿خ✤‌※┅┄┈•
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!