جہیز: ایک رواج، ایک لعنت، ایک معاشرتی دھوکہ

۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
الحمدُ للّٰہ! تمام تعریفیں اُس ربِّ ذوالجلال کے لیے جس نے نکاح کو نہ صرف ایک عبادت قرار دیا بلکہ اُسے سادگی، محبت، اور باہمی رضا پر قائم فرمایا۔ درود و سلام اُس نبیِ کریمﷺ پر، جنہوں نے اپنے عمل سے ہمیں یہ سکھایا کہ بیٹیوں کو عزّت دو، اُن کی پرورش کو جنّت کا وسیلہ سمجھو، اور نکاح کو ایک سہل اور بابرکت بندھن بناؤ نہ کہ دنیاوی نمود و نمائش کا میدان۔
اسلام، جو سراپا رحمت ہے، اُس نے نکاح کو کبھی مالیاتی سودے کا نام نہیں دیا۔ رسولِ اکرمﷺ نے حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ سے سادگی کے ساتھ فرمایا۔ نہ کوئی فہرست دی، نہ مطالبہ کیا، نہ خزانے کا تقاضا ہوا۔ یہی وہ سنّتِ مصطفوی ہے جسے آج ہم نے ترک کر دیا ہے، اور اُس کی جگہ معاشرتی رسموں، ثقافتی جبر، اور جھوٹی انا کے مجسمے کھڑے کر دیے ہیں۔
قرآنِ کریم ہمیں واضح طور پر حکم دیتا ہے: "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً” (النساء: 4)۔ "اور عورتوں کو اُن کا مہر خوش دلی سے دو”۔ یہاں مرد کو دینے والا قرار دیا گیا، عورت کو لینے والی۔ مگر افسوس! ہم نے اس فطری ترتیب کو پلٹ کر رکھ دیا۔ آج بیٹی کا ہاتھ اُس وقت تک نہیں مانگا جاتا جب تک اس کے باپ کے ہاتھ میں کچھ نہ رکھا جائے۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا: "سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو” (ابنِ حبان)۔ لیکن ہم نے برکت کو چھوڑ کر بوجھ کو ترجیح دی۔ نتیجہ یہ ہے کہ شادی ایک سنّت نہیں رہی، ایک معاشرتی امتحان بن گئی ہے۔ خاص طور پر اُن والدین کے لیے جن کے گھر بیٹی کا چراغ روشن ہوتا ہے۔
آج وقت ہے کہ ہم اپنے ایمان کی طرف پلٹیں۔ دین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ بیٹی کو "رحمت” سمجھو، اور نکاح کو "سہولت” بناؤ، نہ کہ بیٹی کے والدین کے لیے آزمائش کا میدان۔ اس تمہید کے بعد، آیئے غور کریں اُس تلخ سچائی پر، جو ہم سب کی نظروں کے سامنے ہے، مگر دل تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ سچائی ہے "جہیز” کے نام پر جاری وہ ظلم، جس نے کتنی ہی فاطماؤں اور امت کی بیٹیوں کے خواب روند دیے، اور کتنے ہی والدین کو میرؔ کی طرح اپنا آشیانہ جلا کر بیٹی کا آنگن روشن کرنا پڑا۔
ہم اُس معاشرے کے باسی ہیں جہاں زبان سے تو ہر دوسرا شخص "جہیز” کو لعنت کہتا ہے، لیکن عمل کی کسوٹی پر پرکھیں تو سچائی کچھ اور نظر آتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ جب بات دوسروں کی ہوتی ہے تو ہمارے ضمیر جاگ اٹھتے ہیں، زبان پر دین کے اصول سجنے لگتے ہیں، اور صحیح و غلط کا شعور بیدار ہو جاتا ہے۔ مگر جب وہی مسئلہ خود کے دروازے پر دستک دیتا ہے، تو ہم اپنے ہی کہے کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ یہی تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے—دوہرا معیار۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دین، اخلاقیات، اور اصول صرف تقریروں کے لیے رہ گئے ہیں۔ عمل کی دنیا میں جب اپنی بیٹی کا رشتہ طے کرتے ہیں تو ہم ہی وہ والد بن جاتے ہیں جو "کچھ دینے” کی فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور جب بیٹے کی شادی کا وقت آتا ہے، تو ہم ہی وہ سسر بن جاتے ہیں جو "کچھ لینے” کی امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
"والدین” وہ ہستی جو ساری زندگی اپنی اولاد کی خوشیوں پر قربانیاں دیتے ہیں۔ اپنی بیٹی کے رخصتی کے وقت اس فکر میں ہوتے ہیں کہ کہیں اُس کے سسرال میں اُسے محرومی، طعنہ یا بےقدری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ دل و جان سے کوشاں ہوتے ہیں کہ کچھ ایسا دے جائیں جس سے بیٹی کی عزّت بڑھے، اس کے سسرال میں مقام بنے، اور وہ زندگی کی کٹھن راہوں سے محفوظ رہے۔
مگر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو گھر کسی بیٹی کو اُس کی قیمت کے عوض قبول کرے، وہ کبھی بھی اُسے اُس کے حقیقی مقام کے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ جو شوہر اپنی ہونے والی بیوی کے لیے بنیادی ضروریات بھی مہیا نہ کر سکے، اُس سے یہ امید رکھنا کہ وہ اُسے عزّت، محبت، اور تحفّظ دے گا۔ ایک خوش فہمی ہے، ایک سراب ہے۔
اصل عزّت اُس گھر میں ہے جہاں بیٹی کو "سامان” کے بدلے نہیں، اُس کے اخلاق، اُس کی تربیت، اُس کے خلوص اور اُس کی محبت کے صلے میں قبول کیا جائے۔ مگر افسوس! ہمارا معاشرہ اُسے اُس وقت تک عزّت نہیں دیتا جب تک وہ اپنے ساتھ فریج، واشنگ مشین، قیمتی بستر، گاڑی اور سونے کے زیورات نہ لائے۔
ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا، کیا ہم واقعی وہی لوگ ہیں جو "جہیز ایک لعنت ہے” کا نعرہ لگاتے ہیں؟ یا ہم محض اس ڈھونگ کو نبھاتے ہیں جو ہمیں اچھا دکھاتا ہے مگر سچ سے کوسوں دور ہوتا ہے؟ یہ وقت ہے بیدار ہونے کا، عمل کا، تبدیلی کا۔ بیٹی کو بوجھ نہیں، رحمت سمجھنے کا۔ اور بیٹی کے ساتھ "جہیز” نہیں، صرف "احترام” بھیجنے کا۔
کیا وہ شخص واقعی اُس لڑکی کے قابل ہے؟ یہ سوال صرف ایک جملہ نہیں، ایک آئینہ ہے۔ جو ہر اُس شخص کے چہرے پر پڑتا ہے جو بیٹی کے رشتے کو بازار کی بولی سمجھتا ہے۔ جو نکاح جیسے مقدّس بندھن کو مال و زر سے تولنے بیٹھ جاتا ہے، اور عزّت کو سامان کی مقدار سے ماپتا ہے۔
کیا واقعی وہ مرد اُس لڑکی کے قابل ہے جس نے عمر بھر اپنی ماں، بہن، بیٹی کے روپ میں عورت سے محبت کا سبق پڑھا ہو، مگر اب ایک بیوی کے انتظار میں دام باندھنے لگا ہے؟ وہ جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ محبت کرے گا، ساتھ نبھائے گا، مگر اُس کے دل کی قیمت ایک فرنیچر سیٹ، ایک گاڑی یا سونے کے زیورات سے مشروط ہو! کیا اُس کا کردار قابلِ عزّت ہے؟
ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں نئی نسل کی خوشیوں پر نقب زن ہیں۔ اور ان کی اقسام بھی کچھ کم پیچیدہ نہیں۔ لالچ کا یہ زہر مختلف چہروں میں ڈھل کر آتا ہے:
لب پہ لعنت، دل میں حرص، کیسا یہ نظام ہے؟
جہیز کو کوستے بھی ہیں، مانگتے بھی بے لگام ہیں
پہلی قسم:
یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں میں شرم کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ وہ کھلے عام مطالبات کرتے ہیں، یوں جیسے یہ ان کا حق ہو۔ ایک لمبی فہرست تھماتے ہیں! گویا بیٹی نہیں، کوئی سودے کی شے مانگ رہے ہوں۔ ’’ایک عدد موٹر سائیکل، دو سونے کے سیٹ، جدید فرنیچر، اور ہاں، ایک لیپ ٹاپ بھی‘‘!!! ان کے جملے نہیں، بیٹی کے باپ کے سینے پر ہتھوڑے کی ضربیں ہیں۔
دوسری قسم:
یہ ذرا مہذب انداز میں لالچ کی لُوٹ مار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’ہمیں کچھ نہیں چاہیے، بس آپ اپنی خوشی سے جو مناسب سمجھیں دے دیجیے گا‘‘۔ یہ جملہ سننے میں کتنا نفیس لگتا ہے، مگر اندر سے کتنا گھناؤنا ہے۔ اس میں چھپی چالاکی وہی جانتا ہے جس نے بیٹی کو رخصت کرتے وقت اپنا دل بھی ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا ہو۔
تیسری قسم:
یہ خاموش تماشائی ہوتے ہیں۔ نہ مانگتے ہیں، نہ انکار کرتے ہیں۔ جہیز چپ چاپ لے بھی لیتے ہیں، مگر یہ بھی نہیں کہتے کہ "یہ مت دو، ہمیں اس کی ضرورت نہیں”۔ ان کی خاموشی ایک غیر اعلانیہ رضامندی بن جاتی ہے، اور یوں وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہو جاتے ہیں۔
یہ تینوں قسم کے لوگ دراصل ایک ہی بیماری کی مختلف علامات ہیں! لالچ، حرص، اور خود غرضی۔ اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ معاشرہ ان کو عزّت دیتا ہے، ان کے گرد جھکتا ہے، ان کی فرمائشیں پوری کرتا ہے، اور پھر ان ہی کے ہاتھوں اپنی بیٹیوں کی زندگی کا سکون داؤ پر لگا دیتا ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے رویوں کو بدلیں۔ بیٹیوں کو بوجھ نہیں، اعزاز سمجھیں۔ رشتے کو تجارت سے پاک کریں۔ اور سب سے اہم، یہ سوال خود سے بار بار کریں: "کیا وہ شخص واقعی اُس لڑکی کے قابل ہے؟”۔ اگر اُس کا ظرف اتنا چھوٹا ہے کہ وہ چند چیزوں کے بغیر اُس لڑکی کی قدر نہیں کر سکتا، تو جان لیجیے، وہ اُس کے ہاتھ تھامنے کا نہیں، صرف اُس کے خواب روندنے کا اہل ہے۔
ایک بات تو اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر وہی لوگ، جو بڑی شدّ و مدّ سے "جہیز ایک لعنت ہے” کے نعرے لگاتے ہیں، درحقیقت اسی لعنت کو اطمینانِ قلب کے ساتھ قبول بھی کرتے ہیں۔ زبان سے نیکی، دل میں لالچ، یہی وہ تضاد ہے جس نے نکاح جیسے پاکیزہ رشتے کو سود و زیاں کی میز پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر دیانتدار بنتے ہیں، دروازے پر آ کر کہتے ہیں: "ہمیں کچھ نہیں چاہیے، ہم رسم و رواج کے خلاف ہیں”۔ لیکن اندرونِ خانہ دل میں ایک حساب کتاب چل رہا ہوتا ہے!!! کتنا آیا؟ کیا آیا؟ کس معیار کا آیا؟
