مضامین

نفرت کی سیاست اور ہجومی تشدّد ایک فکری و اخلاقی زوال

     ✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
               📱09422724040
         •┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
            ┄─═✧═✧═✧═✧═─┄
 (حصّہ اوّل)
ہجومی تشدّد (Mob Lynching) عصرِ حاضر کا ایک نہایت سنگین اور افسوسناک مسئلہ بن چکا ہے، جس میں مشتعل ہجوم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر کسی فرد یا گروہ (خصوصاً مسلمانوں) کو محض مذہب، نسل، ذات یا کسی بے بنیاد الزام کی بنیاد پر ظلم و تشدّد کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ ایک ایسا غیر قانونی اور غیر انسانی عمل ہے جس میں عدالتی کارروائی کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف الزامات کی بنیاد پر خودساختہ سزا دی جاتی ہے۔ ہجومی تشدّد محض ایک مجرمانہ عمل نہیں، بلکہ معاشرتی انارکی، قانونی بے توقیری، اور اخلاقی زوال کا آئینہ دار ہے۔ اسلام نے فرد، معاشرہ اور ریاست تینوں سطحوں پر عدل، رواداری اور قانون کی بالا دستی کو لازم قرار دیا ہے۔ نبی کریمﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی زندگیاں اس تعلیم کی عملی تصویر ہیں۔
بھارت جیسے جمہوری ملک میں حالیہ برسوں کے دوران اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں، کے خلاف ہجومی تشدّد کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس، دورِ نبویؐ میں رسول اللّٰہﷺ نے ایسے طرزِ عمل کو نہ صرف سختی سے روکا بلکہ عدل، رحم اور قانون کی بالا دستی کو ہر حال میں یقینی بنایا۔ ہجومی تشدّد نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، بلکہ شریعتِ اسلامیہ کی روح کے بھی سراسر منافی ہے۔ اس کی مذمت صرف جدید قانونی نظام ہی نہیں کرتا، بلکہ اسلام کے ابتدائی ادوار، خاص طور پر دورِ صحابۂ کرامؓ میں بھی اس طرزِ عمل کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
رسول اللّٰہﷺ نے مدینہ میں جو اسلامی ریاست قائم کی، وہ عدل، مساوات، اور رحم کی بنیاد پر تھی۔ آپؐ نے فرمایا: "اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرتی، تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا”۔ (صحیح بخاری)۔ یہ فرمان اس بات کا اعلان تھا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، اور کسی فرد یا گروہ کو بھی اپنی مرضی سے کسی پر ظلم یا سزا دینے کا حق نہیں۔ دورِ نبویؐ میں کسی مجرم کو صرف الزام کی بنیاد پر سزا نہیں دی جاتی تھی۔ ہر معاملے میں شہادت، تحقیق، اور عادلانہ سماعت کا اصول نافذ ہوتا۔ اگر کسی پر زنا، چوری، یا قتل کا الزام لگایا جاتا تو اسے عدالت میں پیش کیا جاتا، اور گواہوں، شواہد، اور ملزم کے بیان کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا۔
