ظلم کے اندھیرے میں چراغِ بیداری؛ وقت کی پکار ہے!

از قلم: محمد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
8495087865, mdfurqan7865@gmail.com
ہمارا ملک اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے، وہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر انصاف پسند شہری کے لیے فکرمندی کا باعث ہیں۔ جہاں جمہوریت، سیکولرازم، اور قانون کی بالادستی کے دعوے کیے جاتے ہیں، وہیں حقیقت یہ ہے کہ ان اقدار کو آئے دن پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔ ایک ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے جہاں سچ بولنے، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے، اور مذہبی شناخت کے ساتھ جینے تک کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت، تعصب، اور امتیازی سلوک اب انفرادی معاملات نہیں رہے بلکہ ایک منظم ریاستی رویہ بنتا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا جو کبھی اظہار رائے، علم کی ترسیل اور انصاف کی آواز کے لیے استعمال ہوتا تھا، آج مسلمانوں کے لیے جال، ہتھکڑی اور قید کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ صرف ایک پوسٹ، ایک ویڈیو، یا کسی واقعے پر سچ بولنے کی پاداش میں درجنوں مسلم نوجوان جیلوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ اُن پر ملک دشمنی، مذہبی جذبات بھڑکانے یا ”نفرت انگیز“مواد کا الزام لگا کر ان کی زندگیوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، جبکہ وہی زبانیں جو دن رات مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتی ہیں، آزاد گھومتی ہیں اور سرکاری تحفظ پاتی ہیں۔ یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ انصاف کا ترازو اب یکطرفہ ہو چکا ہے۔
وقف املاک صدیوں سے مسلمانوں کی دینی، تعلیمی اور فلاحی ضروریات پوری کرتی رہی ہیں۔ یہ ادارے نہ صرف عبادت و روحانیت کا مرکز رہے بلکہ مسلمانوں کی خود انحصاری اور اجتماعی طاقت کی علامت بھی تھے۔ لیکن موجودہ حکومت کی جانب سے لایا گیا وقف ترمیمی قانون ان املاک کو حکومتی گرفت میں لے کر ان کے اصل مصرف کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ قانون محض قانونی ترمیم نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت مسلمانوں کی خودمختار شناخت، ان کے ادارے، اور ان کا ماضی سب مٹا دیے جائیں۔ وقف بورڈز کو حکومت کے ماتحت کرنا، ان جائیدادوں کی خرید و فروخت کا اختیار حکومتی افسروں کو دینا، اور ان پر مسلمانوں کا عملی اختیار ختم کرنا، ایک طرح کا جدید ”قانونی قبضہ“ ہے۔
مدارس جنہوں نے اس ملک کو ہزاروں علماء، مصلحین، مجاہدین آزادی اور محب وطن افراد دیے، آج ان پر بھی تنگ نظری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ انہیں بدنام کیا جا رہا ہے، ان کے نصاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور بعض ریاستوں میں تو انہیں بند کرنے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ مدارس نے ہمیشہ مسلمانوں کی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آزادی کی جدوجہد میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، آزادی کی تحریک میں مدارس نے جو قربانیاں دیں، وہ ہماری تاریخ کا سنہری باب ہیں۔ ان مدارس نے ہمیشہ اپنے طلباء کو نہ صرف دینی علوم سے آراستہ کیا، بلکہ ان میں وطن کی محبت، قربانی کی روح اور ملت کی خدمت کا جذبہ بھی اجاگر کیا۔ مدارس کی موجودگی ملک کی ثقافتی و دینی ورثہ کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے اصل محافظ ہیں۔ آج جن مدارس پر حملے ہو رہے ہیں، وہ دراصل ملک کی جڑوں اور ملت اسلامیہ کی دینی کی بنیادوں پر حملہ ہیں۔ یہ کوششیں مسلمانوں کو اپنی جڑوں سے کاٹنے اور ان کی تاریخ و ثقافت کو مٹانے کی ناپاک سازش ہیں۔ ان اداروں کو بدنام کرنے اور ان کے نصاب کو نشانہ بنانے کے پیچھے ایک سوچ ہے جو ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور ثقافتی تنوع کو ختم کرنا چاہتی ہے، جن کا مقابلہ حکمت، دانشمندی اور مکمل تیاری سے کیا جانا ضروری ہے۔
