حکومت ہند کا بڑا قدم: مکتوب میڈیا، فری پریس کشمیر، دی کشمیریت اور مسلم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہندوستان میں بلاک

نئی دہلی: ہندوستانی حکومت نے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر سرگرم آزاد صحافتی اداروں کے خلاف سخت قدم اٹھاتے ہوئے چار نیوز پورٹلز — مکتوب میڈیا، فری پریس کشمیر، دی کشمیریت اور مسلم — کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کر دیے ہیں۔ یہ اقدام پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے دوران کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایکس (سابق ٹویٹر) اور انسٹاگرام کے مطابق، ان نیوز اداروں کے اکاؤنٹس ہندوستانی حکومت کی قانونی درخواست پر بلاک کیے گئے ہیں۔
ایکس پر مکتوب میڈیا، فری پریس کشمیر اور دی کشمیریت کے اکاؤنٹس بلاک کر دیے گئے۔
انسٹاگرام پر امریکہ سے چلنے والے مسلم پلیٹ فارم کا اکاؤنٹ ہندوستان میں دستیاب نہیں ہے۔
انسٹاگرام پر مسلم کی پروفائل کھولنے پر پیغام ظاہر ہوتا ہے:
"یہ اکاؤنٹ ہندوستان میں دستیاب نہیں ہے کیونکہ ہم نے اس مواد کو محدود کرنے کی قانونی درخواست کی تعمیل کی ہے۔”
ایکس نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ یہ بلاکنگ ہندوستانی حکومت کی قانونی مانگ پر کی گئی ہے۔ تاہم ان اداروں کی ویب سائٹس اب بھی ہندوستان میں قابل رسائی ہیں۔
متبادل آوازیں خاموش کرنے کی کوشش؟
مکتوب میڈیا، دی کشمیریت اور فری پریس کشمیر ان چند پلیٹ فارمز میں شامل ہیں جو گزشتہ برسوں میں ہندوتوا کے بڑھتے اثرات کے دوران مسلم اور کشمیری نقطہ نظر سے خبریں پیش کرتے آئے ہیں۔
وہیں مسلم ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خود کو ’’امت مسلمہ کے لیے خبریں اور کوریج فراہم کرنے والا آزاد ادارہ‘‘ قرار دیتا ہے، جس کے انسٹاگرام پر ۶۷ لاکھ سے زائد فالوورز ہیں۔
ادارتی ردعمل:
مکتوب میڈیا کے ایڈیٹر اصلح کیالکاتھ نے ایکس پر بیان دیتے ہوئے کہا:
’’یہ صحافتی آزادی پر حملہ ہے۔ ہمیں اس اقدام کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ مکتوب سچائی کے تحفظ کے لیے اپنا کام جاری رکھے گا۔‘‘
دی کشمیریت کی ٹیم نے انسٹاگرام پر لکھا:
’’یہ اقدام برسوں کی محنت اور صحافتی جدوجہد کو مٹانے کے مترادف ہے۔ ہمیں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے خاموش کر دیا گیا، جو تکلیف دہ ہے۔‘‘
مسلم کے بانی، امیر الخطاطبہ نے کہا:
’’یہ اقدام نقصان دہ ہے، خاص طور پر اس وقت جب عالمی میڈیا مسلم برادری کی درست نمائندگی کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔‘‘
ابھی تک میٹا (انسٹاگرام کی مالک کمپنی) نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
صحافتی برادری میں تشویش
اس اقدام کے بعد صحافتی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ متعدد صحافیوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کارکنان نے اسے اظہار رائے اور آزاد صحافت پر قدغن قرار دیا ہے۔