مضامین

معاشرتی زوال کا آئینہ: ریو پارٹیز یا تہذیبی المیہ؟

✍۔مسعود محبوب خان (ممبئی)
فون 09422724040

اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اور اسے خیر و شر کے درمیان تمیز عطاء کی۔ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا: "یہ دن (فتح و شکست) ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں” (آل عمران: 140)۔ قوموں کی عزّت و عظمت، صرف ظاہری دولت یا فوجی قوت سے نہیں بلکہ ان کے اخلاق، کردار اور اجتماعی شعور سے جڑی ہوتی ہے۔ جب ایک معاشرہ اپنے اخلاقی اصولوں کو پسِ پشت ڈال دے، جب حیاء جیسی بنیادی انسانی قدر مٹ جائے، تو اللّٰہ کی سنّت یہ ہے کہ ایسی قومیں زوال اور تباہی کی طرف دھکیل دی جاتی ہیں۔

حضرت علی مرتضیؓ کا قول ہے: "معاشرے کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتے ہیں، مگر ظلم اور بے حیائی کے ساتھ نہیں”۔ اسی تناظر میں، آج ہمارے معاشرے میں جو حالات جنم لے رہے ہیں، وہ محض انفرادی گناہوں کا معاملہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی فکری و اخلاقی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ فارم ہاؤس پارٹیوں اور ان جیسے دیگر واقعات محض خبروں کی سرخی نہیں بلکہ ہماری تہذیبی حالتِ زار کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ مضمون اُسی پہلو کو سامنے لانے کی ایک عاجزانہ کوشش ہے کہ ہم بحیثیت اُمّت اپنے زوال کے اسباب کو سمجھیں، توبہ و اصلاح کی طرف لوٹیں، اور اپنے انفرادی و اجتماعی وجود کو کتاب اللّٰہ اور سنّتِ رسولﷺ کے مطابق سنوارنے کی سعی کریں۔

جنوبی ایشیاء کے بعض مسلم معاشروں میں فارم ہاؤسز پر مبیّنہ "مباشرت” یا "ڈانس پارٹیوں” سے متعلق جو اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں، وہ مختلف اوقات میں پیش آنے والے متفرق واقعات پر مشتمل ہیں۔ ایسی خبریں کسی بھی مسلم اور روایتی معاشرت میں نہ صرف قانونی، بلکہ سماجی اور تہذیبی سطح پر بھی انتہائی حساس تصور کی جاتی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں عمومی طور پر مذہبی و اخلاقی اقدار کے تحفّظ کے تناظر میں پیش کی جاتی ہیں، تاہم بعض حلقوں کی جانب سے ان کارروائیوں پر "سلیکٹیو جسٹس” اور دوہرے معیار کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔

یہ فارم ہاؤس چھاپے مختلف شہروں میں مختلف اوقات میں کیے گئے۔ تمام واقعات میں چند مشترک پہلو نمایاں ہیں: ملزمان مرد و خواتین غیر اخلاقی سرگرمیوں، ممنوعہ اشیاء (جیسے شراب، منشیات وغیرہ) کے استعمال اور قابلِ اعتراض ویڈیوز و دیگر شواہد کی برآمدگی میں ملوث پائے گئے۔ زیادہ تر مقامات پر یہ افراد شراب نوشی، نشہ آور اشیاء کے استعمال اور ڈانس پارٹیوں میں مشغول تھے۔ پولیس نے ہر موقع پر متعدد افراد کو حراست میں لے کر ان کے خلاف مختلف قانونی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے۔ برآمد شدہ اشیاء میں شراب، منشیات، شیشہ، ساؤنڈ سسٹم، ڈانس فلور کا سامان، اور بعض مواقع پر غیر قانونی اسلحہ بھی شامل تھا۔ ان واقعات میں عمومی طور پر جو الزامات عائد کیے گئے ان میں "فحاشی و عریانی، عوامی اخلاقیات کی خلاف ورزی، نشہ آور اشیاء کا استعمال، اور غیر قانونی اسلحے کی موجودگی” شامل ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس نوعیت کی خبروں پر شدید بحث و مباحثہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض افراد ان واقعات کو معاشرتی زوال کی علامت قرار دیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ ان پرائیویٹ تقریبات پر پولیس کارروائی کو فرد کی آزادی یا نجی زندگی میں مداخلت کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ایسے حساس موضوعات پر اظہارِ رائے کرتے وقت ہمیں نہایت سنجیدگی، ذمّہ داری اور فکری پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ ہم معاشرتی بگاڑ کی صحیح تشخیص کے ساتھ ساتھ اس کے مؤثر تدارک کے پہلو بھی اجاگر کر سکیں۔