ایک مثال مشہور ہے کہ جب ایک صحابی نے ایک شخص کو قتل کر دیا حالانکہ اس نے "لا الٰہ الا اللّٰہ” پڑھ لیا تھا، تو رسول اللّٰہﷺ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا: "کیا تم نے اس کا دل چاک کر کے دیکھا تھا؟”۔ (صحیح مسلم)۔ یہ مثال بتاتی ہے کہ اسلام میں کسی کے عقیدے، نیت، یا عمل پر شک کر کے بھی اسے سزا دینا ناجائز ہے، چہ جائیکہ بھیڑ کے ہاتھوں قتل۔ رسول اللّٰہﷺ نے ایسا معاشرہ تشکیل دیا جہاں لوگ محفوظ محسوس کریں، نہ کہ اقلیتیں خوف و ہراس میں زندگی گزاریں۔ معاہدۂ مدینہ میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ یہود و نصاریٰ اور دیگر اقلیتوں کو مساوی شہری حقوق حاصل ہوں گے۔
اسلام میں کسی بھی انسان کو بغیر عدالتی کارروائی کے سزا دینا حد درجہ ناجائز ہے۔ ہجومی تشدّد دراصل ظلم و زیادتی ہے۔ قرآن کی تعلیمات (عدل و احسان) کے خلاف ہے۔ نبی کریمﷺ کی سنّت کے منافی ہے۔ معاشرے کو انتشار، خوف اور نفرت کی طرف دھکیلتا ہے۔ دورِ نبویؐ ایک روشن مثال ہے کہ کیسے انصاف، قانون اور رحم کو بنیاد بنا کر ایک پُرامن معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہجومی تشدّد جیسے غیر انسانی عمل کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو اپنائیں، عدالتی نظام کو مضبوط کریں، اور معاشرے میں برداشت، انصاف، اور انسانی احترام کو فروغ دیں۔
خلفائے راشدینؓ کے دور میں انصاف اور قانون کی پاسداری کو اوّلین ترجیح دی جاتی تھی۔ حضرت عمرؓ بن خطاب کا مشہور قول ہے: "لوگ اس وقت تک باوقار رہتے ہیں جب تک وہ قانون کے تابع ہوں”۔ کسی کے خلاف محض شک یا الزام کی بنیاد پر سزا دینے کا تصور بھی نہ تھا، بلکہ پورا عدالتی نظام موجود تھا جو گواہوں، شواہد اور تفتیش پر مبنی فیصلے کرتا تھا۔ اسلامی نظام میں سزا دینے کا اختیار صرف قاضی یا خلیفہ کو تھا۔ حضرت علیؓ کا واقعہ مشہور ہے جب انہوں نے ایک یہودی سے زرہ کے جھگڑے میں قاضی کے سامنے مقدمہ پیش کیا، حالانکہ وہ خلیفہ تھے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر تھا، اور کسی کو اپنی حیثیت یا غصّے کی بنیاد پر قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ تھی۔
صحابہؓ کے دور میں فتنہ انگیزی یا افواہوں کی اشاعت کرنے والوں کے خلاف عدالتی کارروائی ہوتی تھی، لیکن کسی بھی مجرم کو عوامی بھیڑ کے حوالے نہیں کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ خارجیوں جیسے باغی گروہ کے ساتھ بھی، جب تک وہ مسلح جدوجہد نہ کریں، جنگ کی اجازت نہیں دی گئی۔ صحابۂ کرامؓ کے دور میں غیر مسلم رعایا (ذمیوں) کے ساتھ مکمل عدل اور انصاف کا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: "اگر کسی مسلمان نے کسی ذمی کو ناحق قتل کیا تو میں اس مسلمان کو قتل کر دوں گا”۔ یہ اعلان دراصل ہجومی تشدّد کے امکان کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے تھا۔
