مضامین
نالۂ مظلومانِ ارض مقدس





•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
┄─═✧═✧═✧═✧═─┄
دنیا کی آنکھیں کھلی ہیں، لیکن ضمیر بند ہیں۔ غزہ اس وقت ایک خونی ماتم گاہ کا منظر پیش کر رہا ہے جہاں انسانیت دم توڑ رہی ہے، اور ظلم کی دھند ہر منظر کو دھندلا کر رہی ہے۔ فضاؤں میں معصوموں کی چیخوں کی بازگشت ہے، زمین پر لاشوں کی چادر بچھی ہوئی ہے، اور فضا میں بارود کی بو انسان کی سانسوں میں گھل کر اُسے بے جان بنا رہی ہے۔ ہر گلی، ہر کوچہ، ہر چوراہا ایک ایسی کہانی سناتا ہے جو آنکھوں سے آنسو اور دل سے آہیں چھین لیتی ہے۔
غزہ کی وہ سڑکیں جو کل تک بچّوں کی قلقاریاں سننے کی عادی تھیں، آج ان پر زخم خوردہ جسموں کا بوجھ ہے۔ در و دیوار جو کل زندگی کی شہادت دیتے تھے، آج موت کی گواہی دے رہے ہیں۔ ہر طرف ملبہ ہے، ہر اینٹ کے نیچے ایک خواب دفن ہے، ہر دیوار کے پیچھے کوئی کہانی کراہ رہی ہے۔ بچّے جنہیں گڑیاں کھیلنی تھیں، آج وہ اپنے کھلونوں کی جگہ اپنے بھائیوں کی لاشیں اٹھانے پر مجبور ہیں۔ ماں کی گود، جو سکون کا مرکز ہوتی ہے، آج آنسوؤں کا سمندر ہے۔ بمباری کی وہ گونج جو ساری رات نہ تھمنے والی اذیت بن چکی ہے، ایک ایسی اذان ہے جو ہمیں جگانے نہیں، بلکہ جھنجھوڑنے کے لیے دی جا رہی ہے۔ یہ اذان دنیا کی بے حسی کے کانوں پر پڑنے والی صدائے احتجاج ہے۔ ہر گولی، ہر شیل، ہر ٹوٹا ہوا کھلونا، انسانیت کے چہرے پر ایک زخم ہے۔
اور ان زخموں سے ٹپکنے والا خون صرف غزہ کا نہیں، یہ انسانیت کا خون ہے۔ وہ انسانیت جسے ہم نے بین الاقوامی اجلاسوں، قراردادوں، اور اقوامِ متحدہ کی فائلوں میں دفن کر دیا ہے۔ خاموش تماشائیوں کی قطار طویل ہے، مگر ان کے چہرے پر شرمندگی کا کوئی عکس نہیں۔ وہ ٹی وی اسکرین پر تصاویر تو دیکھتے ہیں، مگر دل کے پردے پر ان کے اثرات ثبت نہیں ہوتے۔ غزہ آج صرف جغرافیہ نہیں، ایک استعارہ ہے—مزاحمت، مظلومیت اور دنیا کی بے حسی کا۔ یہ ایک ایسا نوحہ ہے جو نسلوں تک گونجے گا۔ اور اگر ہم نے آج بھی نہ سنا، تو شاید کل کوئی اور ہمیں سنے بغیر رو رہا ہوگا۔
"کوئی کسی کا نہیں” — یہ محض ایک مایوس کن کہاوت نہیں، بلکہ غزہ کی مٹی میں رچی ہوئی ایک صدیوں پرانی فریاد ہے۔ فلسطین کی دھڑکتی ہوئی دھرتی پر یہ جملہ زخم کی مانند چمکتا ہے، جہاں ہر سانس، ہر قدم، ہر خواب پر پہرہ ہے۔ غزہ، جو کبھی زیتون کے درختوں، سمندری ہواؤں اور بچّوں کی ہنسیوں سے معطر تھا، اب چیخوں، گرد، اور خاموش ماتم کی لپیٹ میں ہے۔ یہاں وقت تھم سا گیا ہے، اور امید جیسے شام ہوتے ہی دفن ہو جاتی ہے۔ فلسطینی عوام کی زندگی ایک مسلسل ہجرت ہے—کبھی زمینوں سے بے دخلی، کبھی شناخت سے محرومی، کبھی اپنے ہی آنگن میں اجنبیت کا سامنا۔ ان کے شب و روز پر تاریخ کی سیاہی چھائی ہوئی ہے، جہاں ہر نسل اپنے سے پہلی نسل کا دکھ وراثت میں لے کر پیدا ہوتی ہے۔