یہ سوال محض تاریخ کی کتابوں میں درج کسی فلسفیانہ بحث کا عنوان نہیں بلکہ ہمارے عہد کی زندہ حقیقت بن چکا ہے۔ جب کسی معاشرے کی گلیوں میں بھوک ناچنے لگے، جب ماؤں کی گودیں اجڑنے لگیں اور باپوں کی پیشانیاں فکرِ روزگار میں اس قدر شکن آلود ہو جائیں کہ ان کے چہروں سے زندگی کا نُور رخصت ہو جائے، تو سمجھ لیجیے کہ قوم محض معیشت کی نہیں بلکہ روح و ضمیر کی سطح پر بھی زوال کا شکار ہو چکی ہے۔ آج کے دور میں روٹی، علاج، تعلیم اور انصاف جیسی بنیادی انسانی ضروریات نایاب ہو چکی ہیں۔ ایک عام انسان دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے، کبھی اسپتال کے دروازے پر دم توڑ دیتا ہے تو کبھی اسکول کی فیس نہ دے سکنے کے سبب علم کے در سے محروم رہ جاتا ہے۔ بازاروں میں ہر شے ملتی ہے مگر عزّتِ نفس اور وقار شاید کہیں بھی دستیاب نہیں۔ یہ وہ نشانیاں ہیں جو کسی معاشرے کے اجتماعی انحطاط کی گواہی دیتی ہیں۔

دوسری جانب، سماج کا ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو طاقت و سرمائے کی سنگھاسن پر براجمان ہے۔ ان کے لیے اقدار کی حرمت محض لفظوں کی بازی گری بن چکی ہے اور انسانی وقار کا مفہوم ان کے لیے اجنبی ہو گیا ہے۔ ان کی محفلیں، ان کے ایوان، ان کے عشرت کدے سب اس بات کے شاہد ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے جب اپنی ذمّے داریوں سے منہ موڑ لیں تو قوم کی کشتی طوفان کے رحم و کرم پر آ جاتی ہے۔ فارم ہاؤس کے واقعات محض ایک چھاپے کی خبر نہیں۔ یہ ایک ایسی کھڑکی ہے جو ہمارے معاشرے کے بوسیدہ اور کھوکھلے خدوخال کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس واقعے کے آئینے میں ہم نے دیکھا کہ ہمارا سماج کس طرح دو انتہاؤں میں بٹ چکا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ جو نانِ شبینہ کو ترستے ہیں، اور دوسری طرف وہ جن کے دستر خوانوں پر ضیافتیں سجی رہتی ہیں۔

یہ فارم ہاؤس کی چار دیواری نہیں، یہ دراصل ہماری تہذیب و تمدّن کی دیوار ہے جو اب خستہ ہو چکی ہے۔ وہاں سے اٹھنے والی صدائیں محض قہقہوں کی نہیں بلکہ تہذیبی انہدام کی چیخیں ہیں۔ اس طرح کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا زوال محض معیشت کا نہیں بلکہ اخلاقیات کا بھی ہے۔ یہ روحِ قوم کی بے نالی اور خالی پن کا اعلان ہے، جس میں اب نہ احساسِ زیاں باقی رہا ہے اور نہ ہی تبدیلی کی کوئی تڑپ۔ قومیں اس وقت گرتی ہیں جب ان کے اعلیٰ اقدار کا چراغ بجھ جائے، جب سچ جھوٹ سے کم قیمت ہو جائے، جب انصاف خرید و فروخت کی چیز بن جائے، اور جب فرد کی حیثیت محض ایک چابی والے کھلونے کی رہ جائے۔ ایسے میں تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کا وجود مٹ جاتا ہے، مگر ان کی کہانیاں عبرت کے طور پر باقی رہ جاتی ہیں۔