صحابۂ کرامؓ کی زندگیاں برداشت، رواداری اور صبر کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ ان کے نزدیک ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں بلکہ عدل سے دیا جاتا تھا۔ دورِ صحابہؓ میں ہجومی تشدّد جیسا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ ان کے دور میں قانون ہاتھ میں لینا جرم تھا۔ فیصلہ قاضی یا خلیفہ کے ذریعے ہوتا۔ مظلوم کی فوری داد رسی کی جاتی۔ اقلیتوں کو مکمل تحفّظ دیا جاتا۔ آج کے معاشروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحابۂ کرامؓ کی سنّت، عدل کی پاسداری، اور معاشرتی امن کے اصولوں کو اپنائیں اور ہجومی تشدّد جیسے جاہلانہ عمل سے مکمل اجتناب کریں۔
اسلام کے ابتدائی دور، خصوصاً دورِ صحابہؓ میں ہجومی تشدّد کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ صحابہ کرامؓ کی زندگی اور طرزِ حکومت میں عدل، قانون کی پاسداری، اور انسانی احترام بنیادی اصول تھے۔ تاہم، ہم تاریخ میں چند ایسے مواقع دیکھتے ہیں جہاں ہجوم کے مشتعل ہونے یا جذبات کے بھڑکنے کا اندیشہ پیدا ہوا، مگر ان مواقع پر صحابہؓ اور خلفائے راشدینؓ نے جس حکمت و تدبر، قانون پسندی، اور اخلاقی برتری کا مظاہرہ کیا، وہ آج کے معاشروں کے لیے قابلِ تقلید مثال ہے۔
منافقین کے سردار عبداللّٰہ بن ابی نے غزوۂ بنی المصطلق کے موقع پر رسول اللّٰہﷺ اور مہاجرین کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔ صحابہ کرامؓ میں شدید غم و غصّہ پیدا ہوا اور بعض نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی، مگر نبی کریمؐ نے منع فرما دیا، اور فرمایا: "ایسا نہ ہو کہ لوگ کہیں محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کر رہے ہیں”۔ یہ رویہ اسلام کے عدالتی اور قانونی اصولوں کو ہجومی ردّعمل پر ترجیح دینے کی واضح دلیل ہے۔ جب حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے نے ایک قبطی (غیر مسلم مصری) کو ناحق کوڑے مارے تو قبطی نے مدینہ آ کر حضرت عمرؓ سے شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے مظلوم کو انصاف دلایا اور مجرم کو قبطی سے بدلہ دلوایا۔ یہاں اگرچہ ہجوم نہیں تھا، لیکن اگر حضرت عمرؓ چاہتے تو عوامی اشتعال کو بڑھا سکتے تھے، مگر انہوں نے قانون کی بالادستی کو فوقیت دی۔
حضرت عثمانؓ کے خلاف جب ایک ہجوم نے مدینہ میں بغاوت کی اور ان کے گھر کا محاصرہ کیا تو کئی صحابہؓ نے ان کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانے کی پیشکش کی۔ مگر حضرت عثمانؓ نے امت کے خون سے بچنے کے لیے کسی کو لڑنے کی اجازت نہ دی اور خود جامِ شہادت نوش کیا، تاکہ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی نہ ہو۔ یہ رواداری، ضبط اور ہجوم کے خلاف مزاحمت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ خارجی فرقہ حضرت علیؓ کے خلاف شدید مخالفت پر اتر آیا تھا۔ ان کی تکفیر کرتا، زبان درازی کرتا، اور اجتماع میں خلل ڈالتا۔ اس کے باوجود حضرت علیؓ نے فرمایا: "جب تک وہ ہم سے جنگ نہ کریں، ہم ان سے جنگ نہ کریں گے”۔ یہ قول ایک نظریہ ہے کہ اظہارِ رائے، اختلاف اور حتیٰ کہ بدزبانی کے باوجود، ہجوم کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے۔