اور اگر کسی وجہ سے یہ "سودا” مکمل نہ ہو پائے یعنی وہ سب کچھ نہ ملے جس کی خواہش تھی، تو پھر ایک نئی قسم کے لوگ میدان میں آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شادی کے بعد اپنی اصل فطرت آشکار کرتے ہیں۔ بیٹیوں کو طعنوں کے تیر مارے جاتے ہیں: "تمہارے گھر سے تو کچھ خاص نہیں آیا”، "فلاں کی بیٹی کے ساتھ تو گاڑی بھی آئی تھی”، "تمہارے ماں باپ نے کچھ نہیں سوچا؟”۔ یہ جملے نہیں ہوتے، زہر میں بجھے خنجر ہوتے ہیں، جو اُس بیٹی کے وقار، خودداری، اور اعتماد کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتے ہیں۔
پھر یہ طعنے محض طعنے نہیں رہتے، وہ دھندلا سا دھاگا بن جاتے ہیں، جس میں بیٹی کا سکھ، اُس کی ہنسی، اُس کی خوشی باندھ دی جاتی ہے۔ اور کچھ لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ بیٹیوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے: "اگر تم چاہتی ہو کہ یہاں خوش رہو تو اپنے ماں باپ سے کہو، فلاں چیز کا انتظام کریں”۔ اور بیٹی، جو ماں باپ کی عزّت کی لاج رکھنے آئی تھی، اب اُنہی کے در پر کسی مانگنے والے کی طرح جھولی پھیلائے کھڑی ہوتی ہے، نہ اپنی زبان سے، مگر آنکھوں کے آنسوؤں سے۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اِس استحصال، اِس سودے بازی، اِس ظلم کے باوجود بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی کہ بیٹی اُس گھر میں خوش رہے گی۔ کیونکہ جو رشتہ لالچ کی بنیاد پر کھڑا کیا جائے، اُس میں محبت کا سایہ کیونکر ٹک سکے گا؟ جو عزّت دولت کی محتاج ہو، وہ دل سے کیونکر ملے گی؟ جو احترام مال کے بقدر دیا جائے، وہ دائمی کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ وہ المیہ ہے جو ہماری بیٹیوں کے دُلہن بننے کے خواب کو کچل دیتا ہے۔ یہ وہ اندھیرا ہے جو روشن مستقبل کے چراغ بجھا دیتا ہے۔ اور یہ وہ زنجیر ہے جسے توڑنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
جہیز کے نام پر مانگنے والے، لینے والے، اور خاموشی سے قبول کرنے والے سبھی برابر کے مجرم ہیں۔
بیٹیوں کی عزّت کو قیمت مت دو، اُس کو محبت دو، اعتماد دو، احترام دو۔ اور ہر باپ سے، ہر بیٹے سے، ہر سسر سے، یہ سوال اب صاف لفظوں میں کیا جانا چاہیے: "اگر تمہارا رشتہ صرف سامان کے سہارے کھڑا ہے، تو کیا تم واقعی اُس لڑکی کے قابل ہو؟”۔
اٹھارہویں صدی کے شہرہ آفاق شاعر، میر تقی میرؔ—جن کے اشعار دلوں میں اترتے ہیں، جن کے قلم نے محبت، درد، فراق، اور انسان کی باطنی کیفیتوں کو ایسے انداز میں چُھوا کہ آج تک ان کی مثال نہیں ملتی—اُن کی زندگی کا ایک ایسا واقعہ، جو صرف اُن کا ذاتی سانحہ نہیں، بلکہ جہیز کی لالچ میں جکڑے ہر دور کے معاشرے کے منہ پر ایک تھپڑ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ میر تقی میرؔ کی ایک ہی بیٹی تھی، نورِ نظر، دل کا سکون، آنکھوں کا خواب۔ بیٹی کی رخصتی کا وقت آیا تو معاشرے کی جکڑتی رسومات، لوگوں کی نگاہیں، اور لالچ کا ناگ اُن کے در پر بھی آ بیٹھا۔ میرؔ، جن کے پاس دنیا کی دولت نہ تھی مگر دل خزینۂ محبت سے بھرا ہوا تھا، اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے اپنا واحد اثاثہ—اپنا گھر—بیچ ڈالا۔ صرف اس لیے کہ بیٹی کو سسرال میں طعنے نہ سننے پڑیں، کوئی یہ نہ کہے کہ وہ خالی ہاتھ آئی ہے۔