غزہ کی فضائیں اُن خوابوں کی خوشبو سے بوجھل ہیں جو کبھی روشن آنکھوں میں چمکتے تھے۔ مگر اب وہ خواب، راکھ میں بدل چکے ہیں۔ بچے، جن کے ہاتھوں میں کھلونے ہونے چاہیے تھے، اب ان ہاتھوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے جنازوں کا بوجھ ہے۔ ان کے قدم، جو میدانوں میں دوڑنے کے لیے بنے تھے، اب ملبے کے بیچ راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ وہ آنکھیں جو جگنو پکڑنے کا خواب دیکھا کرتی تھیں، آج ٹینکوں، ڈرونز، اور دھماکوں کی چمک سے خالی ہو چکی ہیں۔ ان کا قہقہہ اب ایک داستان ہے، جو صرف یادوں میں زندہ ہے۔ ان کی مسکراہٹ، جو کسی ماں کے دل کا چراغ ہوا کرتی تھی، اب کسی قبر پر اگنے والی گھاس کے جیسی خاموش ہو چکی ہے۔ کھیل کے میدان، جن کی مٹی میں خوشیوں کے قدموں کی خوشبو رچی ہوئی تھی، اب بارود سے آلودہ ہیں، اور وہاں صرف سناٹا کھیلتا ہے۔
غزہ کی گلیوں میں صرف جنگ نہیں ہو رہی، وہاں انسانیت کا قتل ہو رہا ہے۔ وہ دنیا جو انسانی حقوق کے نعرے لگاتی ہے، یہاں آ کر بہری ہو جاتی ہے۔ اقوامِ عالم کے اجلاسوں میں فلسطینی بچّوں کی لاشوں کو اعداد و شمار میں بدلا جاتا ہے۔ ان کے زخموں کو قراردادوں کی زبان میں لپیٹا جاتا ہے، اور پھر خاموشی کی چادر اوڑھ کر سب اپنے اپنے مفادات کی دنیا میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ ایک زمین کی داستان نہیں، یہ انسانیت کے ضمیر کا نوحہ ہے۔ "کوئی کسی کا نہیں” — یہ محاورہ غزہ کی فضاؤں میں صرف گونجتا نہیں، بلکہ چیختا ہے، تڑپتا ہے، اور ہم سب سے سوال کرتا ہے: کیا واقعی ہم کسی کے ہیں؟
وہ بچّے جو تنازعات کی دھواں دھار دنیا میں پیدا ہوئے، کبھی اس دنیا کی اصل رنگینیوں سے واقف ہی نہ ہو سکے۔ نہ ان کے کانوں نے تتلیوں کی نرم سرگوشیاں سنیں، نہ آنکھوں نے آسمان پر اڑتے پرندوں کی بے فکری کو سمجھا۔ ان کا پہلا لمس کسی ماں کی پُرامن لوری نہیں بلکہ کسی دھماکے کی تھرتھراتی گونج تھی۔ ان کی نیندوں کے سرہانے کہانیوں کی کتابیں نہیں، بلکہ ملبے کا وزن رکھا گیا۔ یہ وہ بچے ہیں جن کی زندگیوں کا لحاف خوف، ہجرت، اور جدائی کے بے رحم دھاگوں سے سلا ہوا ہے۔ ان کی معصوم مسکراہٹیں اُن بادلوں میں کہیں کھو گئیں جو کبھی ان کے سروں پر بارش کی امید لے کر آتے تھے، مگر اب بم برساتے ہیں۔ ان کے جھولے، جو شاخوں سے بندھے ہوا کرتے تھے، اب گولیوں کے شور میں گم ہو چکے ہیں۔ ان کے قدموں کو وہ مٹی نصیب نہیں جو سکون دے، بلکہ وہ مٹی ہے جو ہر روز کسی نئے جنازے کا بوجھ سہتی ہے۔
ان کے خواب، جو کبھی اسکول، دوستوں، رنگین کتابوں، اور نئی دنیاؤں کے خواب ہوتے تھے، اب صرف ایک چیز کے گرد گھومتے ہیں—بچ جانا۔ اُن کے چہرے جو کبھی روشنی کی طرف اٹھتے تھے، اب سوال بن کر اندھیروں میں گم ہو چکے ہیں: "کیا ہمیں جینے کا حق نہیں؟”۔ ان کی ہنسی اب ہوا میں گھلنے والی ایک نازک صدا ہے، جو ہر لمحہ چکنا چور ہونے کے خطرے میں ہے۔ ان کے خوابوں پر تنازع نے ایسی گرد ڈال دی ہے جو نہ آنکھوں سے جھڑتی ہے، نہ دل سے۔ ان کا بچپن، جو عام طور پر ایک نعمت ہوتا ہے، یہاں ایک بوجھ ہے، ایک اذیت، ایک جنگی زخم کی طرح ہمہ وقت ہرا۔