دوسری طرف شان رسالتﷺ میں گستاخ کے روح فرسا واقعات میں بھی دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی شانِ اقدس میں توہین امتِ مسلمہ کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان گستاخوں کو نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں انہیں ”اظہارِ رائے کی آزادی“ کے نام پر بہادری کا تمغہ دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ امت کا ہر فرد رسولِ خدا ﷺ سے اپنی جان، مال، عزت سے زیادہ محبت رکھتا ہے، اور اس محبت کی توہین برداشت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اس حساسیت کو نہ سمجھا جاتا ہے، نہ تسلیم کیا جاتا ہے، بلکہ جو مسلمان ان واقعات پر ردِعمل ظاہر کرے، اسی کو شدت پسند اور خطرناک قرار دے کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک منظم نفرت انگیزی کا ماحول تیار کیا جا چکا ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا طبقہ دن رات مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، انہیں شدت پسند، دہشت گرد، یا سماج کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ نفرت صرف زبانی نہیں رہی بلکہ عملی صورت میں مآب لنچنگ، سوشل بائیکاٹ، کاروباری نقصان، اور تعلیمی مواقع سے محرومی کی شکل میں سامنے آ چکی ہے۔ اس فضا میں مسلمانوں کا زندہ رہنا، اپنی شناخت کو بچائے رکھنا، اور اپنی نئی نسل کی فکری و تعلیمی تربیت کرنا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
ایسے کٹھن حالات میں مسلمانوں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سب سے پہلے، انہیں تعلیمی بیداری کو اپنی ترجیح بنانا ہوگا۔ دینی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کو اپنے اپر لازمی کرنا ہوگا، عصری علوم بالخصوص جدید ترین ٹیکنالوجی میں بھی مہارت حاصل کر کے نوجوانوں کو باوقار اور مضبوط شہری بنانا ہوگا۔ انہیں نہ صرف اپنے حق کے لیے کھڑا ہونا سکھانا ہوگا، بلکہ دوسروں کے لیے بھی عدل اور مساوات کی آواز بلند کرنے والا بنانا ہوگا۔ قوم کو آپس کے اختلافات، فرقہ واریت اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر ایک مضبوط ملت کی صورت میں منظم ہونا ہوگا۔ اتحاد، شعور، اور مسلسل محنت ہی وہ زادِ راہ ہے جس سے ہم اس اندھیرے دور میں روشنی پیدا کر سکتے ہیں۔
ہمیں قانونی میدان میں اپنی موجودگی مضبوط کرنی ہوگی، باوقار انداز میں اپنے اداروں، اپنی تہذیب اور اپنے وقار کی حفاظت کرنی ہوگی۔ ہمیں سوشل میڈیا پر حکمت اور فہم کے ساتھ سرگرم رہنا ہوگا، جذباتیت سے نہیں بلکہ علم و دلیل سے کام لینا ہوگا۔ ہر مسلمان کو اپنی بات کہنے کا حق ہے، لیکن اس کے ساتھ اس بات کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کا مقدمہ وقار، دانائی اور سچائی کے ساتھ پیش کرے۔
یہ وقت بے حسی، خاموشی یا مایوسی کا نہیں، بلکہ بیداری، بیداری اور صرف بیداری کا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی خود کو منظم نہ کیا، اپنے نوجوانوں کو تیار نہ کیا، اپنے اداروں کو نہ بچایا، اور اپنے دین و تشخص کی حفاظت کے لیے کھڑے نہ ہوئے، تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ یہ وقت تاریخ کا وہ موڑ ہے جہاں ایک طرف ظلم، ناانصافی اور نفرت کا سیلاب ہے، اور دوسری طرف ایمان، صبر، حکمت، اور عزم کا چراغ ہے، اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس چراغ کو تھام کر اندھیرے میں راستہ بناتے ہیں یا حالات کے آگے بے بس ہو کر خود کو بھلا دیتے ہیں۔
ظلم کے اندھیرے میں چراغِ بیداری؛ وقت کی پکار ہے!
(مضمون نگارمرکز تحفظ اسلام ہند کے بانی وڈائریکٹر ہیں)