مذہبی اداروں پر حکومتی کنٹرول کے خلاف ناندیڑ میں دانشوروں کا اجلاس۔
ایک دوسرے کے معاشرے میں عوامی بیداری پیدا کرنے کا فیصلہ۔

ناندیڑ:11/جون(راست) ناندیڑ شہر میں بودھ، مسلم اور سکھ برادریوں کے دانشوروں نے ایک اہم میٹنگ کی، جس میں حکومت کی طرف سے اپنے مذہبی اداروں جیسے بودھ گیا بہار، وقف بورڈ اور گرودوارہ بورڈ کو قانون بنا کر کنٹرول کرنے کی مبینہ کوششوں کے خلاف یکجہتی کا اظہار کیا۔ اصلاح معاشرہ اور تحریک اوقاف تنظیم کے زیراہتمام منعقدہ اس اجلاس میں تینوں برادریوں کے نمائندوں نے حکومت کے ان فیصلوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنے اور مستقبل میں ایک زبردست عوامی تحریک چلانے کا عزم کیا۔ اجلاس میں موجود دانشوروں نے اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت مختلف قوانین کے ذریعے ان کمیونٹیز کے اندرونی مذہبی معاملات میں مداخلت کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ اور برادریوں کی خود مختاری کو مجروح کرنے کی کوشش ہے۔
اس اہم میٹنگ میں ممتاز مسلم دانشور جیسے اصلاحِ معاشرہ اور تحریک اوقاف کے ایڈوکیٹ عبدالرحمن صدیقی، ایم اے حفیظ، فاروق احمد، الطاف ثانی، رحمت پہلوان، سابق کارپوریٹر سعید خان، کرامت اللہ خان عرف کمو بھائی موجود تھے۔ بدھسٹ کمیونٹی کی نمائندگی بھنتے پائی بودھی، بدھسٹ مہاسبھا کے ضلع صدر گنپت گائکواڑ، پی ایم واگھمارے، انجینئر پرشانت انگولے اور وٹھل گائیکواڑ اور دیگر، جبکہ سکھ برادری سے رویندر سنگھ مودی، جرنیل سنگھ گاڑی والے اور مہندر سنگھ پیدل موجود تھے۔ اسکے علاوہ ایڈوکیٹ محمد شاہد، ایڈوکیٹ شیخ بلال، جاوید ہاشمی اور محمد قاسم بھی موجود تھے۔ میٹنگ میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ آنے والے دنوں میں حکومت کے ان “منو وادی قوانین اور فیصلوں” کے خلاف ایک زبردست اور پرامن عوامی تحریک چلائی جائے گی۔
تینوں برادریوں کے علاوہ دیگر سیکولر تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی اس تحریک میں حصہ لیں گے۔ تحریک کی حکمت عملی اور آئندہ کے لائحہ عمل پر جلد تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ناندیڑ سے شروع ہونے والا یہ اقدام حکومت کی ان مبینہ کنٹرولنگ کوششوں کے خلاف کتنا بڑا قدم اٹھائے گا اور کیا یہ پورے ملک میں ایک وسیع عوامی تحریک کی شکل اختیار کرتا ہے۔