قومی

مدارس پر حکومتی یلغار اور جمعیۃ علماء ہند کی آئینی جنگ!

از قلم : محمد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
8495087865, mdfurqan7865@gmail.com

آزادیٔ ہند کی تاریخ جب بھی دیانتداری اور غیرجانبداری کے ساتھ دیکھی جائے گی، تو اس کے اوراق میں ایک تابناک اور ناقابلِ فراموش عنوان ’’مدارسِ اسلامیہ‘‘ کی صورت میں ضرور نمایاں ہوگا۔ وہی مدارس، جو محض عبادت و تعلیم کے مراکز نہ تھے بلکہ ایک بھرپور انقلابی تحریک کے مراکز تھے، جہاں سے انگریز سامراج کے خلاف سب سے پہلی، دلیرانہ اور منظم مزاحمت کی بنیاد پڑی۔ یہ وہی علمی و روحانی قلعے تھے جہاں مجاہدین آزادی کی فکری تربیت ہوئی، جہاں علم و شعور کے چراغ جلائے گئے، آزادی کی چنگاریاں سلگائی گئی، اور جہاں کے علماء نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر ملت کو بیداری اور خودی کا پیغام دیا۔ ان مدارس نے نہ صرف دین کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا بلکہ قوم کی تہذیبی و فکری شناخت کو بھی دوام بخشا اور آزادی کی تحریک کا آغاز کیا۔ آج وہی مدارس، جو ملت کی دینی، تہذیبی اور تعلیمی شناخت کے مضبوط قلعے رہے ہیں، ایک بار پھر سازشوں کے نرغے میں ہیں، انہی مدارس پر نئے دور کی یلغار برپا ہے، اس مرتبہ دشمن کا یہ حملہ بندوق یا توپ سے نہیں بلکہ سرکاری پالیسیوں، عدالتی تشریحات، انتظامی تعصبات، فرقہ وارانہ ذہنیت اور میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈے سے لیس ہے، جو انہیں کمزور کرنے، بدنام کرنے اور غیر مؤثر بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔

ایسے پرآشوب وقت میں ان حملوں کے مقابلے میں، جمعیۃ علماء ہند اور ملت اسلامیہ ہندیہ کے عظیم المرتبت قائد حضرت مولانا سید ارشد مدنی، نہایت بالغ نظری، بصیرت اور جرأت کے ساتھ ان سازشوں کا مقابلہ کر رہے ہیں اور مدارس کے تحفظ و بقا کی سب سے توانا اور مؤثر آواز بن کر ابھرے ہیں۔ ان کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے ہے جو خود دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم ادارے کا امین ہے۔ مولانا نے اپنی تمام تر صلاحیتیں، بصیرت، فہم و فراست اور قیادت کی طاقت کو مدارس کے تحفظ کے لیے وقف کیا۔ انہوں نے نہ صرف قانونی سطح پر ان اداروں کے دفاع کی حکمت عملی تیار کی بلکہ عوامی ذہن سازی اور سیاسی بیداری کے میدان میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کا قیام جن مقاصد کے لیے عمل میں آیا تھا، ان میں ایک بڑا مقصد مدارس اسلامیہ کی حفاظت اور ترویج بھی شامل تھا۔ اس عظیم ملی، دینی اور انقلابی تنظیم نے نہ صرف مدارس کو سرکاری مداخلت سے محفوظ رکھنے کی کوششیں کیں بلکہ ہر اُس سازش کا پردہ چاک کیا جو کسی نہ کسی بہانے سے مدارس کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی۔ آزادی سے قبل بھی اور آزادی کے بعد بھی جمعیۃ نے مدارس کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا فکری، قانونی، عوامی اور سیاسی کردار بخوبی ادا کیا۔ وقت کے ساتھ جب مدارس پر الزامات کا ایک طوفان اٹھا، کبھی دہشت گردی کے الزامات، کبھی غیر معیاری تعلیم کی دہائی، کبھی قومی دھارے سے نہ جڑنے کا پروپیگنڈا، تو جمعیۃ علماء ہند اور اس کے موجودہ صدر مولانا سید ارشد مدنی ان الزامات کا مدلل جواب دینے اور مدارس کی اصل حقیقت کو ملک کے سامنے پیش کرنے کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ ان کی قیادت، ان کا اخلاص، اور ان کی بیلوث جدوجہد آج اس بات کی دلیل ہے کہ جب بھی ملت پر کڑا وقت آیا، مدارس اور ان کے محافظین صفِ اول میں کھڑے دکھائی دیے۔

