شہر
وقف ترمیمی قانون مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی تشخص پر براہ راست حملہ۔ مولانا عمرین رحمانی۔
وقف ترمیمی قانون مسلمانوں کو ناقابل قبول۔ مولانا رفیع الدین اشرفی۔

ہندوستان کے مسلمانوں کی دینی شناخت کو ختم کرنا حکومت کا اصل مقصد۔ ضیاء الدین صدیقی۔
ناندیڑ میں تحفّظ اوقاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کمیٹی کے جلسہ عام سے مقررین کا خطاب۔
ناندیڑ:25/مئی:- ملت اسلامیہ کا جذبہ، حوصلہ اور یہاں پر موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ اوقاف کی حفاظت کی اس جدوجہد میں مسلمان کسی قیمت پر پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ اپنے دین وایمان پر عمل، اپنے حقوق کیلئے باطل کے خلاف ہرخوف وخطر سے بے نیاز ہوکر ہرقسم کی قربانی دی ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے لایا گیا یہ وقف ترمیمی قانون مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی تشخص پر راست حملہ ہے۔ اس طرح کا اِظہار خیال آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سيکریٹری مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب نے کیا۔ وہ ہفتہ کی شب ناندیڑ کے انوارالمساجد میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ایماء پر وقف ترمیمی قانون کے خلاف منعقدہ احتجاجی جلسہ عام سے مخاطب تھے۔
اس جلسہ عام میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رُکن مولانا رفیع الدین اشرفی صاحب، وحدت اسلامی کے صدر جناب ضیاء الدین صدیقی صاحب، ایس ڈی پی آئی کے محمد شفیع صاحب، مفتی وقایت اللہ خالد قاسمی، مولانا مظہر الحق قاسمی، دلت رہنماء و سماجی کارکن بھنتے پیاں بودھی، حافظ عبدالجبار صاحب، اِجلاس کے کنوینر مفتی ایوب قاسمی، مفتی محمد ہارون نظامی، حافظ سرور قاسمی، مولانا آصف ندوی، قاضی محمد رفیق، مفتی محبوب احسن قاسمی، مولانا وسیم حسینی ، مولانا مفتی سلیمان صاحب، مفتی شمس الدین صدّیقی، مولانا عثمان فیصل، ایڈوکیٹ ایم زیڈ صدّیقی و دیگر موجود تھے۔ مولانا محمد عمرین رحمانی صاحب نےا پنے خطاب میں حاضرین جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے کہاکہ آج کے ان مشکل حالات میں ہمیں ایک مرتبہ پھر اپنے عزم وعزیمت،ہمت کا ثبوت دینا پڑے گا۔افسوس اس بات کانہیں کہ لوگ ہم پرظالمانہ قوانین مسلط کررہے ہیں یا طرح طرح کی تدبیریں، مکروفریب کے جال بنے جارہے ہیں افسوس ہے تو اس بات کا ہے کہ ہمارے اندر سمع واطاعت کا جذبہ ہونا چاہیے،جس بیداری اور شعور ،جذبہ اقدام وعمل کے ساتھ پوری ملت کو ملت واحدہ بن کر دکھانا چاہیے ابھی وہ منظر ہماری نگاہوں سے دور ہے۔ اسی لئے کامیابی بھی ہمیں دورسے دیکھ رہی ہے۔جس دن آپ ملت واحدہ بن کر سیسہ پلائی ہوئی دیوارکی حیثیت اختیار کریں گے ، اس دن جتنے فتنے ہیں وہ اس دیوار سے سرٹکراکر پاش پاش ہوجائیں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر وہ جذبہ ، وہ احساس وشعور پیدا کریں ، ہم
اپنی قیادت پر وہ اعتماد پیداکریں۔

