مہاراشٹرا
زبان کی سیاست یا تہذیب کا زوال؟ – راج ٹھاکرے، اردو، ہندی اور مراٹھی کے بیچ کی لڑائی

عقیل خان بیاولی، جلگاؤں۔
دنیا کے تمام ماہرین لسانیات، نفسیات، فلسفی اور دانشور اس حقیقت پر متفق ہیں کہ زبان صرف اظہارِ خیال کا ذریعہ ہی نہیں، بلکہ تہذیبوں کے ملاپ، دلوں کے قریب آنے، اور فکری وراثت کے تبادلے کا پُل ہے۔ جس معاشرے میں جتنی زیادہ لسانی مہارت ہو، وہ اتنا ہی ثقافتی و فکری اعتبار سے مالا مال سمجھا جاتا ہے۔مگر بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں زبان، علم و تہذیب کا استعارہ بننے کے بجائے اکثر و بیشتر سیاست کا ہتھیار بنادی جاتی ہے۔ اردو زبان، جو کبھی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی علامت تھی، آج مختلف موقعوں پر نشانے پر آتی ہے کبھی اسٹیشن کے سائن بورڈ پر، کبھی کسی دفتر کی تختی پر، تو کبھی کسی نئی تعلیمی پالیسی میں اس کی موجودگی یا غیرموجودگی پر۔
اب ایک بار پھر مہاراشٹر میں زبان کو سیاسی ہنگامے کا موضوع بنایا گیا ہے۔ منسے (مہاراشٹرا نو نرمان سینا) کے سربراہ راج ٹھاکرے نے ہندی زبان کو نئی تعلیمی پالسی ٢٠٢٤ کے تحت ریاستی نصاب میں شامل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے۔ ان کےمطابق ہندی زبان کو اسکولی سطح پر تھوپنا مراٹھی تہذیب کے لیے خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اسے آئی اے ایس افسران کی “سازش” قرار دیا ہے۔ ان کا سوال ہے کہ اگر ہندی واقعی قومی زبان ہے تو پھر ریاست گجرات اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں اسے کیوں لازمی نہیں بنایا جا رہا؟ یہ سوالات اپنی جگہ، مگر ان کے پیچھے جو رویہ جھلکتا ہے، وہ زبان کے فطری ارتقاء کے بجائے اس کے سیاسی استعمال کا مظہر ہے۔ زبان جب تک ذریعہ تعلیم، تفہیم اور روزگار کی آسانی کا وسیلہ ہے، وہ زندہ و تابندہ رہتی ہے۔
لیکن جب زبان کو شناخت کی سیاست کا ہتھیار بنایا جاتا ہے، تو اس کی فطری خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے۔ہندوستانی تہذیب میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں مختلف زبانوں کا ملاپ تہذیبی خوشبو بکھیرتا رہا۔ فراق گورکھپوری، سر سید احمد خان، مہاتما گاندھی، شنکر دیال شرما، اٹل بہاری واجپائی سنت کبیر داس ،رس خان ،پریم چند جیسے نامور شخصیات نے اردو، ہندی، سنسکرت، فارسی اور دیگر زبانوں میں علم و ادب کے جواہر چھوڑے ہیں۔یہی نہیں، عالمی سطح پر آج وہی قومیں ترقی کی دوڑ میں آگے ہیں جنہوں نے کثیر لسانیت (Multilingualism) کو اپنایا ہے۔ زبانوں
کے تنوع کو کمزوری نہیں بلکہ طاقت سمجھا ہے۔
لہٰذا سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مہاراشٹر میں ہندی ہو یا نہ ہو، اردو کا بورڈ لگے یا نہ لگے سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو وہ زبانیں کیوں نہ سکھائیں جو انہیں دنیا سے جوڑ سکیں، روزگار دلا سکیں، اور تہذیبی ہم آہنگی پیدا کرسکیں؟۔۔۔اگر واقعی ہم تہذیب کے علمبردار ہیں،تو ہمیں ہر زبان کا احترام کرنا ہوگا ،چاہے وہ اردو ہو، ہندی ہو، مراٹھی، یا کوئی اور۔ کیونکہ زبانیں جدا ہوسکتی ہیں، مگر انسانیت کا پیغام ایک ہوتا ہے۔