بیٹی رخصت ہوئی۔ لیکن وہ خوشیاں جن کے لیے ایک باپ نے اپنا آشیانہ قربان کیا تھا، اُنہیں دوام نہ ملا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد کسی ظالم زبان نے بیٹی کے دل پر وہ زخم دیا جس کا مرہم کسی کے پاس نہیں تھا۔ کسی نے اُس معصوم لڑکی سے کہا: "تیرے باپ نے اپنا گھر اُجاڑ دیا، تاکہ تیرا گھر بس سکے۔”
بس، یہ جملہ تھا یا قیامت؟ بیٹی جیسی حساس روح یہ سن کر ٹوٹ گئی۔ ایک بیٹی کا دل جو اپنے باپ کی قربانی کو کبھی الفاظ میں نہ بیان کر سکی تھی، آج اسی قربانی کا بوجھ نہ سہار سکا۔ صدمے نے اُس کی سانسیں چھین لیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہو گئی۔
جب خبر میرؔ کو پہنچی، تو وہ تڑپتے ہوئے بیٹی کے آخری دیدار کے لیے پہنچے۔ کفن ہٹایا، بیٹی کا چہرہ دیکھا اور پھر جو کہا، وہ صرف ایک باپ کا شعر نہ تھا، بلکہ تاریخ کا ایک زخم بن گیا:
اب آیا ہے خیال اے آرامِ جاں اس نامرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسبابِ شادی میں
یہ شعر، بظاہر چند الفاظ، درحقیقت پوری صدیوں کی بےحسی کا نوحہ ہے۔ یہ صرف میرؔ کی بیٹی کا مرثیہ نہیں، ہر اُس بیٹی کا مرثیہ ہے جسے معاشرہ ’’اسبابِ شادی‘‘ کی فہرست میں گم کر دیتا ہے۔ ہر اُس باپ کی بےبسی کا ترجمان ہے جو بیٹی کی خوشی کی خاطر اپنی چھت، اپنا وقار، اپنا سکون تک قربان کر دیتا ہے، پھر بھی مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ اور ہر اُس نظام پر سوال ہے جو بیٹی کے رشتے کو بازار کا سودا، اور اُس کی محبت کو قیمت کے ترازو پر تولتا ہے۔
آج صدیاں بیت چکی ہیں، مگر منظر نہیں بدلا۔ آج بھی بہت سے گھر ’’بسنے سے پہلے‘‘ انہی مطالبوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اور جو گھر ’’بسنے کے بعد‘‘ آباد دکھائی دیتے ہیں، اُن کی دیواروں کے پیچھے سسکیاں، طعنے، دباؤ اور خاموشی میں ڈھلی ہوئی چیخیں بسی ہوتی ہیں۔
کتنی ہی بیٹیاں آج بھی اسی اذیت سے گزرتی ہیں، نہ وہ میرؔ کی بیٹی ہوتی ہیں، نہ اُن کا دکھ کسی دیوان میں محفوظ ہوتا ہے، بس وہ گم ہو جاتی ہیں۔ کبھی صدمے میں، کبھی خاموشی میں، کبھی معاشرے کی منافقت میں۔
ہمیں سوچنا ہوگا، کیا ہم اُس بیٹی کی قیمت ادا کر سکتے ہیں جس کے باپ نے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا، مگر وہ ایک جملہ، ایک طعنہ اُس کی جان لے گیا؟ جہیز فقط ایک رواج نہیں، یہ وہ زہر ہے جو رشتے کے جام میں گھول کر پیا جا رہا ہے، اور بیٹیاں… خاموشی سے مر رہی ہیں۔