ان کی تصاویر—کبھی آنکھوں میں خالی پن، کبھی ملبے کے نیچے دبی ہوئی سانسیں، کبھی لرزتے ہاتھوں سے گڑیا تھامے بچی، کبھی کسی ویران گلی میں اکیلا کھڑا بچّہ—یہ سب انسانیت کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ یہ یاد دلاتے ہیں کہ جنگ صرف ہتھیاروں کی ہار جیت نہیں، یہ بچّپنوں کا قتل ہے، خوابوں کی چتا ہے، مستقبل کا سلب کیا جانا ہے۔ یہ بچّے صرف ہمدردی نہیں، انصاف کے طالب ہیں۔ وہ کوئی اور دنیا نہیں مانگتے—بس وہی دنیا جس میں بچّپن محفوظ ہو، نیند پُرسکون ہو، اور زندگی خوف سے آزاد ہو۔ مگر کیا ہم اُنہیں یہ دنیا دے سکتے ہیں؟ یا پھر اُن کے خواب، اُن کے ہاتھوں سے چھین کر، ہم صرف خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟
دنیا کی یہ مہیب خاموشی… صرف ایک خالی ردعمل نہیں، بلکہ ایک اجتماعی قبر ہے جس میں ہماری انسانیت دفن ہوتی جا رہی ہے۔ یہ خاموشی شور سے زیادہ خوفناک ہے، کیونکہ یہ صرف لبوں کی چپ نہیں، بلکہ ضمیر کی موت ہے۔ غزہ جل رہا ہے، فلسطین نوحہ کناں ہے، بچّے چیخ رہے ہیں، مائیں بین کر رہی ہیں، اور ہم… ہم اپنے آرام دہ کمروں میں بیٹھے صرف سکرینوں پر خون دیکھتے ہیں، اور پھر چشم پوشی کا بٹن دبا کر اگلی تصویر پر سوئپ کر دیتے ہیں۔
یہ چپ… صرف بے حسی کی علامت نہیں، بلکہ ہماری بزدلی کا عکس ہے۔ یہ اس خوف کی دھند ہے جو ہمیں سچ بولنے سے، ظالم کو للکارنے سے، اور اپنے ضمیر کو جگانے سے روکتی ہے۔ ہمیں اپنی آسانیاں عزیز ہیں، اپنے مفادات کی سلامتی مقدم ہے، اپنے دائرۂ آرام کا بکھرنا گوارا نہیں، چاہے کسی اور کی دنیا راکھ ہو جائے۔ ہم انصاف، مساوات، انسانی حقوق کی باتیں بڑے فخر سے کرتے ہیں—تقاریر میں، نصاب میں، اقوام متحدہ کے ایوانوں میں۔ مگر جب ان اصولوں کو عمل کی زمین پر اتارنے کا وقت آتا ہے، تو ہم یا تو مصلحت کی اوٹ میں چھپ جاتے ہیں یا خود ساختہ غیر جانبداری کے قلعے میں محصور ہو جاتے ہیں۔
یہی خاموشی ہے جو ظالم کو شہ دیتی ہے، یہی لاتعلقی ہے جو مظلوم کی آخری امید بھی چھین لیتی ہے۔ اور یہی منافقت ہے جو ہماری اخلاقی دیواروں میں دیمک کی طرح گھر کر چکی ہے۔ ہم اس ظلم پر تب بھی خاموش رہے جب دھواں بچّوں کے پھیپھڑوں میں اترا، جب خوراک سے بھری گاڑیاں بارودی سرنگوں پر لوٹ آئیں، جب اسکول کے بستے خون سے رنگ گئے، اور جب زندگی کا ہر رنگ سرخ ہو گیا۔ ہم کہتے ہیں: "ہم کیا کر سکتے ہیں؟”۔ مگر یہ سوال دراصل ہماری بے عملی کا پردہ ہے۔ کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کچھ کر سکتے تھے—آواز اٹھا سکتے تھے، احتجاج کر سکتے تھے، لکھ سکتے تھے، بول سکتے تھے، اور سب سے بڑھ کر، ضمیر کو زندہ رکھ سکتے تھے۔
ہماری خاموشی صرف ایک ردعمل کی کمی نہیں، بلکہ ایک تہذیبی اور اخلاقی سانحہ ہے۔ ایک ننگی حقیقت کہ ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں درد کی سب سے بڑی سزا نظر اندازی ہے۔ ہم نے مظلوموں کے دکھوں کو فیشن کی طرح دیکھنا سیکھ لیا ہے، اور پھر اس کا رجحان ختم ہونے پر اُسے بھلا دینا بھی۔ یہ خاموشی فقط ایک لمحے کی بزدلی نہیں، یہ مستقبل کے ہر سوال کا سامنا نہ کر سکنے کی کمزوری ہے۔ اور شاید آنے والے وقت میں جب ہماری نسلیں ہم سے پوچھیں گی: "جب دنیا جل رہی تھی، تو تم کہاں تھے؟”۔ تو ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہ ہو گا—سوائے اس شرمندگی کے کہ ہم خاموش تھے۔
