“وہ تنہا نہ تھی — اس کے ساتھ سچ تھا” — (اسلامی و انسانی غیرت کے نام)
۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
“وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ” (ابراہیم: 42)۔ (اور تم ہرگز یہ نہ سمجھو کہ اللّٰہ ان ظالموں کے اعمال سے غافل ہے)۔
اسلام کا پیغام سراپا عدل، حق اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا پیغام ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ ظالم خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اور مظلوم خواہ کتنا ہی تنہا کیوں نہ ہو — حق ہمیشہ غالب آتا ہے، کیونکہ وہ اللّٰہ کی نصرت کے سائے میں ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ایمان غیرت سے ہمکنار ہو، اور سچائی دل میں چراغ بن کر روشن ہو، تو ایک فرد بھی فرعونوں کے ایوان ہلا دیتا ہے۔
اسی ایمان، اسی غیرت اور اسی صداقت کی ایک جھلک ہمیں اُس نوجوان لڑکی کی صورت میں نظر آئی، جو دورِ جدید کے سب سے بڑے جبر کے خلاف حق کا عَلَم بلند کیے کھڑی ہوئی — تنہا، مگر عزم و ہمت سے مسلح، کمزور، مگر صداقت کی طاقت سے سرشار۔ یہ وہی روحِ ایمانی ہے جس نے مکّہ کے کمزور غلاموں کو ابو جہل کے مقابل لا کھڑا کیا، اور جس نے کربلا کی ریت پر حسین کے قافلے کو سرخرو کیا۔
جب ظلم، جبر، اور خاموشی کا گھنا اندھیرا چھا جائے، جب تخت و تاج والے حق کے سامنے سر جھکانے کے بجائے زر و جواہر میں چھپ جائیں، جب ایوانِ اقتدار کے در و دیوار سچ کی بازگشت سے خالی ہو جائیں — تب تاریخ ایسے لمحے کو جنم دیتی ہے جو صدیوں پر بھاری ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک لمحہ گزشتہ شب دنیا نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایوانِ علم میں دیکھا — جب ایک نازک اندام، بھورے بالوں والی لڑکی نے صداقت کا پرچم اٹھایا، اور ظالموں کے چہرے سے نقاب نوچ ڈالے۔
نہ اس کے پاس کوئی لشکر تھا، نہ پشت پر کوئی جماعت۔ نہ وہ کسی عالمی تحریک کی نمائندہ تھی، نہ کسی طاقتور خاندان کی وارث۔ لیکن اس کی زبان پر سچ تھا، اور سچ کے لیے نہ کبھی لشکر کی ضرورت پڑی، نہ ہی شوروغل کی۔ وہ تنہا تھی، لیکن اس کے اندر وہ حوصلہ، وہ آگ، اور وہ ضمیر کی چمک تھی جو فرعونوں کے دربار میں موسٰی کی لاٹھی بن کر گونجتی ہے۔
اس نے کہا: “ہمارے علم کی قیمت تم نے فلسطینی بچّوں کے خون سے چکائی ہے۔ ہماری فیسوں کا حساب دو!”۔ یہ فقط ایک نعرہ نہ تھا، یہ تاریخ کے سینے پر ایک نوحہ تھا جو اب احتجاج میں ڈھل چکا ہے۔ یہ نوحہ اُس امت کی طرف سے تھا جس کے کچھ سربراہ آج حرمین کے سائے میں آرام سے بیٹھے، صرف تماشا دیکھ رہے ہیں — وہ امت، جس کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: “من رأى منكم منكراً فليغيره بيده…”۔ (تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے، اسے ہاتھ سے روکے…)۔ (صحیح مسلم)
وہ لڑکی اس حدیث پر عمل کر رہی تھی، جب کہ بادشاہ صرف خاموش تھے۔ اس کی آواز میں وہ لرزہ تھا جو محلوں کے ستون ہلا دیتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں وہ شعلہ تھا جو ظلم کی تدبیروں کو راکھ کر دیتا ہے۔ اس کی للکار ایک عہد تھی — کہ ہم بکنے والے نہیں، ہم جھکنے والے نہیں، ہم خاموش رہنے والے نہیں۔ یہ وہی روح ہے جو ہمیں بدر کے میدان میں نظر آتی ہے، جب مٹھی بھر مسلمان دنیا کی سب سے منظم فوج کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی شعور ہے جو ہمیں کربلا میں ملتا ہے، جب حسین ابن علیؓ دنیا کی طاقتوں کو بتاتے ہیں کہ سچائی کی راہ پر سر کٹانا قبول ہے، مگر جھکنا نہیں۔
