Uncategorized

مزاحمت کا فلسفہ یا خاموشی کی قیمت؟ ایران کا فیصلہ کن لمحہ

🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
┄─═✧═✧═✧═✧═─┄

اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا: “وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ‌ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ‌ؕ”۔ (القرآن – سورۃ الأنفال: 60)۔ (اور تم لوگ، جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو ، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللّٰہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوفزدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللّٰہ جانتا ہے)۔ اسی آیتِ کریمہ میں امت کو حکم دیا گیا ہے کہ دفاعی حکمت، نظم و ضبط اور “قوّت” کی ہمہ جہت تیاری، صرف عسکری غلبے کا نہیں بلکہ اللّٰہ کی بندگی اور مظلوموں کی نصرت کا تقاضا ہے۔ اسی طرح سورۂ البقرہ آیت 177 میں “الصّابِرینَ فِی البَأساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ البَأسِ” “تنگ دستی، تکلیف اور پُرخطر گھڑی میں صبر کرنے والوں” کو خیر و بھلائی کا معیار قرار دیا گیا ہے۔

ایران کے تزویراتی صبر، علمی تدبیر اور مزاحمتی جذبے کا جو خاکہ آپ کے ہاتھ میں ہے، وہ بعینہٖ اسی قرآنی منہاج کی عملی تصویر ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو صرف “شہاب” یا “عماد” جیسے میزائلوں کی دھمک سے نہیں، بلکہ ربِّ کریم کے اس فرمان سے فیضان حاصل کرتی ہے کہ “إِنَّ اللّٰهَ

مَعَ الصَّابِرِين” یقیناً اللّٰہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

یہ افتتاحی کلمات اسی فکری محور کو اجاگر کرتے ہیں کہ قوتِ بازو تب بابرکت ہوتی ہے جب وہ “قَوَّة” اپنے ربّ کی اطاعت، مظلوموں کی حمایت اور ظالم کے مقابل حق گوئی سے جڑی ہو۔ ایران کی خاموشی ہو یا اس کی “میزائل سٹیز” کی گہرائی ہر پہلو میں وہ اصول کارفرما نظر آتا ہے جسے رسولِ اکرمﷺ نے غزوۂ احزاب کے موقع پر سکھایا، حکمتِ عملی میں خندق کھودنا بھی سنّت ہے اور آخری لمحے تک تدبیر و دعا پر قائم رہنا بھی۔ پس، یہ تحریر پڑھتے ہوئے نگاہ صرف عسکری اعداد پر نہیں رکے گی؛ دل اُس قرآنی پیغام پر مرکوز رہے گا جو اُمتِ محمدیہﷺ کو صبرِ حسینؓ، تدبیرِ محمدﷺ اور قوتِ حیدرؓ کی ایک جامع ترکیب سونپتا ہے تاکہ “كَلِمَةُ اللّٰهِ هِيَ العُلْيا” ہمیشہ بلند ہو اور ظلم کی ہر صورت پست ہوتی چلی جائے۔

● ایران کی جوابی صلاحیت: طاقت، تدبیر اور تہذیب کا امتزاج

ایران کی جوابی صلاحیت صرف عسکری طاقت یا دفاعی آلات کی فہرست تک محدود نہیں بلکہ ایک گہری حکمت، طویل المدّت منصوبہ بندی، اور اپنے قومی مفادات کے تحفّظ کی پیچیدہ بصیرت پر مبنی ہے۔۔ جب دنیا کی نگاہیں خلیج فارس کے اس ملک کی جانب اٹھتی ہیں جس نے صدیوں کی تاریخ میں سلطنتوں کو جنم دیا اور زوال کی راکھ سے دوبارہ اٹھنے کا ہنر سیکھا، تو سوال اُبھرتا ہے: کیا ایران مؤثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہ سوال صرف عسکری گنتیوں کا محتاج نہیں، بلکہ بصیرت، صبر، اور اس حکمتِ عملی کی تفہیم کا طالب ہے جو ایران کی سیاست، فوجی ڈھانچے اور نیابتی سرگرمیوں کا مرکزی ستون ہے۔

▪️میزائلوں کی زبان میں پیغام رسانی
ایران کے پاس شہاب، فَتح، خیبر، عماد جیسے میزائل نظام ہیں جو صرف لوہے اور بارود کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک خاموش پیغام ہیں دشمنوں کے لیے، کہ سر زمین فارس کے آسمانوں پر امن ہو تو یہ آہنی پرندے خاموش رہتے ہیں، لیکن اگر حرمتِ وطن کو چیلنج کیا جائے تو یہ قہر بن کر برس سکتے ہیں۔ ان میزائلوں کی رینج نہ صرف جغرافیائی فاصلے ماپتی ہے، بلکہ سیاسی پیغام رسانی کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔

▪️زمین کے سینے میں چھپے قلعے
ایران کی زیر زمین بیسز، جنہیں عرفِ عام میں “میزائل سٹی” (Missile City) کہا جاتا ہے، دراصل اس ملک کے صبر، چپ اور عزم کی تمثیل ہیں۔ پہاڑوں کے دل میں بنے یہ قلعے وہ پناہ گاہیں ہیں جہاں سے ایران کسی بھی وقت جواب دے سکتا ہے — نہ صرف محفوظ بلکہ غیر متوقع انداز میں۔ دشمن کو خبر تک نہیں ہوتی کہ ضرب کب، کہاں اور کیسے آ جائے گی۔

▪️آسمان پر ایران کی آنکھیں اور ہاتھ
ڈرون ٹیکنالوجی میں شاہد 136 اور مُہاِجر جیسے جدید ڈرونز ایران کی تکنیکی برتری کا ثبوت ہیں۔ ان ڈرونز نے نہ صرف مشرق وسطیٰ کے معرکوں میں اپنا لوہا منوایا بلکہ عالمی دفاعی ماہرین کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ یہ خودکار پرندے اب ایران کی نگاہِ قہر بن چکے ہیں، جو خاموشی سے اڑتے ہیں اور دشمن کی صفوں میں خوف پھیلا دیتے ہیں۔

▪️پراکسیز کا حکیمانہ استعمال
ایران کی وہ طاقت جو اکثر عالمی تجزیہ نگاروں کی گرفت میں نہیں آتی، وہ ہے پراکسی جنگوں میں مہارت۔ لبنان کی وادیوں سے لے کر یمن کے پہاڑوں تک، اور عراق کی گلیوں سے غزہ کی سر زمین تک، ایران نے ایک ایسا جال بُنا ہے جہاں وہ براہِ راست ملوث ہوئے بغیر بھی، دشمن کو چوٹ پہنچاتا ہے۔ یہی Plausible Deniability (قابلِ انکار شرکت) کی حکمت ہے۔ جنگ کو عالمی تصادم میں بدلنے سے بچاتے ہوئے، پیغام صاف اور مؤثر انداز میں پہنچا دینا۔

ایران کی صلاحیت صرف اسلحہ خانوں یا عسکری بیسز میں نہیں بلکہ اس کے نظامِ فکر میں ہے، جو صبر، تدبیر، اور مزاحمت کے امتزاج سے ایک ایسا دفاعی اور تزویراتی ماڈل تشکیل دیتا ہے جس کا توڑ آسان نہیں۔ ایران وقت کے تقاضوں کے ساتھ اپنے ہنر کو ڈھالتا ہے، مگر اپنی اقدار سے پیچھے نہیں ہٹتا، یہی اس کی اصل قوت ہے، اور یہی دشمنوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش۔

● ایران کی خاموشی: صبر کی تلوار، حکمت کی ڈھال

یہ سوال بہت سے ذہنوں میں گونجتا ہے، اگر ایران کے پاس مؤثر جواب دینے کی مکمل صلاحیت ہے تو پھر وہ خاموش کیوں ہے؟
یہ خاموشی کمزوری نہیں، بلکہ ایک ایسی گہری اور دانا حکمت عملی کا مظہر ہے جو وقتی جوش کے بجائے طویل المدت نتائج پر نگاہ رکھتی ہے۔ جب دشمن سرحدوں کو چھوتا ہے، آسمانوں پر بارود کے بادل منڈلاتے ہیں، اور خبروں کی دنیا ایک شعلہ خیز جواب کی منتظر ہوتی ہے، تب ایران کا سکوت ایک معما بن جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس خاموشی کے پیچھے نہ مجبوری ہے، نہ کمزوری، بلکہ ایک گہرا، مہذب اور دور رس تزویراتی فلسفہ ہے۔