قوموں کی زندگی میں آتی ہے زوال کی گھڑی
جب مٹ جاتی ہے دل سے خوفِ خدا کی روشنی

یہ جملہ کسی شاعرانہ مبالغے کا حاصل نہیں بلکہ ایک عریاں سچائی کی گواہی ہے۔ حیاء وہ آبگینہ ہے جو معاشرتی اقدار کی آخری حد پر پہرہ دیتی ہے۔ جب یہ آخری قلعہ بھی ڈھ جائے تو باقی سب دیواریں خود بہ خود منہدم ہو جاتی ہیں۔

آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں، وہاں سوال محض کسی فرد یا کسی طبقے کی لغزش کا نہیں رہا، بلکہ پورے نظامِ فکر و نظر کی خرابی کا ہو چکا ہے۔ اگر ان لڑکیوں کی شناخت واقعی اُن گھروں سے جُڑی ہے جو عسکری وقار، حب الوطنی، نظم و ضبط اور قربانی کی علامت سمجھے جاتے تھے، تو اس واقعے کی نوعیت ایک ذاتی کوتاہی سے بڑھ کر اجتماعی المیے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

قومیں وہی زندہ اور تابندہ رہتی ہیں جن کے رہنما منزل کے نشان کو نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ مگر جب وہی رہنما خود راستہ بھول جائیں، تو کارواں کی سمت بگڑ جانا ایک فطری نتیجہ ہے۔ جس طبقے کو راستہ دکھانے والا سمجھا جاتا ہے، اگر اس کے اندر ہی اندھیرے بسیرا کر لیں، تو پھر چراغ جلانے والوں کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں۔

گرتی ہیں جب قومیں تو شور نہیں ہوتا
اندھیرے خاموش آتے ہیں، اجالا دفعتاً رخصت ہوتا ہے

معاشروں میں اخلاقی زوال کسی زلزلے یا آندھی کی طرح اچانک نہیں آتا۔ یہ ایک طویل، خاموش اور مہلک عمل ہوتا ہے۔ پہلے روح سے حیاء کا پردہ آہستہ آہستہ اتارا جاتا ہے۔ پھر ضمیر کی آنکھوں پر غفلت کی دبیز چادر ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے بعد حیاء کے آخری چراغ بھی بجھا دیے جاتے ہیں۔ جب مغرب زدگی کو ترقی کا دوسرا نام دے دیا جائے اور حیاء کو دقیانوسیت یا پسماندگی سمجھا جانے لگے، تو یہ درحقیقت صرف جسمانی برہنگی نہیں رہتی، بلکہ ایک گہرے روحانی اور فکری عریاں پن کا آغاز ہوتا ہے۔ دل و دماغ کی سر زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ اقدار کا دریا خشک ہو جاتا ہے، اور تہذیب کی فضاء میں گہری سناٹا چھا جاتا ہے۔

ایسے میں انسانوں کی شکلیں تو باقی رہتی ہیں، مگر ان کے اندر سے انسانیت رخصت ہو چکی ہوتی ہے۔ ہجوم تو نظر آتا ہے، مگر اس ہجوم میں قافلے کی تمیز نہیں رہتی۔ ہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر صرف اپنے مطلب کی دنیا بساتا ہے، اور اجتماعی شعور خوابِ غفلت میں ڈوبا رہتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قوموں کے وجود صرف معیشت یا فوجی طاقت سے محفوظ نہیں رہتے، بلکہ اُن کی اصل قوت اخلاقی اقدار میں پنہاں ہوتی ہے۔ جب حیاء کا چراغ بجھ جائے، تو نہ توپ کام آتی ہے نہ تلوار۔ باقی صرف سنّاٹا رہ جاتا ہے تاریخ کے اوراق پر لکھی ہوئی عبرتوں کا سنّاٹا۔