صحابہ کرامؓ نے کسی بھی موقع پر ہجومی تشدّد کو نہ صرف فروغ نہیں دیا بلکہ جہاں بھی اس کا امکان پیدا ہوا، اسے عقل، قانون اور عدل کے ذریعے روکا۔ ان کے طرزِ عمل سے یہ اصول اخذ ہوتے ہیں۔ قانون ہمیشہ فرد یا ہجوم کے جذبات پر مقدم ہے۔ انصاف کے لیے ادارہ جاتی نظام ضروری ہے۔ ذاتی یا مذہبی اختلاف کی بنیاد پر تشدّد روا نہیں۔ اقلیتوں اور مخالفین کے حقوق کا تحفّظ لازم ہے۔ آج کے مسلم معاشروں، بالخصوص بھارت جیسے کثیر مذہبی ملک میں، صحابہ کرامؓ کی یہ روش ایک عملی رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ ہجومی تشدّد جیسے غیر اسلامی رجحانات سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ خلفائے راشدینؓ نے ذاتی دشمنی، عوامی اشتعال یا مذہبی اختلاف کی بنیاد پر کبھی کسی فرد کو مجمع کے حوالے نہیں کیا۔ اسلامی معاشرے کا بنیادی اصول یہی تھا کہ سزا صرف عدالتی فیصلے کے بعد ہی دی جا سکتی ہے۔
            ┄─═✧═✧═✧═✧═─┄
(حصّہ دوّم)
دورِ نبویﷺ کا ابتدائی مکّی زمانہ، تاریخِ انسانیت کا وہ باب ہے جو ایمان، صبر اور استقامت کی بے مثال داستانوں سے لبریز ہے۔ یہ وہ دور تھا جب توحید کا چراغ ایک تاریک معاشرے میں روشن ہوا، تو ظلم و جبر کی آندھیاں اسے بجھانے پر تُل گئیں۔ اہلِ مکّہ، جو اپنے بتوں کی پوجا میں ڈوبے ہوئے تھے، اسلام کی صدا کو اپنے باطل عقائد کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ چنانچہ کفار و مشرکین کی جانب سے اہلِ ایمان پر انفرادی اذیتوں سے لے کر ہجومی تشدّد تک کا ایک طویل، دردناک سلسلہ شروع ہوا۔
ابتدائی مسلمانوں کی فہرست میں وہ نفوسِ قدسیہ شامل تھے جنہوں نے حق کی آواز پر لبیک کہا، مگر اس کی قیمت اذیتوں، زخموں اور قربانیوں کی صورت میں چکائی۔ حضرت بلال حبشیؓ جن کی زبان سے "احد، احد” کی صدائیں صحرا کے ذروں تک کو ہلا دیتی تھیں کو تپتے ہوئے پتھروں پر لٹایا گیا، صرف اس جرم میں کہ وہ ایک اللّٰہ کی گواہی دیتے تھے۔ حضرت خباب بن ارتؓ، جن کی پیٹھ پر دہکتے انگارے رکھے جاتے اور ان پر لوہے کی گرم سلاخیں داغی جاتیں، مگر اُن کا عزم نہ ڈگمگایا، نہ دل میں شکوہ آیا۔
اسلام کی پہلی شہیدہ، حضرت سمیہؓ، ایک کمزور عورت ہوتے ہوئے بھی ظلم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔ اُنہیں برہنہ تلواروں کے سائے میں شہید کیا گیا، اور اُن کے شوہر حضرت یاسرؓ نے بھی حق کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ صرف انفرادی مظالم نہ تھے، بلکہ اجتماعی ظلم و استحصال بھی اپنی انتہا کو پہنچا۔ اہلِ مکّہ نے رسولِ اکرمﷺ اور آپ کے خاندان بنو ہاشم کے خلاف مکمل سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ نافذ کیا۔ شعبِ ابی طالب میں تین سال کا وہ محصور زمانہ آج بھی تاریخ کا ایک سہماتا ہوا لمحہ ہے، جب نبی کریمﷺ، حضرت ابو طالب، حضرت خدیجہؓ اور دیگر مخلصین فاقوں، بیماریوں اور محرومیوں کا سامنا کرتے رہے، مگر ان کے قدم کبھی لڑکھڑائے نہیں۔