▪️جوہری خواب کا تحفّظ: خاموشی کی سب سے بڑی قیمت
ایران اس وقت اپنے قومی خواب “جوہری خودکفالت” کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ یہ خواب صرف بجلی پیدا کرنے یا سائنسی ترقی کا نام نہیں، بلکہ قومی وقار، خودمختاری، اور مستقبل کی سلامتی کا ضامن ہے۔ اگر ایران کھلی جنگ میں کود پڑے تو اسرائیل و امریکہ کی بھرپور جوابی کارروائی کی پہلی ضرب اس کے ان جوہری اثاثوں پر پڑے گی جنہیں بنانے میں برسوں کا وقت، اربوں کی لاگت، اور بے شمار قربانیاں صرف ہوئی ہیں۔ ایسی جنگ نہ صرف اس خواب کو راکھ کر دے گی بلکہ ایران کو ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کی پابندیوں اور عالمی تنہائی کے کالے دائرے میں دھکیل دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران وقت کے تقاضے پر نہیں، وقت کے آئینے میں درست لمحے کے منتظر ہے۔

▪️معاشی زخم اور عوامی اضطراب
امریکی پابندیوں کی زنجیروں نے ایران کی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، کرنسی کی قدر زمین میں دفن ہو چکی ہے، اور بیروزگاری نوجوان نسل کے خوابوں کو چاٹ رہی ہے۔ ایسے میں ایک بھرپور جنگ کا مطلب ہے نظامِ معیشت کی مکمل تباہی، عوامی غصّے کا ابال، اور داخلی عدم استحکام، جو دشمن کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہو سکتی ہے۔ ایران جانتا ہے کہ جو قوم اقتصادی بنیادوں پر ڈولنے لگتی ہے، وہ عسکری محاذ پر بھی دیرپا کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اس لیے وہ پہلے اپنے اندرونی قلعے کو مضبوط کر رہا ہے۔

▪️نیابتی دستوں کی زبان میں پیغام رسانی
ایران ایک ایسی سلطنت کا وارث ہے جو کبھی صرف فوج سے نہیں، فہم و فراست اور پراکسی قوتوں سے دنیا پر اثر انداز ہوئی ہے۔
حزب اللّٰہ (لبنان)، حوثی (یمن)، حشد الشعبی (عراق)، اور زینبیون و فاطمیون (شام/افغانستان) یہ سب صرف عسکری گروہ نہیں بلکہ ایران کے وسیع تر علاقائی وجود کے نمایندہ چہرے ہیں۔ ان کے ذریعے ایران ایسا وار کرتا ہے جو خود پر جنگ کی لپیٹ نہیں لاتا، لیکن دشمن تک درد ضرور پہنچاتا ہے۔
یہ حکمت وہی ہے جو شطرنج کے ماہر کھلاڑی اپناتے ہیں، اپنے بادشاہ کو محفوظ رکھتے ہوئے، پیادوں، گھوڑوں اور وزیر سے چالیں چلنا۔

▪️تزویراتی صبر “Strategic Patience”: وقت کی مہارت سے تراشی گئی حکمت
ایران کی عسکری حکمتِ عملی کی رُوح ایک نہایت نازک مگر باوزن اصول میں پنہاں ہے: صبر، مہلت اور فیصلہ کن گھڑی کا انتظار۔
ایران کبھی بھی دشمن کی اشتعال انگیزی پر فوراً ردعمل نہیں دیتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک بروقت، مکمل، اور نتیجہ خیز وار اُس سو چمکدار گولیوں سے بہتر ہے جو صرف خبروں میں گونجتی ہیں۔ یہی Strategic Patience ایران کو اُس مقام تک لے آئی ہے جہاں وہ حملے کا جواب صرف انتقام میں نہیں بلکہ سیاسی فائدے کے حصول میں تلاش کرتا ہے۔

لہٰذا، ایران کی خاموشی ایک پردہ ہے، اُس اسٹیج پر گرنے والا پردہ جہاں پیچھے سے تیاری، تدبیر، اور تربیت کی گہری سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔ یہ وہ خاموشی ہے جس کے پیچھے قلم کی نرمی، تلوار کی چمک اور دعا کی تاثیر جمع ہے۔ اور جب یہ خاموشی ٹوٹتی ہے، تو اس کا ایک وار صدیوں یاد رکھا جاتا ہے۔

● خاموشی کی قیمت: ایران کی سافٹ پاور کو درپیش خطرات

ایران کے تحمل اور تدبر پر مبنی طرزِ عمل کے باوجود موجودہ صورتِ حال کے اندر کئی سنجیدہ خطرات پنہاں ہیں۔ اگر ایران نے مسلسل اشتعال انگیزیوں پر خاموشی اختیار کیے رکھی، تو اس کے نہ صرف عملی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس کے فکری و سیاسی بیانیے کو بھی شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔

ہر قوم کی طاقت صرف اس کے ہتھیاروں، میزائلوں یا فوجی قلعوں میں نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کے نظریے، موقف، اور اپنے اتحادیوں میں پیدا کیے گئے اعتماد میں بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ ایران نے خود کو نہ صرف ایک جغرافیائی طاقت کے طور پر منوایا ہے بلکہ مزاحمتی بلاک جسے “محورِ مزاحمت” یا Resistance Axis کہا جاتا ہے — کا نظریاتی و فکری رہنما بھی بننے کی کوشش کی ہے۔ مگر آج، جب دشمن اس کی سرحدوں پر بار بار چنگاریاں پھینک رہا ہے، اگر وہ صرف “تزویراتی صبر” پر قائم رہتا ہے تو اس کی کچھ قیمتیں بھی ادا کرنی پڑ سکتی ہیں۔

▪️سافٹ پاور کا زوال: اعتماد کی بنیادیں متزلزل
ایران کی سافٹ پاور یعنی نظریاتی اثر و رسوخ، سفارتی کشش، اور امتِ مسلمہ میں مزاحمت کی علامت بننے کی صلاحیت ہمیشہ اس کی عملی مزاحمت کے ساتھ جڑی رہی ہے۔ اگر دشمن بار بار حملہ کرے اور ایران صرف بیانات یا پراکسیز کے پیچھے چھپا رہے، تو اس کا یہ وقار آہستہ آہستہ ہَوا کی مٹتی خوشبو کی طرح بکھر سکتا ہے۔ نوجوان نسل، خصوصاً فلسطین، لبنان، عراق اور شام میں موجود مزاحمتی گروہ، یہ سوال اٹھانے لگیں گے کہ “کیا ایران صرف زبانی دعوے کا نام ہے؟”

▪️محورِ مزاحمت کا مورال متاثر ہونے کا اندیشہ
حزب اللّٰہ کی گزرگاہوں، حوثیوں کی پہاڑیوں، اور شام و عراق کے میدانوں میں موجود وہ سپاہی جو خود کو ایران کے نظریاتی بازو سمجھتے ہیں، اگر مسلسل محسوس کریں کہ مرکز خاموش ہے، تو ان کا مورال متاثر ہونا ناگزیر ہو جائے گا۔ ایک سپاہی، جو جان ہتھیلی پر رکھے لڑ رہا ہو، اگر پیچھے سے آنے والی حمایت میں کمزوری دیکھے، تو اس کے حوصلے میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں اور یہی دشمن کی سب سے بڑی فتح ہوتی ہے۔

▪️مسلم دنیا میں بڑھتی ہوئی تنہائی
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور دیگر اہم مسلم ریاستیں پہلے ہی ایران کے حوالے سے مشکوک نگاہ رکھتی ہیں۔ اگر ایران مسلسل تحمل کا مظاہرہ کرتا رہا جب کہ دشمن کی زبان اور ہاتھ دونوں آزاد رہیں، تو یہ ممالک یہ تاثر لینے لگیں گے کہ ایران محض نعرے لگاتا ہے، عمل نہیں کرتا۔ نتیجتاً، ایران کا امتِ مسلمہ میں قائدانہ مقام مزید کمزور ہو سکتا ہے، اور سفارتی محاذ پر اس کی بات کی تاثیر گھٹنے لگے گی۔

▪️دشمن کو بیانیہ جیتنے کا موقع
اسرائیل جو خود ظلم و جارحیت میں پیش پیش ہے، عالمی میڈیا اور رائے عامہ میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ “ایران صرف گرجتا ہے، برستا نہیں!”۔ اگر ایران ہر بار کی جارحیت کے بعد محض اخباری بیانات اور اقوام متحدہ کی خاموش دہلیز پر محدود ہو جائے، تو اسرائیل کو اپنے اس بیانیے کو سچ ثابت کرنے کا نادر موقع مل جائے گا۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں خاموشی دشمن کے لیے سب سے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔

سوال یہ نہیں کہ ایران کے پاس طاقت ہے یا نہیں، وہ ہے، اور کافی ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کو کس وقت، کس حکمت سے، اور کس نتیجے کے لیے استعمال کرتا ہے؟ اگر خاموشی زیادہ طول پکڑے تو وہ تزویراتی صبر کم اور عملی پسپائی زیادہ دکھائی دینے لگتی ہے اور یہی وہ باریک لکیر ہے جسے ایران کو اپنے فہم، حزم اور فطانت سے عبور کرنا ہے۔ ایران کو فیصلہ کرنا ہوگا کیا وقت آ گیا ہے کہ خاموشی کو صدائے عمل سے بدل دیا جائے؟