فارم ہاؤس کے حالیہ واقعے نے نہ صرف اخلاقی گراوٹ کو عیاں کیا بلکہ ریاستی اداروں کے کردار کو بھی بے نقاب کر دیا۔ ایک ایسا کردار جس میں دوہرا معیار پوری شدّت سے جھلکتا ہے۔ عوام کے لیے قانون فولاد کی زنجیر ہے، سخت گیر، بے رحم، اور بلا امتیاز نافذ کیا جانے والا۔ مگر جیسے ہی بات اشرافیہ تک پہنچتی ہے، وہی قانون روئی کے گالوں میں لپٹی ہوئی نرم چھڑی بن جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب پولیس کو چھاپے کے دوران خبر ملتی ہے کہ جن پر ہاتھ ڈالا گیا ہے وہ "خاص لوگ” ہیں۔ بس، اسی لمحے تھانے کے انچارج کی معطلی کا فرمان جاری ہو جاتا ہے۔

مگر درحقیقت یہ معطلی کسی ایک افسر کی نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ یہ معطلی دراصل قانون کی حرمت کی معطلی ہے، انصاف کی خودکشی ہے، اور ریاستی غیرت کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ ریاست جو ایک ماں کی طرح تمام شہریوں کے لیے یکساں عدل و انصاف کی ضامن ہونی چاہیے، جب خود امیر و غریب میں فرق کرنے لگے تو وہ ماں نہیں رہتی، ایک بے حس تاجرہ بن جاتی ہے۔ ایسے میں عوام کے دلوں میں قانون کے لیے جو آخری رمقِ اعتبار بچی ہوتی ہے، وہ بھی دم توڑ دیتی ہے۔ اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں قانون کمزور کا گلا گھونٹنے اور طاقتور کی راہ میں پلنگ بچھانے کے کام آتا ہے۔

قوموں کا مستقبل ان کی بیٹیوں کے کردار سے جڑا ہوتا ہے۔ بیٹیاں اگر علم، حیاء اور وقار کی علمبردار ہوں، تو معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ مگر اگر وہ تعلیم سے دور اور فیشن کے قریب ہوں، اگر ان کی تربیت کتابوں اور بزرگوں کی باتوں کے بجائے انسٹاگرام کی ریلس اور اشتہارات سے ہو، تو پھر وہ بیٹیاں قوم کا فخر نہیں رہتیں بلکہ اشرافیہ کے محفلوں کی زینت اور کھلونوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب والدین محض دولت کمانے میں مشغول ہو جائیں اور اپنی اولاد کے کردار و اخلاق کی خبر لینا چھوڑ دیں۔ جب گھر کے آنگن میں حیاء کے پھول مرجھا جائیں اور صرف نمود و نمائش کی بیلیں اگنے لگیں۔

ایسی بیٹیاں کسی دن خبر کی زینت تو ضرور بنتی ہیں، مگر فخر کی نہیں، افسوس اور شرمندگی کی خبر۔ معاشرتی زوال کے اس منظرنامے میں وہ صرف علامت بن کر رہ جاتی ہیں۔ اس علامت کی جو یہ بتاتی ہے کہ جب قومیں اپنی بنیادیں بھول جائیں، تو ان کے پھل بھی کڑوے اور زہریلے نکلتے ہیں۔ قوموں کے وقار کی بنیاد عورت کے وقار میں ہے۔ اگر عورت صرف ظاہری زیبائش اور وقتی لذتوں کی علامت بن جائے، تو قوموں کے اخلاقی ستون خودبخود زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب "قوم کی بیٹی” کا مقدس لقب چھن جاتا ہے اور محض "اشرافیہ کے کھلونے” کا عنوان باقی رہ جاتا ہے۔