یہ لڑکیاں — یہ بیٹیاں — محض جذبات کی ترجمان نہیں، یہ انسانیت کی اصل وارث ہیں۔ ان کے وجود میں وہ غیرت ہے جس کی کمی آج ایوانِ خلافت کے وارثوں میں نظر آتی ہے۔ وہ نسل جسے ہم نازوں سے پالتے ہیں، وہ جب ظلم کے خلاف کھڑی ہو جائے، تو زمین پر خدا کی حجت بن جاتی ہے۔ کاش وہ عرب بادشاہ، وہ تیل کے سوداگر، وہ قصرِ سفید کے تابع فرمان حکمران — ذرا رُک کر سن پاتے کہ ایک کمزور سی لڑکی ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ کاش وہ جان پاتے کہ تخت و تاج کا وقار، خاموشی میں نہیں، سچ کی گواہی میں ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ایمان، غیرت، اور ظلم کے خلاف قیام، صرف عبادت نہیں، بلکہ ایمان کا تقاضا ہے۔ یہی جہاد اُس لڑکی نے کر دکھایا — نہ تلوار سے، نہ بندوق سے، بلکہ صداقت کے آہنی الفاظ سے۔ یہی اصل عزّت ہے، یہی اصل شرافت، یہی اصل قیادت۔ یہی استقامت آج کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ اور یہ معجزہ ہم نے اُس لڑکی میں دیکھا — جو تنہا تھی، مگر سچ کے ساتھ تھی۔ اور سچ… ہمیشہ غالب ہوتا ہے۔
عرب کے سنگ مرمر ایوانوں میں بیٹھے تاجدار، زر و جواہر میں لپٹے بادشاہ، اور خود کو امت کا نگہبان کہنے والے وہ حکمران — آج ان کی حیثیت اُس لڑکی کے برابر بھی نہیں، جس نے گزشتہ شب ایوانِ علم میں پوری دنیا کے سامنے فلسطین کے مظلوموں کا مقدمہ اس جرأت و بے باکی سے لڑا کہ صداقت بھی سرنگوں ہو گئی۔ اس کی زبان پر جو سچ تھا، وہ آسمان کو چیر گیا۔ یہ ایک للکار نہ تھی، یہ تاریخ کے سینے پر ثبت ایک نوحہ تھا جو اب احتجاج بن چکا ہے۔
اس کی آواز میں وہ لرزہ تھا جو بادشاہوں کے تخت ہلا دیتا ہے، اس کی آنکھوں میں وہ شعلہ تھا جو ظلم کی ساری تدبیروں کو جلا دیتا ہے۔ وہ تنہا تھی، مگر سچ کے ساتھ تھی — اور سچ ہمیشہ اکثریت نہیں مانگتا، وہ تو دل مانگتا ہے، درد مانگتا ہے، ضمیر مانگتا ہے۔
یہی وہ دلیر بیٹیاں ہیں جو انسانیت کی اصل محافظ ہیں۔ ان کے وطن، ان کی زبان، ان کی تہذیب خواہ کچھ بھی ہو — جب وہ ظلم کے مقابل کھڑی ہوتی ہیں، تو پوری انسانیت ان کے قدم چومتی ہے۔ کیونکہ اصل شرافت، اصل غیرت، اصل عزّت — طاقت یا حسب نسب سے نہیں، بلکہ ضمیر کے جاگنے سے جنم لیتی ہے۔ وہ حکمران، جو حرمین کے سائے میں بیٹھ کر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ذرا اس لڑکی کی للکار کو سن پاتے۔ کاش ان کے سینوں میں بھی کبھی دل دھڑکتا، اور وہ سمجھ پاتے کہ تاریخ صرف فتوحات سے نہیں، جرأت کے ایسے ہی لمحوں سے لکھی جاتی ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی گناہ ہے، اور حق کے لیے کلمۂ حق کہنا ایمان کا تقاضا۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: “أفضلُ الجهادِ كلمةُ حقٍّ عندَ سلطانٍ جائرٍ”۔ (سب سے افضل جہاد، ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا ہے)۔ (سنن ابی داؤد)۔ یہ وہی جذبہ ہے جو اُس لڑکی کی آنکھوں میں چمک رہا تھا۔ وہی روحِ ایمانی، جو ہمیں حسینؓ کے کارواں کی یاد دلاتی ہے۔ جب ضمیر جاگتا ہے، تو ایک معمولی سی صدا بھی قیامت کی گونج بن جاتی ہے۔ امت مسلمہ کو آج پھر اسی صدا کی ضرورت ہے — جو سچ کے ساتھ کھڑی ہو، جو مظلوم کا ساتھ دے، جو حق کی گواہی سے نہ ڈرے، چاہے دنیا کی ساری طاقتیں اس کے مقابل ہوں۔
کاش ہم سمجھ پائیں کہ اللّٰہ کی نصرت اُن کے ساتھ ہوتی ہے جو حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں — خواہ وہ تنہا ہوں، مگر سچ کے ساتھ ہوں۔ کیونکہ یہی لوگ قیامت کے دن بھی کامیاب ہوں گے، جب بادشاہوں کے تاج گر جائیں گے، اور ضمیر کی آواز سر بلند ہوگی۔
“فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ”۔ “پس تم استقامت اختیار کرو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے” (سورہ ہود: 112)۔
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
masood.media4040@gmail.com