● ایران کا سکوت: طوفان سے پہلے کی خاموشی؟

ایران کے ممکنہ ردّعمل سے متعلق سوال آج دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں، تھنک ٹینکس، اور عوامی مجالس میں زیرِ بحث ہے!!! “کیا ایران واقعی اس بار کوئی بڑا جواب دے گا؟”۔ یہ سوال محض عسکری کارروائی کے امکان کا نہیں، بلکہ ایک پوری تہذیب، مزاحمتی فلسفے، اور تزویراتی سوچ کے داخلی رازوں کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ دنیا کی آنکھیں ایران کی طرف مرکوز ہیں۔ ہر طرف بے چینی ہے، تجزیے ہیں، اور قیاس آرائیاں مگر ایران بدستور خاموش ہے۔ کیا یہ خاموشی تھکن کی علامت ہے؟ نہیں یہ ایک ایسی خاموشی ہے جو گونگی نہیں، بلکہ سنبھلی ہوئی اور محتاط ہے۔

ایران کوئی جذباتی ریاست نہیں کہ اشتعال انگیزی پر فوراً دہاڑنے لگے، بلکہ وہ ایک ایسا تاریخی اور تہذیبی دماغ رکھتا ہے جو جنگ کو نہ صرف میدانِ عمل بلکہ میدانِ حکمت میں بھی لڑتا ہے۔ ایران کا بڑا جواب اگر آیا تو وہ تین بنیادوں پر آ سکتا ہے:

▪️جوہری پروگرام کا مرحلۂ تکمیل یا تحفّظ
ایران اس وقت اپنے جوہری پروگرام کو اپنے دفاعی وجود کا دل سمجھتا ہے۔ اگر اسے یہ یقین ہو جائے کہ یہ اثاثے محفوظ ہیں، یا تکمیل کے قریب پہنچ چکے ہیں، تو ایران کی عسکری زنجیر کھل سکتی ہے۔

▪️“ریڈ لائن” کا عبور ہونا
اگر اسرائیل کوئی ایسی جارحیت کرے جو ایران کی غیر اعلانیہ سرخ لکیر کو پار کرے جیسے کہ کسی اہم جنرل، اسٹریٹیجک سائنسدان، یا مذہبی مقام کو نشانہ بنانا
تو ایران کے لیے خاموشی سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گی۔

▪️داخلی دباؤ اور عوامی جذبات کا ابال
ایرانی عوام، جنہوں نے ہمیشہ “مزاحمت” کو اپنا شعار مانا، اگر وہ یہ محسوس کریں کہ ان کا وقار مجروح ہو رہا ہے اور ریاست محض تماشائی بنی ہوئی ہے، تو حکومت کو اپنی پوزیشن بدلنی پڑے گی۔

مؤخر شدہ انتقام “Delayed Retaliation”: ایران کی پسندیدہ حکمتِ عملی

ایران کا انتقام کبھی بھی فوری نہیں ہوتا وہ زخم سہتا ہے، وقت کاٹتا ہے، پھر نشانہ لیتا ہے۔ یہی اس کی جنگی حکمتِ عملی کا نچوڑ ہے: “ہم وقت اور جگہ خود چنیں گے — جواب ابھی نہیں، مگر ضرور آئے گا”۔ یہی طریقہ ہم نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد دیکھا۔ دنیا سمجھ رہی تھی کہ ایران کچھ نہ کرے گا مگر پھر ایک رات عراق میں واقع امریکی اڈے پر میزائلوں کی بارش ہوئی،
اور دنیا کو احساس ہوا کہ ایران خاموش ضرور ہوتا ہے، مگر بے حس کبھی نہیں۔

جو ایران کی خاموشی کو کمزوری سمجھتا ہے، وہ ایران کو نہیں جانتا وہ صرف ہنگامے کو طاقت سمجھتا ہے، حکمت کو نہیں۔ ایران کی خاموشی دراصل اُس “جنگی مصلحت” کا حصّہ ہے جو صبر، تدبیر، اور جوہری تحفّظ پر مبنی ہے۔ وہ جنگ کو میدان میں اتر کر نہیں، دشمن کے توازن کو بگاڑ کر جیتنے کا قائل ہے۔

