پنجرے میں بند روایتی سوچ

معز الرحمان، ناندیڑ.
کہتے ہیں ایک بڑے سے پنجرے میں پانچ بندروں کو ڈالا گیا۔ پنجرے میں ایک سیڑھی نصب تھی جس کے اوپر کیلے لٹک رہے تھے۔بیٹھے بیٹھے ایک بندر کی نظر کیلوں پر پڑی جیسے ہی اسے کیلے نظر آئے ا س نے اچھل کود شروع کردی کچھ دیر میں اسے سمجھ میں آگیا کہ سیڑھی کے ذریعہ اوپر چڑھ کر کیلے حاصل کئے جاسکتے ہیں، جیسے ہی بندر نے سیڑھی پر قدم جمائے اچانک پنجرے میں ٹھنڈے پانی کی بوچھار ہونے لگی۔ اب جب بھی کوئی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کرتا، تمام بندروں پر ٹھنڈے پانی کی تیز بوچھاڑ کی جاتی۔ بندروں کو یقین ہوگیا کے سیڑھی پر قدم جمانے سے ٹھنڈے پانی کی سزا ملتی ہے، اس لئے جب بھی کوئی بندر سیڑھی کے قریب جاتا دوسرے بندراس کو سیڑھی چڑھنے سے روکتے ،اور مارنے لگتے، تاکہ پانی کی سزا سے بچ سکیں۔کچھ عرصے بعد پانی پھینکنا بند کر دیا گیا، مگر بندروں کا رویہ جوں کا توں رہا۔ اب بھی اگر کوئی بندر سیڑھی چڑھنے کی کوشش کرتا تو باقی بندر اسے مارنے لگتے، حالانکہ انہیں اب سزا نہیں دی جارہی تھی۔
پھر ایک نیا تجربہ کیا گیا ایک پرانے بندر کو نکال کر ایک نیا بندر ڈالا گیا ،نیا بندر کیلے حاصل کرنے کیلئے سیڑھی کے قریب گیا باقی چار بندروں نے اسے مارنا شروع کردیا، نئے بندر کو سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ اسے کیوں مارا جارہا ہے؟
یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کے نئے بندر کو معلوم ہو گیا کہ ”سیڑھی چڑھنا منع ہے“ ا ب ایک اور پرانے بندر کو نکال کر اسکی جگہ نیا بندر لایا گیا، نیا بندر جیسے ہی سیڑھی کے قریب گیا باقی سب بندر اسے مارنے لگے سب سے مزے کی بات تو یہ تھی کہ پہلا نیا بندر جس نے ٹھنڈے پانی کی سزا کا تجربہ بھی نہیں کیا تھا وہ بھی مارنے میں پیش پیش تھا۔
اب ایک ایک کر کے پرانے بندروں کو نکالا گیا اور ان کی جگہ نئے بندر لائے گئے۔ نئے بندر جب کیلے لینے کی کوشش کرتے، تو باقی بندر انہیں مارنے لگتے۔ آہستہ آہستہ نئے بندر بھی سیکھ گئے کہ سیڑھی چڑھنا “منع” ہے، حالانکہ انہوں نے کبھی پانی کی سزا نہیں دیکھی تھی۔آخرکار پنجرے میں پانچ ایسے بندر رہ گئے جن میں سے کسی نے بھی سزا کا تجربہ نہیں کیا تھا، مگر وہ سب اسی روایت پر عمل پیرا تھے، اور سب کا ماننا تھا کہ ہم نے “ایسا ہی ہوتے دیکھا ہے۔”
یہ کہانی صرف بندروں کی نہیں، ہمارے معاشرے، اداروں اور تنظیموں اور تحریکوں کی بھی ہے۔ ہم بہت سے ایسے اصول اور رویے اپنائے بیٹھے ہیں جن کی نہ وجہ سمجھتے ہیں، نہ ان پر سوال اٹھاتے ہیں۔
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہیکہ ہم اندھی تقلید کے بجائے چیزوں کو باریک بینی سے دیکھنا سیکھیں۔ کئی بار ہم صرف اس لیے کسی عمل کو دہراتے ہیں کہ “ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے”، چاہے وہ غلط ہو یا بے فائدہ۔
دوسری بات اس کہانی سے یہ سمجھ آتی ہیکہ ہم تبدیلی سے ڈرتے ہیں ،جو شخص پرانے نظام سے ہٹ کر کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے روکا یا دبایا جاتا ہے، جیسے نئے بندر کو مارا جاتا تھا۔
تیسری بات سوال نا کرنے کی عادت، ہم یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ کوئی قاعدہ کیوں بنایا گیا؟
اس کا مقصد کیا تھا؟؟
اور آج بھی وہ قابلِ عمل ہے یا نہیں؟؟؟
۔اس طرح پرانی نسل سے سیکھے گئے غیر ضروری رویے نئی نسل تک بغیر سوال کیے منتقل ہوتے رہتے ہیں۔
یہ صرف تنظیمی مسئلہ نہیں، سماجی مسئلہ بھی ہے:
اگر ہم غور کریں تو یہی رویے ہمارے سماج میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بچے والدین کی مرضی کے بغیر خواب نہیں دیکھ سکتے، نوجوان اساتذہ سے سوال نہیں کر سکتے، ملازمین باس کی رائے کو چیلنج نہیں کر سکتے، اور غریب امیر کی ناانصافیوں کو چپ چاپ سہتے ہیں۔یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک گہری ثقافتی ساخت کا حصہ ہے، جس کی وضاحت معروف سماجی ماہرگریٹ ہافسٹیڈ [ Hofstede Geert ] نے اپنی تحقیق میں کی ہے۔
گریٹ ہافسٹید کے مطابق ہندوستان ایک ہائی پاور ڈسٹنس سوسائٹی ہے یعنی ایک ایسا سماج جس میں طاقتوراور اونچے عہدوں پر فائز افراد کو بغیر سوال کیے مانا جاتا ہے، اداروں میں بالا دستی والے طبقے کی بات کو حتمی سمجھا جاتا ہے اور نیچے کے درجے کے لوگ اپنے سے اوپر والوں کو چیلنج کرنے سے کتراتے ہیں۔یہاں:
▪️ذات پات اور سماجی درجہ بندی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
▪️والدین، اساتذہ، اور افسران کی بات کو حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے۔
▪️بچے اور نوجوان اپنی رائے کے اظہار میں ہچکچاتے ہیں۔بڑوں کو منع کرنا یا ”نا“ کہنا گستاخی سمجھی جاتی ہے۔
▪️ادارے سوال اٹھانے والے ذہنوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔
شاید اسی لئے ہمارے یہاں تبدیلی اور ترقی کی رفتار بہت سست ہے، علامہ اقبال نے کہا تھا:
*ضمیر مغرب ہے تاجرانہ ضمیر مشرق راہبانہ*
*وہا ں دگر گوں ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں زمانہ*
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے اندر سوال کرنے کی جرات، تبدیلی کو قبول کرنے کا حوصلہ اور اندھی تقلید سے آزادی پیدا کریں۔ کیونکہ صرف وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو روایت کے پنجرے سے باہر نکل کر نئے افق تلاش کرتی ہیں۔