ملک میں اس وقت مسلمانوں پر جو ہمہ جہت سیاسی، سماجی، تعلیمی اور معاشی یلغار جاری ہے، اس کا ایک نہایت خطرناک اور منظم پہلو مذہبی تعلیم کے مضبوط قلعوں، یعنی مدارس اسلامیہ، کے خلاف جاری مہم کی صورت میں نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ حکومت کی پالیسیوں اور انتظامی اقدامات کے ذریعے ان اداروں کو کمزور کرنے، بدنام کرنے اور ان کے وجود کو مشکوک بنانے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے، بالخصوص اُن ریاستوں میں جہاں بی جے پی برسرِ اقتدار ہے، جیسے اترپردیش، اتراکھنڈ اور آسام، وہاں مدارس کو یکے بعد دیگرے نشانہ بناکر سینکڑوں مدارس یا تو بند کیے جا چکے ہیں یا انہیں نوٹس دے کر قانونی پیچیدگیوں میں الجھایا جا رہا ہے۔ بظاہر یہ کارروائیاں حقِ تعلیم ایکٹ یا زمین کی نوعیت جیسے مسائل کی بنیاد پر کی جا رہی ہیں لیکن ان اقدامات کے پیچھے کارفرما ذہنیت خالصتاً تعصب، خوف اور اقلیت دشمنی پر مبنی ہے، جو ملک کی اقلیتی برادری، خاص طور پر مسلمانوں کو ان کے دینی، تعلیمی اور تہذیبی مراکز سے محروم کر دینے کی دانستہ و منصوبہ بند کوشش کا نہ صرف حصہ ہے، بلکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ خوفناک ہے۔

مدارس، جو صدیوں سے نہ صرف دینی علوم کا سرچشمہ رہے ہیں بلکہ سماجی انصاف، روحانی تربیت اور قومی یکجہتی کے ضامن بھی رہے ہیں، آج اُنہیں شدت پسند پروپیگنڈے، میڈیا ٹرائل، اور سرکاری جبر کے ذریعے ایک مشتبہ ادارے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ نئی نسل کو ان اداروں سے بدظن کیا جا سکے اور دینی علوم کی روایت کو رفتہ رفتہ ختم کیا جا سکے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب ملک کو مذہبی ہم آہنگی، تعلیم کے تنوع، اور آئینی مساوات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، مگر افسوس کہ مدارس کو نشانہ بنا کر نہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے بلکہ ایک پوری قوم کے فکری، روحانی اور تمدنی تشخص پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ اس ناپاک مہم کے پیچھے وہی ذہن کارفرما ہے جو چاہتا ہے کہ مسلمان تعلیمی، فکری اور ثقافتی سطح پر کمزور پڑ جائیں، تاکہ وہ اپنے دینی شعور اور ملی وحدت سے محروم ہو کر آسان ہدف بن جائیں۔ یہ صورتحال نہ صرف قابلِ تشویش ہے بلکہ تمام انصاف پسند، سیکولر اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے شہریوں کے لیے لمح? فکریہ ہے، کیونکہ مدارس پر حملہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ملک کے آئینی اقدار، اقلیتی حقوق اور تعلیمی آزادی پر ایک کھلا وار ہے، جسے ہر باضمیر فرد کو سمجھنے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔

جمعیۃ علماء ہند نے اس خطرناک رجحان کو نہ صرف بروقت پہچانا بلکہ اس کے خلاف قانونی، سیاسی اور سماجی ہر محاذ پر مسلسل لڑائی بھی لڑی۔ سپریم کورٹ میں مدارس کے تحفظ کے لیے داخل کی گئی پٹیشن ہو یا مختلف ریاستوں کی کارروائی کے خلاف قانونی چارہ جوئی، جمعیۃ نے کسی بھی محاذ پر پسپائی اختیار نہیں کی۔ مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں جمعیۃ نے یہ ثابت کیا کہ جب ملت کے مفادات خطرے میں ہوں، تو قیادت کا اصل تقاضا صرف تقریر یا احتجاج نہیں بلکہ عملی جدوجہد، حکمت، اور صبر و استقامت کے ساتھ میدان عمل میں رہنا ہے۔ اترپردیش میں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد جس نے مدرسہ بورڈ کی قانونی حیثیت کو ہی چیلنج کر دیا تھا، ملت میں ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ ریاست کے منظور شدہ مدارس بھی اس زد میں آ گئے۔ اس وقت بھی مولانا ارشد مدنی نے نہایت فہم و فراست کے ساتھ سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اور 6؍ نومبر 2024 کو عدالتِ عظمیٰ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے مدارس کی آئینی حیثیت کو تسلیم کیا اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کر دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مدرسہ قانون آئینی ہے اور اس پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جا سکتا۔ اس فیصلے نے جمعیۃ کی قانونی جدوجہد کو ایک اہم کامیابی عطا کی، اور مدارس کی بقاء کو وقتی طور پر محفوظ کیا۔

تاہم، حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالتوں کے واضح فیصلوں اور آئینی دفعات کے باوجود ریاستی حکومتیں اپنی ضد پر قائم ہیں اور مسلمانوں کو تعلیمی طور پر پسپا کرنے کی سازش رچ رہی ہیں۔کیونکہ اس فیصلے کے بعد جو نیا سلسلہ شروع ہوا، اس میں مدرسوں اور مزارات کو زمین کی نوعیت کے بہانے نشانہ بنایا گیا۔ جنگلاتی زمین، سرکاری زمین، اور مبینہ طور پر غیر منظور شدہ تعمیرات کو بنیاد بنا کر مدارس، مساجد اور درگاہوں کو مسمار کیا جانے لگا۔ رپورٹ کے مطابق صرف یوپی اور اتراکھنڈ میں اب تک سینکڑوں مدارس کو نوٹس جاری کیا گیا ہے اور کئی مدارس بند کیے جا چکے ہیں۔ جن میں سے اتراکھنڈ میں ہی 17؍ مزارات شہید کر دیے گئے، اور 170؍ مدارس کے خلاف کارروائی کی گئی، اور اتر پردیش کے سرحدی علاقوں میں سینکڑوں مدرسوں کو ’غیر قانونی‘ قرار دے کر تالے ڈالے گئے۔ یہی نہیں، یہ سب کچھ اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ اقلیتی اداروں کو حق تعلیم ایکٹ 2009 سے استثنا حاصل ہے۔ لیکن بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں جس طرح مدارس کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں، وہ محض انتظامی فیصلے نہیں بلکہ ایک منظم سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد مسلم بچوں کو دینی تعلیم سے محروم کرنا اور قوم کو اپنے تعلیمی و روحانی مراکز سے کاٹ دینا ہے۔ اس بار بھی جمعیۃ علماء ہند میدان میں آئی اور سپریم کورٹ میں نہ صرف قانونی پٹیشن دائر کی بلکہ ایک منظم حکمت عملی کے تحت آرکیٹیکٹ پینل تشکیل دیا، تاکہ مدارس کی تعمیری منظوری جیسے تکنیکی امور کو آسانی سے حل کیا جا سکے۔