یہ مظالم محض وقتی ردِعمل نہ تھے، بلکہ ایک نظریے، ایک انقلاب اور ایک نئے فکری نظام کے خلاف شدّت پسندی کا بھرپور اظہار تھے۔ کفار کو یہ گوارا نہ تھا کہ انسان کو آزاد کر کے ایک خدا کے سامنے جھکایا جائے؛ چنانچہ وہ ظلم و جبر کے ہر ہتھکنڈے کو آزمانے پر آمادہ تھے۔ مگر یہ دردناک باب، درحقیقت اسلام کی حقانیت، اہلِ ایمان کی استقامت، اور نبی رحمتﷺ کی قیادت و تربیت کا وہ روشن مینار ہے، جس سے آج بھی روشنی پھوٹتی ہے، اور جو آنے والے ہر دور کے مظلوموں اور حق پرستوں کے لیے حوصلے کا پیغام بن کر چمکتا ہے۔
دورِ نبویﷺ کا مکی عہد، جہاں وحی کی پہلی کرنیں زمین پر اتریں، ایک ایسا زمانہ تھا جب اہلِ ایمان کو صرف اس بات پر نشانہ بنایا گیا کہ اُنہوں نے "اللّٰہ وحدہٗ لا شریک” کی صدا بلند کی۔ یہ صدا بتوں کے ایوانوں میں زلزلہ بن کر گونجی، اور ظلم و ستم کی چکی اُن پاکیزہ روحوں پر چلنے لگی جو رسولِ رحمتﷺ کے دامنِ محبت سے وابستہ ہوئے۔ جب بھی کوئی مسلمان خانہ کعبہ کے سائے میں سجدہ ریز ہوتا، تو مشرکین کے چہروں پر غیظ و غضب کی لکیریں اُبھرتیں۔ ایک ہجوم گرد آتا، اور طعن و تشنیع، گالیوں، اور مار دھاڑ کا طوفان اُس پر ٹوٹ پڑتا۔ کوئی خاک اُڑاتا، کوئی پتھر مارتا، اور کوئی تلوار کی نوک پر توحید کے چراغ کو بجھانے کی ناکام کوشش کرتا۔ ایمان کا ہر مظاہرہ، اُن کے لیے ایک ناقابلِ برداشت جرم بن چکا تھا۔
تبلیغ و ترویج کا کام، جو انسانوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کا مشن تھا، ہجومی تشدّد کی نذر ہونے لگا۔ رسولِ اکرمﷺ جب بھی حق کی دعوت دیتے، کفار کی جماعت اکٹھی ہو جاتی، کوئی آوازیں کستا، کوئی راہ میں کانٹے بچھاتا، کوئی گستاخانہ کلمات کہتا۔ یہ محض فرداً فرداً مظالم نہ تھے، بلکہ منظم گروہی زیادتی کا سلسلہ تھا، جس کا مقصد ایک ابھرتی ہوئی روشنی کو گُل کرنا تھا۔ جب ظلم و جبر حد سے تجاوز کر گیا، تو محبوبِ کبریاﷺ نے اپنے مظلوم پیرو کاروں کو سر زمینِ حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا، جہاں انصاف پسند بادشاہ نجاشی نے انہیں پناہ دی۔ یہ پہلی ہجرت تھی، جو دینِ اسلام کے پیرو کاروں نے صرف اپنے ایمان کو بچانے کے لیے کی۔ بعد ازاں، مدینہ منورہ کی سر زمین وہ پُرامن آغوش بنی، جہاں نبی کریمﷺ نے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی، اور ظلم کے شکار قافلے کو ایک آزاد فضا نصیب ہوئی۔
مگر مشرکینِ مکّہ کی عداوت کا زہر وہاں بھی پیچھا کرتا رہا۔ وہ جنگ کے لباس میں اسلام کے خلاف صف آرا ہوئے—بدر کی تلواریں، اُحد کی زخم خوردہ وادی، اور خندق کے محاصرہ زدہ دن، سب اِسی تسلسل کی کڑیاں تھے۔ مگر اب حالات بدل چکے تھے۔ اب مظلوموں کے ہاتھ میں دفاع کی تلوار تھی، اور اُن کی پشت پر اللّٰہ ربّ العزت کی نصرت کا وعدہ۔ یوں مکّہ کی گلیوں میں بہایا جانے والا آنسو، مدینہ کی فضا میں ایک خوشبو بن کر بکھر گیا۔ ظلم و ستم کے سائے، بالآخر اس نور سے ماند پڑ گئے، جو رسولِ اکرمﷺ کی رہنمائی اور اہلِ ایمان کی قربانیوں سے روشن ہوا تھا۔
