مضامین

ضمیر کی صف سے معرکۂ شمشیر تک: عصرِ آزمائش میں مؤمن کی پہچان

 🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلّٰهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ۔
اے ایمان والو! اللّٰہ کے لیے عدل کے قائم کرنے والے اور گواہ بن جاؤ۔  (المائدہ: 8)

جب زمین پر ظلم کا کوڑا لہو میں ڈوب جائے اور بارود کی بُو مشرق و مغرب کے سانسوں میں گھلنے لگے، تب مؤمن کی پہچان صرف تلوار یا معرکہ نہیں ہوتی، اُس کی سب سے پہلی شناخت ضمیرِ بیدار اور عدل کے لیے بے لاگ گواہی ہے۔ اسلام نے جنگ کو کبھی وحشیانہ خواہش یا نسلی غرور کی تسکین کا وسیلہ نہیں بنایا، اسے دفاعِ حق، رفعِ ظلم اور حفاظتِ امانتِ الٰہی کا ایک طاقتی انتخاب قرار دیا۔ رسولِ اکرمﷺ نے میدانِ بدر سے صلحِ حدیبیہ تک ہمیں سکھایا کہ خونریزی سے زیادہ قیمتی انسانی جان اور امن کی بحالی ہے، مگر جب حق کا گلا گھونٹا جائے تو “کُنْ فِي الْحَقِّ شَدِيدًا” (حق میں سخت) ہونا بھی ایمان کا مطالبہ ہے۔

آج ہمارے سامنے جو آتشیں منظرنامہ ہے، وہ صرف جغرافیائی تنازع نہیں؛ یہ اس سوال کا جواب مانگتا ہے کہ انسانی عظمت اور خلیفۂ ارض ہونا ہمارے طرزِ فکر میں کہاں کھڑا ہے؟ اگر طاقتور اپنی قوت کی دہاڑ میں اندھا، اور کمزور اپنی بے بسی میں گم صدا ہو جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو زمانۂ جاہلیت میں ہوا کرتا تھا۔ مگر قرآن نے ہمیں خبردار کیا: “وَلاَ تَعْتَدُوا”، “حد سے مت بڑھو” اور بیک وقت حکم دیا: “فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ”، “جو تم پر زیادتی کرے، اُس پر وہی زیادتی کرو” (البقرۃ : 190-194)۔ یہی توازن ہمیں خون کی بو میں بھی انصاف کی مہک یاد دلاتا ہے۔

نفسِ انسانی کی حرمت!!! ہر شہید ہونے والا بچّہ، ہر تباہ ہوتا اسپتال، اور ہر بے گھر ماں ہمیں سورۃ المائدہ کی وہ صدا سناتا ہے: “مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ… فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا”، “جس نے ایک جان کو ناحق قتل کیا، گویا اُس نے ساری انسانیت کو قتل کر دیا”۔

اجتماعی ذمّہ داری!!! مسلم اُمت کی شیرازہ بندی محض جذباتی نعرہ نہیں، فریضۂ نصرتِ مظلوم ہے۔ جب فلسطین، شام، عراق یا ایران کا نام آئے تو ہماری سوچ قبائلی حدود نہیں، اُخوتِ ایمانی کے نقشے پہ تصحیح چاہتی ہے۔

دعوتِ امن مع حفظِ وقار!!! اسلام کی غایت یہ ہے کہ تلوار بھی امن تک ہی سفر کرے۔ سیرتِ نبویﷺ ہمیں سمجھاتی ہے کہ صلح حدیبیہ کی میز پر بیٹھنے کا ظرف اور بدر کی صفوں میں ڈٹ جانے کا حوصلہ دونوں ساتھ ساتھ مطلوب ہیں۔

ان ایمانی مقدمات کے پس منظر میں، ذیل کا مضمون صرف سیاسی تجزیہ نہیں، بلکہ ضمیرِ مسلم کی دستک ہے، وہ دستک جو یاد دلاتی ہے کہ اگر انسانیت کے لہو سے ہاتھ رنگے بغیر بھی صلح ہو سکتی ہو تو یہی راہِ مصطفیٰﷺ ہے، لیکن اگر ظلم سر چڑھ کر بولے اور معصوموں کا خون سجدہ گاہوں تک آ پہنچے تو پھر “وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ” کی صدا اِس توازن کے ساتھ گونجتی ہے کہ حدودِ الٰہی سے تجاوز نہ ہو۔ اب آئیے! اُسی لرزہ خیز عالمی منظر کو دیکھیے جو ہماری دہلیز پر آ کھڑا ہوا ہے، جہاں فضاؤں میں بارود کی دھڑکن اور میدانِ ارض پر لرزتی خاموشی ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک رہی ہیں…