ایرانی تہذیب کی روح میں یہ وصف رچا بسا ہے، کبھی معاف نہ کرنا، کبھی جلدی نہ کرنا، لیکن بدلہ لینا ضرور! اس مزاج کو وقت کی ترازو میں تولیں تو آپ دیکھیں گے کہ ایران وہ قوم ہے جو یاد رکھتی ہے، اور یاد دلانے کا فن جانتی ہے۔ پس، اگر آپ ایران سے جواب کی توقع کر رہے ہیں، تو وہ وقت کا محتاج ہے، لمحے کا نہیں۔ ایران کا وار شور نہیں مچاتا، اثر چھوڑ جاتا ہے اور جب وار کرتا ہے، تو تاریخ کے صفحات پر لکیر کی طرح نہیں، زخم کی طرح رقم ہوتا ہے!

قوّت کا قرآنی معیار، قرآنِ حکیم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی قوّت صرف عسکری برتری میں نہیں بلکہ تقویٰ و بصیرت میں پوشیدہ ہے: ﴿إِن تَنصُرُوا اللّٰهَ يَنصُرۡكُم وَيُثَبِّتۡ أَقۡدَامَكُم﴾ (محمد : 7)۔ جو قوم اللّٰہ کے احکام کی نصرت کرتی ہے، اُس کی قدموں کو اللّٰہ خود مضبوط کر دیتا ہے۔ ایران کی حکمت عملی چاہے وہ میزائل ڈیٹرنس ہو یا تزویراتی صبر تبھی بارآور ہوگی جب وہ عدل، دیانت اور امّت کی خیرخواہی سے جڑی رہے۔

صبر اور تدبیر کا امتزاج، رسولِ اکرمﷺ نے غزوۂ خندق میں دفاعی خندق کھود کر سکھایا کہ صبر محض انتظار نہیں، سوچے سمجھے اقدام کا نام ہے۔ ایران کا “Strategic Patience” بھی اُسی سنّت کی یاد دلاتا ہے، جارحیت پر جلد بازی نہیں، مگر فیصلہ کن لمحہ آئے تو ڈٹ جانا، ﴿فَإِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ﴾ (آل عمران: 159)۔ سافٹ پاور اور اخلاقی برتری، نبیﷺ کی سیرت سے ثابت ہے کہ دلوں کی فتح تلوار سے زیادہ سچائی، حلم اور خدمتِ خلق سے ہوتی ہے۔ ایران کی نظریاتی قیادت تب مؤثر رہے گی جب داخلی عدل، معاشی شفافیت اور ہمسایوں کے ساتھ حسنِ سلوک اُسی قوتِ مزاحمت کا حصہ بنیں گے۔

امّت کے مظلومین کی حمایت، قرآن مظلوم کی دلجوئی کو ایمان کا لازمی جزو قرار دیتا ہے (النساء: 75)۔ لہٰذا محورِ مزاحمت کے ہر سپاہی سے لے کر عالمی سفارت کاری تک، ہر قدم ظلم کے ازالے اور مظلوم کی دستگیری کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ محض جغرافیائی مفادات کے لیے۔ بالآخر، تمام تر عسکری صلاحیت اور سیاسی تدبیر کے باوجود نتیجہ اسی کے ہاتھ میں ہے جو ﴿كُلَّ يَومٍ هوَ فِی شَأنٍ﴾ (الرحمن: 29) ہے۔ لہٰذا کامیاب حکمتِ عملی کا آخری زینہ اخلاصِ نیت اور ربّ کریم سے دعا ہے “اللّٰهم إنا نسألک نصراً عزيزاً، وسلاماً دائماً، وثباتاً علی الحق، ونجاةً من الفتن ما ظهر منها وما بطن.”

خلاصہ یہ کہ ایران کی جوابی صلاحیت کا اصل جوہر تین ستونوں پر قائم ہے: طاقتِ وسائل، حکمتِ تدبیر، اور اخلاقی برتری۔ جب یہ تینوں قرآنی عدل اور نبوی رحمۃ للعالمینﷺ کے نور سے ہم آہنگ ہوں تو خاموشی بھی ڈھال بن جاتی ہے اور اقدام بھی حق کی ترویج۔ اللّٰہ تعالیٰ اُمّت کو وہ بصیرت، یکجہتی اور استقامت عطا فرمائے جو ظلم کو مٹائے، عدل کو قائم کرے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنا دے۔ آمین یا ربّ العالمین۔

                    (14.06.2025)
•┅┄┈•※‌✤م✿خ✤‌※┅┄┈•
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!