ہر دن ایک نیا زخم لے کر طلوع ہوتا ہے۔ خبریں، جو کبھی ترقی اور خوشحالی کی نوید ہوا کرتی تھیں، اب صرف ملبے، خون، اور ماتم کی داستانیں سناتی ہیں۔ ہر رپورٹ ایک نئی چیخ ہے، جو ہمارے اجتماعی ضمیر کے دروازے پر دستک دیتی ہے۔ لیکن دروازہ یا تو بند ہے یا اس کے پیچھے خاموشی کی دبیز تہہ جمی ہوئی ہے۔ غزہ، وہ خطہ جو کبھی ساحلِ عشق پر آباد ایک حسین خواب تھا، آج ایک بھیانک بیداری بن چکا ہے۔ ہر لمحہ، ہر سانس، ایک نئی آزمائش کا پیغام لاتی ہے۔ تباہ شدہ عمارتوں، راکھ میں بدل چکی بستیوں، اور موت کے سائے میں کھیلتے بچّوں کی تصویریں ہمارے سامنے آتی ہیں—اور ہم… ہم صرف "تشویش” کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم دعائیں کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگز چلاتے ہیں، مگر حقیقت میں ہم خالی الفاظ کے سپاہی بن چکے ہیں، جن کے ہاتھوں میں عمل کی تلوار نہیں، صرف ہمدردی کی چادر ہے—جو گرمی تو دیتی ہے، مگر ظلم سے بچا نہیں سکتی۔
سوال یہ ہے؟ کیا صرف الفاظ… ان دلوں کو جو ملبے تلے دب چکے ہیں، پھر سے دھڑکنے پر آمادہ کر سکتے ہیں؟ کیا صرف اشک… ان آنکھوں سے امید کے سپنے پھر سے دکھا سکتے ہیں جنہوں نے صرف آگ اور بارود کی روشنی دیکھی ہے؟ کیا صرف دعائیں… اس زمیں پر امن لا سکتی ہیں جس کے آسمان پر ہر پل ڈرون کی پرچھائیاں منڈلاتی ہیں؟ نہیں… ہمیں اس مصلحت زدہ خاموشی سے نکلنا ہوگا۔ ہمیں صرف "تشویش” سے آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ وقت ہے جب ہمیں محض نرمی سے "دیکھنے” کے بجائے، سختی سے "کہنے” اور جرات سے "کرنے” کی ضرورت ہے۔ ہمیں جوابدہی کا مطالبہ کرنا ہوگا، ان ہاتھوں کو روکنا ہو گا جو بم گراتے ہیں، ان زبانی معاہدوں کو زندہ کرنا ہوگا جو امن کے نام پر دفن ہو چکے ہیں۔ یہ صرف سیاست نہیں ہے، یہ صرف سرحدوں کا جھگڑا نہیں ہے، یہ انسانیت کی نبض پر رکھا ہوا ایک کانپتا ہوا ہاتھ ہے۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جو اگر آج نہ بھرا گیا، تو کل پوری انسانیت کو اندر سے کھوکھلا کر دے گا۔
غزہ کے بچّے، مائیں، بوڑھے، نوجوان—سب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، نہ صرف مدد کے لیے، بلکہ اس یقین کے لیے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ ہمارے نعرے، ہمارے کلمات اگر عمل کی زمین پر نہ اتریں، تو وہ صرف ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے، جیسے ہر گولی کے بعد امن کی کوششیں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ ہمیں بولنا ہوگا، لکھنا ہوگا، چلنا ہوگا، کھڑا ہونا ہوگا۔ غزہ کے لوگوں کے ساتھ، ان کے حق کے ساتھ، ان کے درد کے ساتھ۔ کیونکہ یہ جنگ صرف ان کی نہیں، یہ جنگ انسانیت کی بقاء کی جنگ ہے۔ اگر ہم آج خاموش رہے تو کل یہ خاموشی ہماری شناخت چھین لے گی۔ ہم سب جُڑے ہوئے ہیں—ایک کا دکھ، سب کا دکھ ہے۔ اور اگر ہم واقعی انسان ہیں، تو ہمیں یہ دکھ محسوس بھی کرنا ہوگا، اور اس کے خلاف کھڑا بھی ہونا ہوگا۔