جب انسان کے دل سے دین کا چراغ بجھ جاتا ہے، تو اس کی سوچ کا افق تاریک ہو جاتا ہے۔ اس کی عقل، جو کبھی روشنی کا مینار تھی، اب دھندلکوں میں گم ہو جاتی ہے۔ روحانی ربط سے محروم انسان گویا ایک ایسے پیڑ کی مانند ہو جاتا ہے، جس کی جڑیں سوکھ چکی ہوں اور جو کسی بھی لمحے تیز ہوا کی زد میں آ کر زمین بوس ہو سکتا ہے۔ اس کا ضمیر، جو حق و باطل میں تمیز کرنے والا ایک زندہ حس ہوتا ہے، خاموشی کی قبر میں دفن ہو جاتا ہے۔ قوتِ ارادی، جو کبھی اس کی راہنمائی کرتی تھی، پژمردہ ہو کر دم توڑ دیتی ہے۔ پھر نہ وہ سچائی کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتا ہے، نہ باطل کے خلاف اٹھنے کا حوصلہ۔
آج کے مسلمانوں کی سب سے بڑی آزمائش یہی ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر طرف افراط و تفریط کا بازار گرم ہے، اور حق کی آواز دبائی جا رہی ہے۔ ان حالات میں سب سے بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے دلوں میں دین کی چنگاری دوبارہ روشن کی جائے۔ ان کے اندر وہ ایمان پیدا کیا جائے جو حضرت بلالؓ کو سنگینوں کے سائے میں "احد، احد” کہنے پر آمادہ کرتا تھا، وہ استقامت جو امام حسینؓ کو نیزوں کے سامنے بھی جھکنے نہ دے سکی۔
مسلمانوں کے درمیان آپسی اتحاد و اتفاق وقت کی سب سے اہم پکار ہے۔ فرقہ واریت، ذات پات، اور زبان و علاقہ کے نام پر بانٹنے والے عناصر صرف اسی وقت شکست کھا سکتے ہیں جب مسلمان اپنے اصل مقصدِ حیات کو پہچانیں۔ ہمیں ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہوگا جہاں ہر ہم اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر ملت کی خیر خواہی کے جذبے سے سرشار ہو۔ جہاں ہر دل میں اُمت کے درد کی رمق ہو، اور ہر آنکھ اُمت کی تقدیر بدلنے کے خواب سے نمناک ہو۔
اگر ہم نے یہ نہ کیا، اگر ہم نے امت کے افراد کو تیار نہ کیا، تو یاد رکھئے، "موب لنچنگ” کا یہ خون آشام عفریت صرف ایک طبقے یا فرد کا دشمن نہیں، بلکہ انسانیت کا دشمن ہے۔ وہ ایک ایک کر کے سب کو نگلتا چلا جائے گا۔ آج وہ کسی اور کی باری ہے، کل وہ ہمارے دروازے پر دستک دے گا۔ پس اے اہلِ فکر! اے علم و شعور کے پیکرو! اٹھو، مسلمانوں کو جگاؤ، ان کے دلوں میں ایمان، اتحاد، اور قربانی کی وہ شمع روشن کرو جو صدیوں سے ظلمتوں کو چیرتی چلی آئی ہے۔ ورنہ تاریخ ہم سے سوال کرے گی… اور ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔
آج جب دنیا ظلم، خوف اور ناانصافی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبی ہے، ہمیں پھر اسی مدنی ریاست کے روشن چراغوں سے روشنی حاصل کرنا ہوگی جہاں رحم، عدل اور انسان دوستی، ہر قانون کی بنیاد تھی۔ آئیے! ہم عہد کریں کہ نفرت کی جگہ محبت، ظلم کی جگہ انصاف، اور بھیڑ کی جگہ قانون و انسانیت کو ترجیح دیں گے۔
    🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!