فضاؤں میں بارود کی دھڑکن اور میدانِ ارض پر لرزتی خاموشی، دونوں نے ایک ایسے ہولناک سنگم پر ہاتھ ملا لیا ہے جہاں تاریخ اور تقدیر ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک رہی ہیں۔ اسرائیل کی مخدوش گلیوں میں ابھی خون کی نمی سوکھی بھی نہ تھی کہ امریکی عسکری قوت نے اپنے فولادی پر پھیلا دیے۔ برباد ہوتی بستیوں کی آہ و بکا ابھی فضاؤں میں معلق تھی کہ پینٹاگون کے نقشوں پر نقطۂ آغاز چمک اٹھا۔ تین ایرانی نیوکلیائی مراکز پر گرائی گئی آگ محض بمبارڈمنٹ نہیں، یہ صدیوں کی سیاسی رنجشوں کی وہ چنگاری ہے جس نے عالمی سفارت کو بھسم کرنے کی ٹھان لی ہے۔

تہران کے باسیوں نے جب آسمان پر انگاروں کے گجرے دیکھے تو ان کے دلوں میں تپتے ہوئے جملے انگڑائی لینے لگے، “ہماری سر زمین نے دارا و سکندر کی یلغاریں سہیں، اب کوئی سامراجی دستک ہمیں مرعوب نہیں کر سکتی!” ایرانی قیادت نے گرجدار لہجے میں اعلان کیا کہ جواب فقط عسکری نہیں ہوگا، یہ تہذیب، تاریخ، اور غیرتِ قومی کا مرقع ہوگا، ایسا مرقع جو صفحۂ عالم پر دہکتے الفاظ میں رقم ہوگا، اور ممکن ہے دجلہ و فرات تک اس کی حدت محسوس کی جائے۔

ادھر واشنگٹن کے آئینی گنبد لرزاں ہیں۔ زیرِ زمین کمرۂ جنگ میں بڑے بڑے اسکرینوں پر سرخ لکیریں انگڑائی لے رہی ہیں، صدر کے مشیران ہنگامی دور بیٹھکوں میں مشغول ہیں۔ کانگریس کے راہداریوں میں دراڑ سا سناٹا پھیل گیا ہے، ہنگامی قوانین کی موٹی فائلیں لرزتے ہاتھوں میں تھمائی جا رہی ہیں۔ کوڈ ریڈ کی بازگشت سفید گھر کی دیواروں سے ٹکرا کر پورے ملک میں خوف کا ارتعاش بکھیر رہی ہے، پٹرول پمپوں پر قطاریں طویل ہو چکیں، تعلیمی ادارے نیم بند، اور بچّوں کی دعائیہ سرگوشیاں کچنوں میں سنائی دیتی ہیں۔

اسی اثنا میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ماضی کی پیشگوئی خواب و خیال سے نکل کر ہیڈ لائنز کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے۔ مبصرین بار بار وہ کلپ چلا رہے ہیں جس میں وہ کسی بڑی، “ناقابلِ تصور” جھڑپ کا عندیہ دیتے تھے۔ بازارِ حصص پر لرزہ طاری ہے، سونے کا بھاؤ آسمان سے باتیں کر رہا ہے، اور نیویارک کے براعظمی ہوائی اڈوں پر اضافی لڑاکا دستے مؤقف سنبھال چکے۔

لیکن کھیل ابھی ادھورا ہے۔ ماسکو کے برفانی حاشیوں میں کریملن کے میناروں پر خفیہ سرخ روشنی لرز رہی ہے۔ روسی عسکری دانشور نقشۂ وسطی ایشیا پر قطب نما گھما رہے ہیں، اور بیجنگ کے عظیم ہال میں برّی و بحری قیادت کے درمیان سرگوشیوں کی مہک بڑھ گئی ہے۔ اگر روس اور چین نے اپنی چودھری طاقت کی بساط بچھا دی تو سفارتی شطرنج کی ہر چال ایٹمی سایوں کی اوٹ میں کھیلی جائے گی۔ تب سوال فقط یہ نہ ہوگا کہ پہلی گولی کس نے چلائی، بلکہ یہ کہ آخری سانس کون سی سر زمیں پر ٹوٹے گی۔

یہ وہ لمحہ ہے جہاں انسانی تاریخ ایک نئے باب کے دہانے پر کھڑی ہے۔ حالات کی دھند میں سے جھانکتی تیسری عالمی جنگ کی شبیہ اب واضح ہوتی جا رہی ہے۔ یہ لمحہ محض عسکری تصادم نہیں!!! یہ تہذیبوں کے اعصاب کا امتحان ہے، یہ عالمی ضمیر کے مردہ خانے پر دستک ہے، اور شاید یہ وہ ساعت ہے جب فاختہ نے آخری بار پر پھڑپھڑایا اور پھر افق کے سیاہ گودام میں گم ہوگئی۔ کیا آنے والی صبح سورج کے بجائے ایک سفید آنولہ لے کر طلوع ہوگی؟ کیا انسانیت اپنی حماقت کی دھت چادر میں لپٹی رہ جائے گی؟؟ یا کسی معجز نما مزاکراتی کرن سے یہ دخانی افق صاف ہو گا؟؟؟ جواب ابھی دھند میں چھپا ہے، مگر بارود کی یہ خوشبو بتاتی ہے کہ دنیا کی سانس واقعی تھم چکی ہے اور وقت کی نبض بے ترتیب سہی، مگر اس کا آخری دھڑکا اب شاید زیادہ دور نہیں۔

“وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ”، “کمزور نہ پڑو، غمگین نہ ہو، اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب رہو گے”۔ (آلِ عمران: 139)۔ وقت کی یہ تیز و تند آندھی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم کی رات کتنی ہی دراز ہو، ربِّ عادل کے ہاں سزا کی صبح ضرور طلوع ہوتی ہے۔ مسلمانوں کا ضمیر جہادِ اکبر یعنی نفس کے ساتھ جدوجہد اور جہادِ اصغر یعنی ظلم کے آگے سینہ سپر ہونا دونوں کے توازن سے عبارت ہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تلوار کی دھار عدل کے ترازو میں تلی جائے، اور صلح کی دستار عزّت و وقار کے عَلم سے باندھی جائے۔

حُسنِ ظن باللّٰہ!!! مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب صفِ مؤمنین میں یقینِ محکم پیدا ہو جاتا ہے تو بدر کی مٹھی بھر جماعت بھی ابوجہل کے لشکر کو پسپا کر دیتی ہے۔ آج بھی دلوں میں وہی کلمۂ توحید کا چراغ روشن ہو تو لَاتَخَفْ، خوف ہم پر غالب نہیں آ سکتا۔

اعتصام باللّٰہ و بالوحدة!!! “وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا” (آلِ عمران: 103) ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بکھرا ہوا گھر دشمن کے ایک پتھر سے ڈھ جاتا ہے، مگر متحد قلعہ لاکھ گولہ باری سہہ لیتا ہے۔ اُمّت کی شیرازہ بندی، فرقوں اور قومیتوں سے بالاتر، عصرِ حاضر کی سب سے بڑی سنّت ہے۔

دُعائے مظلوم اور نصرتِ الٰہی!!! ظالم کی تلوار سے زیادہ خطرناک مظلوم کی آہ ہوا کرتی ہے کیونکہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا: “اتَّقِ دَعْوَةَ المظلوم، فإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللّٰهِ حِجَابٌ”، “مظلوم کی دعا سے ڈرو، اس کے اور اللّٰہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں”۔ پس جو ہاتھ بندوق نہیں اٹھا سکتے، وہ آنکھیں اشکِ دعا سے خالی نہ رہیں، اور جو زبانیں گولہ نہیں اگل سکتیں، وہ حق کی گواہی سے گونگی نہ ہوں۔

تخریب کے درمیان تعمیر کا عہد!!! اسلام صرف مزاحمت نہیں، تعمیر بھی ہے؛ مسجدِ نبویﷺ کی خشت میں خونِ محنت تھا، نہ کہ خونِ نفرت۔ لہٰذا جنگ کے دہانوں پر بھی علم، معیشت، تحقیق اور حکمت کے قلعے تعمیر کرنا مؤمن کی حکمتِ عملی ہے۔ “فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ” ایک محاذ سے فارغ ہو تو بھرپور تیاری کے ساتھ اگلے محاذ پر جم جانا۔

اَللّٰهُمَّ يا حَفِيظُ يا نَصِير، ہمیں عدل کے سچّے عَلَم بردار بنا، ظالم کے مقابلے میں ثابت قدم رکھ، مظلوم کی آہ و سسکی ہمارا دل چیر دے، اور ہر قطرۂ خون کو ہمارے لیے صدائے بیداری بنا، اُمّت کو حبلُ اللّٰہ پر مجتمع فرما، حکمتِ لقمان اور شجاعتِ صحابۂ کرامؓ عطا کر، اور اس تپتی دنیا کو سُورۂ انشراح کی نوید دے!!! فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا” بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ اللّٰهُمَّ اجْعَلْ بِلادَ المسلمينَ آمنةً مُطمئنّةً، وَارْفَعِ الظُّلمَ عَنْ كُلِّ مَظْلومٍ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلِإِخوانِنَا الّذِينَ سَبَقُونَا بالإيمان. آمین یا ربَّ العالمین.

یوں ہم اپنے قلم کو روک کر دلوں کو بیدارِ دعا میں چھوڑتے ہیں کہ شاید اسی گریۂ نیم شب سے بارود کی یہ بو چھٹ جائے اور فجر ایک نئی رحمت کے ساتھ طلوع ہو۔

ہم وہ چراغ ہیں جو اندھیوں میں جلتے ہیں
ہمیں بُجھانا ہے تو ہوا سے لڑنا ہوگا!

کہہ دو زمانے سے یہ مؤمن کی پہچان ہے
تلوار سے پہلے، دلیل اور ایمان ہے!

                    (23.06.2025)
•┅┄┈•※‌✤م✿خ✤‌※┅┄┈•
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!