مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی ڈائریاں ۔ ایک عہد کی داستان

از قلم: سید آصف ندوی
امام و خطیب مسجد غنی پورہ، ناندیڑ
الحمدللہ، ایک علمی خزانہ میرے مطالعے کی زینت بن چکا ہے!
گزشتہ دنوں میں نے عالم اسلام کی ممتاز علمی، فکری و عبقری شخصیت، استاذ العلماء، حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم کی عربی زبان میں تحریر کردہ روزنامہ ڈائری (مذاکراتی) کا مکمل سیٹ منگوایا تھا، جو تقریباً تیس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ آج بفضلہٖ تعالیٰ وہ بیش بہا خزینہ بذریعہ ڈاک میرے پاس پہنچ چکا ہے۔
یہ تیس جلدیں مولانا موصوف کی 1973 سے 1996 تک کی علمی و تعلیمی، دینی و دعوتی، سماجی و بین الاقوامی زندگی کا نہایت مفصل، عمیق اور دستاویزی ریکارڈ پیش کرتی ہیں۔ ان صفحات میں صرف ایک فرد کی زندگی نہیں، بلکہ ایک پورے عہد کی جھلک محفوظ ہے۔
مکمل سیٹ موصول ہونے کے بعد بندہ نے صاحبِ سوانح، حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب مدظلہ سے فون پر گفتگو کا شرف حاصل کیا۔ اس علمی گفتگو کے دوران حضرت نے نہایت خوشی کے ساتھ اطلاع دی کہ تقریباً 80 جلدوں کا کام مکمل ہو چکا ہے، اور ان کی پروف ریڈنگ کا عمل جاری ہے۔ ان شاء اللہ بہت جلد یہ 80 جلدیں بیک وقت شائع کی جائیں گی۔ میں نے اس موقع پر مولانا محترم کی خدمت میں یہ تجویز بھی رکھی کہ اگر ان جلدوں کو اردو قالب میں بھی منتقل کر دیا جائے تو اس کا دائرۂ افادیت نہ صرف برصغیر کے وسیع طبقے تک پھیل جائے گا بلکہ یہ تصنیف ’’یادیں‘‘ از شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم یا ’’کاروانِ زندگی‘‘ از مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی طرح ایک عظیم دستاویزی سوانحی سرمایہ بن جائے گی۔
اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ڈائری دراصل بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ کے ان پچیس برسوں کی سیاسی، دینی، سماجی اور تہذیبی تاریخ کا آئینہ ہے۔ یہ ڈائری ان تمام افراد کے لیے ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے جو ان خطوں کی معاصر تاریخ کو علمی دیانت کے ساتھ مرتب کرنا چاہتے ہیں۔
بلاشبہ حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب کا علمی و فکری قد آج بھی قابلِ رشک ہے۔ جب تک آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے وابستہ رہے، اُس وقت تک آپ ہر مکتبِ فکر کے اکابر علماء کا مرکزِ اعتماد اور محبوب شخصیت رہے۔ مگر ان دونوں اداروں سے آپ کی علیحدگی کے بعد جو بعض افکار و آراء آپ کی جانب سے سامنے آئے، ان سے بہت سے علماء و اہلِ علم کو اتفاق نہ ہو سکا۔ تاہم اس سب کے باوجود یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ مولانا موصوف کی علمی کاوشیں، گراں قدر تصنیفات اور دعوتی و دینی خدمات آج بھی ایک عظیم علمی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں، جن سے امت کو استفادہ کرتے رہنا چاہیے۔
بالخصوص یہ روزنامہ ڈائری نہ صرف تاریخ کے طالب علموں کے لیے ایک نایاب دستاویز ہے بلکہ عربی زبان کے طلبہ کے لیے بھی ایک زبردست نعمت ہے۔ اس کا مطالعہ عربی زبان کی فصاحت، اسلوب اور علمی انداز سے روشناس ہونے کے لیے ایک قیمتی ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ مولانا محترم کی ان علمی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور ہمیں ان سے صحیح استفادے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین۔