مولانا ارشد مدنی نے بارہا اس حقیقت کو دوہرایا کہ مدارس محض تعلیم گاہیں نہیں بلکہ قوم کی تہذیبی اور دینی پہچان کا استعارہ ہیں، جو ہمارا بنیادی آئینی حق ہے۔ انہوں نے متعدد مواقع پر واضح الفاظ میں کہا کہ ”مدارس ہماری شہ رگ ہیں، ہم اپنی شناخت کو مٹنے نہیں دیں گے۔” ان کا یہ جملہ صرف نعرہ نہیں بلکہ ایک عزم ہے جو ہر مسلمان کے دل کی آواز بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مولانا مدنی نے اعظم گڑھ کے سرائے میر میں منعقد حالیہ تحفظ مدارس کانفرنس میں مدارس کے کردار پر روشنی ڈالی اور یاد دلایا کہ یہی مدارس 1857 کی جنگ آزادی کے حقیقی مورچے تھے جہاں سے انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آواز بلند ہوئی، تو دشمنوں کو سب سے زیادہ تکلیف انہی سچائیوں سے ہوئی اور مسلسل میڈیا پر ان کے بیانات کو لے کر شور برپا رہا۔ لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مدرسے آزادی کی تحریک کے اولین مراکز رہے ہیں۔ انکار کی جتنی کوششیں کی جائیں، تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ اور مولانا مدنی نے واضح کر دیا کہ سچ کو دبایا جا سکتا ہے، بدلا نہیں جا سکتا۔ اس طرح جمعیۃ نے نہ صرف قانونی لڑائی لڑ رہی ہے بلکہ زمینی سطح پر بھی مربوط اقدامات کررہی ہے۔ حالیہ تحفظ مدارس کانفرنس، اس کا عملی نمونہ ہے۔ اس کانفرنس میں تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کے ذمہ داران شریک ہوئے، جس سے یہ بھی پیغام گیا کہ مدارس کا تحفظ کسی ایک مسلک یا ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری ملت کا مشترکہ فریضہ ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کی اس جدوجہد کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ وہ صرف رد عمل میں کام نہیں کرتی بلکہ پیشگی منصوبہ بندی اور زمینی تیاری کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ مدارس اور مساجد کے لیے وقف زمین کی تصدیق، تعمیرات کے لیے قانونی منظوری، اور حکومت کے منفی پروپیگنڈے کا قانونی و میڈیا سطح پر جواب، یہ تمام اقدامات جمعیۃ کی دوراندیشی اور معاملہ فہمی کا مظہر ہیں۔ مدارس پر حملہ درحقیقت صرف ایک تعلیمی ادارے پر حملہ نہیں، بلکہ یہ مسلمانوں کی شناخت، دینی ورثے اور قومی تاریخ کے ان صفحات کو مٹانے کی کوشش ہے جن پر ملت کو فخر ہے۔ نیز جس قانون یعنی Right to Education Act 2009 کا سہارا لے کر مدارس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسی قانون کی دفعہ 1 کی شق 5 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ ایکٹ مدارس اور پاٹھ شالاؤں پر لاگو نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود مدارس کے خلاف کارروائی، ریاستی اور مرکزی آئینی اقدار کے صریح خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ جمعیۃ علماء ہند اور اسکے صدر مولانا ارشد مدنی کی قیادت نہ صرف ان حملوں کو بے نقاب کر رہی ہے بلکہ آئینی دائرے میں رہتے ہوئے ان کا مقابلہ کررہی ہے، ملت کو حوصلہ دے رہی ہے، اور یہ باور کرا رہی ہے کہ جب قیادت بیدار ہو، تو سازشیں دم توڑ دیتی ہیں۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ وقت ایک نازک اور فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں، تعلیمی بہانوں اور قانونی پردوں میں چھپ کر ملت کی روح پر وار کر رہی ہیں۔ لہٰذا یہ وقت صرف احتجاج کا نہیں، منصوبہ بند مزاحمت کا ہے۔ اور یہ مزاحمت صرف نعرے بازی سے نہیں بلکہ علمی، قانونی، اور فکری سطح پر ہونی چاہیے۔ جمعیۃ علماء ہند اس جدوجہد کا محاذ بن چکی ہے، اور مولانا ارشد مدنی جیسے رہنما اس کشتی کے ناخدا ہیں۔ مدارس کے تحفظ کے لیے ہر صاحبِ ضمیر کو آگے آنا ہوگا، تاکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی قرآن، دین، اور اپنی دینی شناخت سے جڑی رہیں اور مدارس کا دفاع درحقیقت ملت کی بقا، تہذیب کی حفاظت، اور آئین کی پاسداری کا دفاع ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جب تک ملک میں جمعیۃ علماء ہند جیسی تنظیم باقی رہے گی، تب تک مدارس کے چراغ بجھ نہیں سکتے۔ وہ چراغ جو کبھی علم سے، کبھی قربانی سے، اور کبھی مزاحمت سے روشن رہے ہیں، ان شاء اللہ ہمیشہ روشن رہیں گے۔

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!