مولانا عمرین نے وقف ترمیمی قانون پر ملت کی بے توجہی پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن تم سے اور مجھ سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ تم نے کتنے معرکے لڑے اور کتنے جیتے ،بلکہ ہم سے یہ سوال ہوگا کہ جب شریعت پرآنچ آئی تب تم گھر میں بیٹھے تھےیا میدان میں کھڑے تھے۔سوال یہ ہوگا کہ جب وقت آن پڑاتھا اورآواز دی جارہی تھی تم کن لوگوں میں شامل تھے۔
آپ نے کہاکہ اللہ نے ہمیں نتیجے کا مکلف نہیں بنایا ہمیں اللہ نے محنت کا مکلف بنایا ہے، جدوجہد کا مکلف بنایا ہے آخری حد تک اپنے حقوق کے لیے لڑائی لڑنے کا مکلف بنایا ہے۔ ہم حوصلے، جذبے،عزم وعزیمت ،ہمت وبہادری کے ساتھ کھڑے رہیں گے اوریہ اعلان کریں گے کہ ہم کسی بھی قیمت پر ناانصافی اورظلم پر مبنی قانون کو قبول نہیں کریں گے نتیجہ چاہے جوہو،خدا کی بارگاہ میں سرخروئی ہمارا مقدر ہوگی۔
آخر میں مولانا عمرین نے کہاکہ ایسا نہیں ہے کہ ہم صرف علامتی احتجاج کرتے خاموش بیٹھ جائیں گے ،آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے 13 ؍جولائی تک ایک مرحلہ طے کیاہے جس کے تحت مختلف قسم کے اقدامات کیے جارہے ہیں جو یک کے بعد یک عمل میں لائے جارہے ہیں۔۱۳؍جولائی تک اگریہ معاملہ حل نہیں ہوتاہے تب اس کے بعد مسلمانوں کی تمام جماعتیں، مکاتب ،مسالک ،تنظیمیں ، مسلم پرسنل لا بورڈ کےا رکان وعہدیداران سرجوڑکر بیٹھیں گے اور اس وقت مناسب حال فیصلے کیے جائیں گے۔کوئی بڑا اقدام ،کوئی بڑافیصلہ بھی لیاجاسکتاہے اورہمیں امیدہے کہ اگرکوئی بڑافیصلہ لیاجاتاہے تب ملت اسلامیہ اپنے سروں اورجانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر نکلے گی اوراپنے حق کی جدوجہد کرے گی۔ ان شاء اللہ۔ اسکے بعد جناب محمد شفیع صاحب (نائب صدر ایس ڈی پی آئی)نے اپنے خطاب میں وقف قانون کے خلاف نہ صرف عوام بلکہ غیر مسلموں میں آگاہی ،بیداری پیداکرنے بلکہ ناانصافی کےخلاف جدوجہد کاآغاز مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کردیاہے۔
اپنے خطاب کے آخر میں جناب شفیع نے مسلمانوں سے کہاکہ وہ اپنے اسلاف اور ان کے کارناموں کو یاد رکھیں مولانا رفیع الدین اشرفی صاحب پربھنی (رُکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بور)نے اپنےولولہ انداز خطاب میں کہاکہ ہم اس اجلاس عام کے ذریعہ اعلان کرتےہیں کہ وقف ترمیمی قانون ہندوستان کے مسلمان کو منظورنہیں ہے۔انہوں نے جلسہ عام میں موجود عوام سےہاتھ اٹھاکر اس کی تائید وحمایت کے اظہار کی بات کہی جس پر شرکاء جلسہ نےلبیک کہتے ہوئے اپنے ہاتھ بلند کیے۔مولانا نے دوران تقریر مراٹھی میں خطاب شروع کرتےہوئے کہاکہ میں میڈیا سے کہتاہوں کہ وہ میرے اس مراٹھی زبان کے خطاب کو حکومت مہاراشٹر اور مرکزی حکومت تک پہنچائیں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ ہندوستان کا مسلمان اس وقف ترمیمی قانون کی مخالفت کرتاہے وجہ یہ ہےکہ یہ قانون اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ہے۔ جناب ضیاء الدین صدیقی صاحب( امیر وحدت اسلامی /صدرکل جماعتی وفاق مہاراشٹر) نے اپنے خطاب میں بتایاکہ ہندستان میں مسلمان سلاطین کی آمد کے ساتھ وقف کاآغاز ہوا ۔بادشاہوں، وزیروں اور عام مسلمانوں نے اپنی جائیدادیں وقف کی ہیں تاکہ عام وغریب مسلمان اس سے استفادہ کرسکے۔