اسلام وہ دین ہے جس نے عورت کو ماں کے رُوپ میں جنّت، بیٹی کے رُوپ میں رحمت، بہن کے روپ میں غیرت، اور بیوی کے رُوپ میں سکونِ قلب قرار دیا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اُسی دین کے ماننے والے، اپنی بیٹی کو رخصت کرتے وقت اُسے بوجھ، ذلت یا قیمت کا نشان بنا دیں؟
نکاح کو قرآن نے "میثاقِ غلیظ” یعنی پختہ عہد قرار دیا ہے، نہ کہ خرید و فروخت کا کوئی معاہدہ۔
رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: "جو شخص کسی عورت سے اس کے مال کے لالچ میں نکاح کرے، اللّٰہ تعالیٰ اسے اسی مال کے ساتھ ذلیل و خوار کر دیتا ہے” (طبرانی، الجامع الصغیر)۔
کیا ہمیں اس تنبیہ کو فراموش کر دینا چاہیے؟ کیا ہم نے دنیاوی چمک دمک کو اس حد تک خدا بنا لیا ہے کہ بیٹی کی عزّت، والد کی غیرت، اور رشتے کی روح کو لالچ کی بھینٹ چڑھا دیں؟ یاد رکھیے، جو بیٹی خالی ہاتھ آتی ہے مگر اُس کا دِل وفا، اخلاق، اور حیاء سے بھرا ہوتا ہے—وہ کسی خزانے سے کم نہیں۔ اور جو شوہر اور سسرال ایسے دل کو قبول کرے، وہی دراصل دین کے سچے پیروکار ہیں۔
یہ وقت ہے رجوع کا، توبہ کا، اور سنّتِ نبویﷺ کو اپنانے کا۔ آئیے، ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ:
ہم اپنی بیٹی کو صرف "عزّت” کے ساتھ رخصت کریں گے، نہ کہ "اسباب” کے ساتھ۔
ہم اپنی بہو کو "سلوک” کی بنیاد پر قبول کریں گے، نہ کہ "سامان” کی بنیاد پر۔
اور ہم نکاح کو "برکت” کا وسیلہ بنائیں گے، نہ کہ "معاملہ بازی” کا ذریعہ۔
اور اگر ہم واقعی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، تو پھر ہمیں وہی راستہ اپنانا ہو گا جو رسول اللّٰہﷺ نے دکھایا، وہی معیار اپنانا ہو گا جو قرآن نے مقرر کیا، اور وہی کردار اختیار کرنا ہو گا جو صحابہؓ و صحابیاتؓ نے عملًا پیش کیا۔
مکافاتِ عمل: میرے سفر کی ایک روشن شہادت
زندگی کے سفر میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جو نہ صرف انسان کے باطن کو جِلا دیتے ہیں، بلکہ اس کے یقین کو نئی طاقت بخشتے ہیں۔ یاد دلاتے ہیں کہ قدرت کسی خلوص کو رائیگاں نہیں جانے دیتی۔ یہ لمحات نہ صرف باطن کو روشن کرتے ہیں بلکہ معاشرے کے جھوٹے پیمانوں کو بھی آئینہ دکھا جاتے ہیں۔
آج میں دل کی گہرائیوں سے ایک ایسا سچ بیان کرنا چاہتا ہوں جو میرے لیے صرف ذاتی مسرت نہیں، بلکہ ربِّ کریم کے عدل، اس کی رحمت، اور اُس کے نظامِ مکافات کی زندہ گواہی ہے۔ میری یہ بات کسی تفاخر یا نمائش کے جذبے سے نہیں، بلکہ شکر کے سجدے میں ڈوب کر لکھی جا رہی ہے۔ یہ میری ذاتی زندگی کا ایک روشن باب ہے، جسے میں اس امید کے ساتھ بیان کر رہا ہوں کہ شاید یہ اُن بے شمار والدین کے لیے امید کی کرن بن جائے، جو معاشرتی رسوم، جھوٹی توقعات، اور دوہرے معیارات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
