
جلگاؤں (عقیل خان بیاولی)
برصغیر کے معروف مجاہدِ آزادی میر شکراللہ خاندیش گاندھی کے چشم چراغ، نامور ماہرِ لسانیات، محقق، صحافی اور ادیب میر ساجد علی قادری (ساکن جوہو اسکیم، ممبئی) 19 جون کی صبح داعیِ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ مرحوم نہ صرف علمی و ادبی دنیا کی درخشاں شخصیت تھے بلکہ خاندانی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے انہوں نے وطنِ عزیز اور ملتِ اسلامیہ کی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔مرحوم کو اردو، انگریزی ، عربی، ہندی اور مراٹھی زبانوں پر عبور حاصل تھا، اور وہ ان زبانوں کے ادب و صحافت کو نئی جہت دینے والوں میں شمار کیے جاتے تھے۔
ان کی علمی زندگی کا ایک اہم پہلو نوجوانانِ ملت کو زبانوں پر مہارت دلا کر بین الاقوامی معیار کے روزگار کی راہوں پر گامزن کرنا تھا۔ اسی مقصد کے لیے آپ نے مدنی ہائی اسکول، جوگیشوری میں اسپیکنگ کلاسز کے ذریعے خدمات انجام دیں۔آپ نے ایک طویل مدت تک مغل لائن میں افسر کے عہدے پر کام کیا۔ علم و ادب سے گہری وابستگی رکھتے تھے، ان کی تحریریں تحقیق و تجزیے سے مزین اور فکری گہرائی کی حامل ہوا کرتی تھیں۔ وہ قلم کو امانت اور تحریر کو ذمہ داری سمجھتے تھے۔ دینی مزاج، سادہ طبعیت، اور بلند کردار کے حامل تھے۔مرحوم طویل عرصے سے کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا تھے اور 87 برس کی عمر میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔
ان کا آبائی تعلق جلگاؤں (خاندیش) سے تھا جہاں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔پس ماندگان میں بیوہ ریحانہ قادری (موظف معلمہ، بی ایم سی)، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ ان کے قریبی عزیزان میر کاظم علی، میر ناظم علی، اور میر مشرف علی سماجی و سیاسی میدان میں سرگرم خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ادبی، لسانی، صحافتی اور فکری حلقے اس علمی شخصیت کے سانحۂ ارتحال پر غم زدہ اور ان کے علمی و قومی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