جس قوم کی بیٹیاں حیاء کی چادر اتار دیں
وہ قوم بہت جلد تاریخ کا حصّہ بن جاتی ہے

یہ وقت الزام تراشیوں کا نہیں۔ یہ وہ گھڑی نہیں کہ ہم انگلیاں اٹھا کر دوسروں کو کوسیں یا محض شرمندگی کے رسمی اعلانات کر کے ضمیر کو بہلا دیں۔ یہ لمحہ ہم سب کے لیے ایک آئینہ ہے، ایک ایسی شفاف مگر تلخ تصویر جس میں ہمیں اپنی اصلیت دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا: ہم کس راستے پر گامزن ہیں؟ ہماری اجتماعی کشتی کس دھارے میں بہہ رہی ہے؟ ہم اپنے بچّوں کو محض جائیدادیں اور مادی ورثہ دے کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے ان کے لیے سب کچھ کر دیا؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل ورثہ کردار، اخلاق اور شعور ہوتا ہے۔

یہ سوال بھی ہمارے سامنے کھڑا ہے: کیا ہمارا معاشرہ صرف سوشل میڈیا کی خبروں میں جینے والا بن چکا ہے؟ کیا ہماری خوشیاں، ہمارے دکھ، ہماری غیرت سب کچھ صرف وائرل ویڈیوز اور ٹرینڈنگ ہیش ٹیگز کے تابع ہو چکا ہے؟ یا پھر اب بھی ہم میں وہ ہمت باقی ہے کہ ہم ان ناسوروں کا علاج ڈھونڈیں، جو ہماری تہذیبی روح کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں؟

یاد رکھیے! قومیں توپوں اور بندوقوں سے تباہ نہیں ہوتیں، وہ جنگوں سے مٹتی ہیں نہ قحط سے۔ ان کا اصل زوال اُس دن شروع ہوتا ہے جب ان کے اخلاقی اصول ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ جب سچ جھوٹ کے نیچے دب جائے، جب حیاء مذاق بن جائے، اور جب انصاف کمزور کی دسترس سے نکل جائے۔

اگر ہم نے آج اپنے اخلاقی وجود کو نہ سنوارا، اگر ہم نے اجتماعی ضمیر کو جگانے کی کوشش نہ کی، تو کل صرف تاریخی کتابوں میں باقی رہیں گے۔ ایک گم گشتہ قوم کے طور پر ایک ایسی قوم جس کے پاس سب کچھ تھا مگر وہ خود کو سنبھال نہ سکی۔ اور تاریخ بڑی ظالم ہوتی ہے۔ وہ صرف فاتحین کے نام زندہ رکھتی ہے، شکست خوردہ قوموں کو محض عبرت کا نمونہ بنا کر چھوڑ دیتی ہے۔ یہ لمحہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم بیدار ہو جائیں۔ ورنہ کل ہم صرف مثال بن کر رہ جائیں گے اور وہ بھی عبرت کی مثال۔

ہمیں قرآنِ حکیم کی اس واضح ہدایت کو یاد رکھنا چاہیے: "بیشک اللّٰہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے” (الرعد: 11)۔

یہ وقت اپنے گریبان میں جھانکنے، توبہ و استغفار کرنے، اور اپنی انفرادی و اجتماعی روش پر غور کرنے کا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم صرف واقعات پر افسوس یا تنقید تک محدود نہ رہیں، بلکہ اصلاحِ نفس، اصلاحِ خاندان، اور اصلاحِ معاشرہ کی سنجیدہ کوشش کریں۔ دینِ اسلام نے ہمیں حیاء، انصاف، صدق، امانت، اور عدل و مساوات کے جو اصول عطا کیے ہیں، انہی کی طرف لوٹ کر ہی ہم اپنے کھوئے ہوئے وقار اور عظمت کو دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی لغزشوں سے سبق لینے، اپنے دلوں کو زندہ رکھنے، اور بحیثیتِ اُمت فلاح و کامیابی کے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا ربّ العالمین)۔

ہے تلخ بہت حقیقتِ وقت کی صدا
جاگ اے غفلت میں ڈوبی ہوئی قوم جاگ ذرا

✒️ Masood M. Khan (Mumbai)
📧masood.media4040@gmail.com

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!