چھببیس برس قبل—ایک لمحہ، جو میری زندگی کا ایک نکتۂ آغاز تھا۔ میری شادی، سادگی اور سنّت کے قالب میں ڈھلی ہوئی وہ تقریب تھی جو نہ کسی نمود و نمائش کی محتاج تھی، نہ کسی خرافاتی رسم کی قید میں بندھی ہوئی۔ نہ منگنی کی مصنوعی تقریب، نہ جہیز کی کوئی فہرست، نہ کوئی خاموش اشارہ، نہ کوئی درپردہ تقاضا۔ صرف دو دل، دو خاندان، اور ایک ربّ کی رضا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے جانا کہ دینِ اسلام محض ایک عقیدہ نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جو انسان کو جھوٹے تفاخر سے نکال کر حقیقی عزّت کی طرف لے جاتا ہے۔
اور پھر… سالوں بیت گئے، لمحے گزرتے گئے۔ میں نے اپنی زندگی میں وہی اصول اپنائے جو میرے لیے باعثِ سکون بنے۔ میری بیٹی، میری آنکھوں کا نور، میری دعاؤں کا حاصل—جب اس کے نکاح کا وقت آیا، تو قدرت نے ایک اور کرم فرمایا۔ اس کے رفیقِ حیات کے گھرانے سے نہ کوئی تقاضا آیا، نہ کوئی فہرست، نہ کوئی چالاکی سے لپٹی ہوئی رسم۔ الٹا ان لوگوں نے ہمیں تقویٰ، ادب، اور شریعت کے احترام کا سبق دیا۔ ان کا تقاضا صرف ایک تھا—”اسلامی اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جائے”۔
میں اُس لمحے لرز گیا—لیکن خوشی سے۔ دل جیسے سجدے میں گر گیا۔ ربِّ ذوالجلال کی شانِ عدل پر ایمان اور پختہ ہو گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ قدرت نے میرے اعمال کا صلہ مجھے لوٹا دیا ہے، وہ بھی خیر و برکت کے ساتھ۔ آج جب میں اپنی بیٹی کو اُس گھر میں دیکھتا ہوں، تو دل یہی کہتا ہے: "یہی ہے مکافاتِ عمل!!! وہ عدل جو خاموشی سے اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے، اور وہ کرم جو انسان کی نیت کو اس کی تقدیر بنا دیتا ہے”۔
ایسے وقت میں دل کی زبان پر ایک ہی دعا ہوتی ہے: اللّٰہ تعالٰی ہر بیٹی کے نصیب میں ایسے ہی والدین اور ایسے ہی خاندان رکھے، جیسے برادر محترم اسد اللّٰہ خان اور اُن کے اہلِ خانہ۔ جن کے نزدیک بیٹی ایک نعمت ہے، ایک امانت ہے! نہ کہ ایک سودا۔
یہ تحریر، میری زندگی کی سچائی ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، ایک دعوت ہے، ہر اس شخص کے لیے جو چاہتا ہے کہ اُس کی بیٹی سکون پائے، عزّت پائے، اور اُس کے رشتے کی بنیاد دولت پر نہیں بلکہ محبت، تقویٰ، اور خلوص پر رکھی جائے۔
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں رسم و رواج کے خول سے نکل کر دین کی اصل روح کو سمجھنے، اپنانے، اور پھیلانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اور ہماری بیٹیاں اُس دن کے انتظار میں نہ رہیں جب اُن کی عزّت کو کسی فہرست کے ساتھ ناپا جائے، بلکہ وہ دن آئے جب صرف ان کے ایمان، اخلاق اور کردار کو دیکھ کر کہا جائے، "یہی ہے وہ نعمت جسے اللّٰہ نے ہمارے گھر کی زینت بنایا”۔ (آمین یا ربّ العالمین)
نہ دیں جہیز، نہ لیں جہیز، یہ ہو عہدِ نیا
ہر بیٹی ہو باعثِ رحمت، ہر نکاح ہو نور کا صدا
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
masood.media4040@gmail.com