نورِ فاطمہ نے روشن کیا “خانوادۂ منیار” کا مینارِ فخر
صدرِ جمہوریہ ہند دروپدی مرمو کے دستِ مبارک سے پایا قومی اعزاز.

عقیل خان بیاولی، جلگاؤں
بعض نام صرف فرد کا حوالہ نہیں ہوتے، بلکہ وہ ایک تہذیب، ایک روایت اور ایک مستقبل کی علامت بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تابندہ نام آج شیخ نور فاطمہ بنت شکیل روشن منیار کا ہے، جنہوں نے اپنے علم، ہنر اور کردار سے پورے خاندیش کو سر بلند کیا اور “خانوادۂ منیار” کے نام کو قومی سطح پر فخر کے مینار سے وابستہ کر دیا۔
ضلع جلگاؤں کے شہر بھُوساول سے تعلق رکھنے والی اس ہونہار طالبہ نے نہ صرف اپنی مادر علمی “ایم آئی تیلی انگلش ہائی اسکول” کا نام روشن کیا بلکہ اپنے پورے خاندان، ادارہ اور برادری کو بھی عزت و وقار کا احساس عطا کیا۔ ملک گیر سطح پر منعقدہ ٹاٹا بلڈنگ انڈیا گروپ کے بین اللسانی مضمون نویسی مقابلے میں ملک کی 13 بڑی زبانوں میں تحریری شرکت کرنے والے سینکڑوں باصلاحیت طلبہ میں سے نور فاطمہ نے انگریزی زبان میں اول پوزیشن حاصل کر کے ایک سنہرے باب کا اضافہ کیا۔اس کا موضوع تھا
: “From Waste to Worth”
یعنی ناکارہ سے کارآمد کی تخلیق ۔ ایک ایسا موضوع جس پر سوچ، تحقیق، اور تخلیق کا امتزاج درکار ہوتا ہے۔ نور فاطمہ نے اپنے مضمون میں ماحولیاتی تحفظ، بڑھتی ہوئی آلودگی، کچرے کے مؤثر استعمال اور پائیدار طرزِ زندگی جیسے عصری موضوعات کو نہایت مربوط اور علمی انداز میں پیش کیا۔ ان کی تحریر نہ صرف فکری سطح پر بلند تھی بلکہ اس میں وہ معاشرتی درد، مشاہدہ اور حل کی جھلک بھی موجود تھی جو ایک باشعور طالبعلم کے قلم سے نکلتی ہے
یہ کارنامہ ایک انعام سے بڑھ کر ایک پیغام ہے کہ جب تعلیم، تخلیق اور تربیت ہم آہنگ ہوں تو “نور کی صورت” میں نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ اس کامیابی کو دہلی میں ایک شاندار تقریب میں صدرِ جمہوریہ ہند دروپدی مرمو نے خود اپنے دستِ مبارک سے پیش کیا۔ والدین، اساتذہ، اور اہم علمی شخصیات کی موجودگی میں یہ لمحہ نہ صرف تاریخی تھا بلکہ روح پرور بھی۔ خاندیش کا فخر، ادارہ کا وقار
یہ کامیابی پورے خاندیش کے لیے باعثِ مسرت بنی۔ ریاستی وزیر برائے ٹیکسٹائل، سنجے ساوکارے کی صدارت میں اسکول میں منعقدہ اعزازی تقریب میں این سی پی کے رہنما اعجاز ملک، اختر پنجاری، سابق کونسلر جلیل قریشی، صابر شیخ، ظفر شیخ سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ادارہ کے صدر الحاج منا تیلی، صدر مدرس واجد علی سید، اور اسکول انتظامیہ کمیٹی کے اراکین نے اساتذہ کرام اور طالبہ کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا۔ قابلِ ذکر ہے کہ اسی ادارہ کے سابق طلباء کو ماضی میں اے پی جے عبدالکلام اور پرنب مکھرجی جیسے عظیم شخصیات کے دستِ مبارک سے اعزازات مل چکے ہیں۔
بیٹی کی بلند پروازی , نئی نسل کی رہنمائی.
نور فاطمہ کی یہ کامیابی محض ایک ذاتی سنگ میل نہیں، بلکہ یہ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ ہماری بیٹیاں جب موقع، ماحول اور حوصلہ پاتی ہیں تو آسمان بھی ان کی بلندیوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔یہ دعا ہے کہ وہ نہ صرف علم کے میدان میں بلکہ دین، روحانیت، تصوف اور خدمتِ انسانیت کے راستے پر بھی اپنے بزرگوں کی میراث کی امین بنے رہیں۔خانوادۂ منیار کا یہ روشن چراغ آج قوم کے نوجوانوں کے لیے روشنی کا مینار بن چکا ہے۔
اللہ کرے، نور فاطمہ جیسے ہونہار طالبعلم، ہمارے سماج میں مثبت تبدیلی، شعور اور فخر کا سبب بنتے رہیں۔
آمین۔