عوام کو یہ بات ذہین نشین کرنی چاہیے کہ وقف اور وقف بورڈ دونوں علاحدہ علاحدہ ہیں ۔وقف بورڈ حکومت کی جانب سے بنایاگیا ادارہ جو وقف کو ریگلولیٹ کرتاہے۔جبکہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے خون پسینہ کاحصہ ہےجو عام وغریب مسلمانوں کی مدد کیلئے اللہ کے نام پر وقف کی ہوئی ہیں۔ جناب ضیاء الدین صدیقی نے وقف قانون میں کئی گئی ترامیم کے نقصانات کو واضح طورپر عوام کے سامنے پیش کیا۔آپ نے کہاکہ حکومت کااصل مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کی دینی شناخت کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کامنصوبہ ہے۔ اس جلسہ کی ابتداء تلاوت کلام پاک ونعت شریف سے ہوئی۔ اس کے بعد حافظ مفتی محمدہارون نظامی صاحب نے اپنے مختصراً خطاب میں وقف قانون کے نقصانات کو بڑے سہل انداز میں بیان فرمایا۔ اس کے بعدبودھ دھرم کے رہنماء بھنتے پیاں بودھی نے بھی خطاب کیا اورکہاکہ وقف کے خلاف اس لڑائی میں ہم مسلمانوں کے ساتھ ہیں ۔اسی طرح انہوں نے کہاکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے راج کے خاتمے کیلئے ہم تمام کو مل کر لڑائی لڑنی ہوگی۔ مفتی وقایت اللہ خالد قاسمی صاحب نےا پنے خطاب میں وقف کے تعلق سے انتہائی عام فہم انداز میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جب کوئی چیز وقف کردی جاتی ہے تب اس چیز کووقف کرنے والے شخص کا بھی اس وقف کردہ چیز پر اختیار باقی نہیں رہتاہے۔ مولانا محترم نے فرمایاکہ وقف کی جائیدادیں ہمارے اباء واجداد کی ہیں حکومت کوچاہیے کہ وہ اس میں ہرگز مداخلت نہ کرےکیوں کہ وہ ان کی اپنی چیزیں نہیں ہیں ۔
اِجلاس کے کنوینر مفتی ایوب صاحب نے اپنے خطاب میں کہاکہ عام مسلمانوں میں اب بھی وقف کے تعلق سے لاعلمی، لاتعلقی پائی جاتی ہے۔وہ سوچتاہے کہ وقف کامسئلہ جاگیردار، انعامداروں کا ہے میرا اس سے کچھ لینا دیناہے ،مسلمانوں کو اس غفلت میں نہیں رہنا چاہیے۔ سی اے اے اور این آر سی شہریت کا مسئلہ تھا جب کہ یہ ہماری شریعت کامسئلہ ہے اور یہ مسئلہ سی اے اے سے کئی گنازیادہ اہم ہے۔مولانا نے فرمایا کہ اس نئے وقف قانون کو اگر حکومت واپس نہیں لیتی ہے تب ہماری نمازوں، عبادتوں کے مسائل بڑھ جائیں گے۔ مولانا سرور قاسمی صاحب نے اپنے خطاب میں کہاکہ حکومت کی جانب سے نافذ کردہ وقف قانون میں کچھ نکات ایسے ہیں جن کا اسلام کے قانون سے ٹکراؤ ہورہاہے۔اسلام کے ماننے والے اسلامی قوانین میں کسی بھی قسم کی مداخلت کوبرداشت نہیں کرسکتے۔اسی پس منظر میں اوقاف قانون کے خلاف جلسہ منعقد کیے جارہے ہیں۔ آخرمیں مولانا مظہر الحق قاسمی کی دعا پرجلسہ کا اختتام عمل میں آیا۔ جلسہ کی نظامت کے فرائض جناب ناصر خطیب صاحب معاون کنوینر نے نہایت عمدگی سے انجام دیئے۔ جبکہ ایڈوکیٹ نصیر الدین فاروقی کے شکریہ پر اجلاس کا اختتام عمل میں آیا۔ اس جلسہ میں مقامی علماء کرام ،معززین وعوام الناس کی کثیرتعداد موجود تھی۔ عیاں رہے یہ جلسہ دیگلورناکہ علاقہ کے مدینتہ العلوم اسکول گراؤنڈ پر منعقد ہوناتھا تاہم ناندیڑ میں پچھلے کئی دنوں سے جاری بارش کے باعث یہ جلسہ گراؤنڈ سے متصل انوارالمساجد میں منعقد کیاگیا۔