مضامین

چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری۔۔۔۔

از قلم، مفتی محمد رضوان فلاحی(امام و خطیب مسجد زلیخا ناندیڑ )

زندگی کے سفر میں کچھ خبریں ایسی آتی ہیں، جو دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔جو دلوں پر گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں،
۵ ذیقعدہ ۱۴۴۶ مطابق 4مئی 2025 بروز اتوار بعد نماز ظہر سوشل میڈیا کو دیکھا کہ خادم القرآن والمساجد حضرت مولانا غلام محمد وستانوی قدس اللہ سرہ کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی،
جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے منتظم اور خدمتگاروں میں وستانوی خاندان کا نام نمایاں رہا ہے، جس نے اس ادارہ کی اپنے خون جگر سے آبیاری کی،اور اسی خاندان کے گل سرسبد خادم القرآن و المساجد عاشق القرآن والسنۃ الحاج حضرت مولانا غلام محمد وستانوی برد اللہ مضجعہ کے دور نظامت کو اس ملی ادارہ کا زریں دور کہا جائیگا، قضاء و قدر کے اٹل فیصلوں کے مطابق کہ “موت سے کس کو رستگاری ہے”ایک ایک شخصیت سامنے آتی رہی، اور اپنے حصہ کا کام کرکے، اس کا اجر حاصل کرنے کے لیے اپنے پالن ہار کے حضور حاضر ہوتی رہی، ابھی قریبی زمانہ میں حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمۃاللہ علیہ کے برادر اکبر حافظ اسحاق صاحب رحمۃاللہ علیہ کی وفات کے بعد اس خانوادہ کے افراد تسبیح کے دانوں کی طرح، مسلسل رخصت ہونے لگے تو ملت اسلامیہ کے دردمندوں کے لیے یہ واقعات ناقابل قیاس اور ناقابل یقین محسوس ہونے لگے۔
خادم القرآن والمساجد حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمۃاللہ علیہ علم و فضل کے بلند مینار، اخلاق و کردار کے بے پناہ سمندر، تصوف و سلوک کے امام، مؤسسس و رئیس الجامعہ ہونے کے ساتھ ساتھ جامعہ اکل کوا کو ذرہ سے آسمان دنیا کی بلندیوں تک پہونچانے والے وہ کوہ نور تھے، جن کو اہل دنیا اب صرف یادوں اور تذکروں میں ہی سماعت کرسکے گے،
حضرت مولانا رحمۃاللہ علیہ تقریبا نصف صدی سے زائد عرصہ تک مختلف مدارس دینیہ سے منسلک رہے، دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اہم ترین رکن،سینکڑوں مدارس دینیہ کے سرپرست، وقف بورڈ مہاراشٹر کے معزز رکن، اور جمعیۃ العلماء تعلیمی بورڈ کے صدر رہے،
خادم القرآن والسنۃ، معمار المساجد و المکاتب رحمۃاللہ علیہ کی شخصیت قحط الرجال کے اس زمانہ میں کوہ ہمالہ کی طرح اتنی بلند تھی کہ انکی عظمت کی بلندی ناپنے والوں کی ٹوپیاں گرجاتی تھیں،وہ اسلامی و عصری علوم کے ہر میدان اور علم و فن کی ہر وادی میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے تھیں، اسکول و مدارس کے انتظامی امور میں تبحر انکی ساری زندگی کا سرمایہ تھا، اس میدان میں تو انکا ثانی و ہم سر ہونا تقریبا ناممکن ہے;لیکن اس کے علاوہ توکل علی اللہ، بلند ہمتی، اعتدال و میانہ روی، آہِ سحرگاہی، نرمی و شفقت، مخلوقِ خدا سے ہمدردی، سادگی، تواضع وانکساری جیسے کوچہ کے بھی ہر ذرہ سے آگاہ تھے، اور بڑی ژرف نگاہی اور دیدہ وری کے ساتھ اس راہ کا سفر طے کیا تھا،اس لحاظ سے وہ جامع کمالات ہی نہیں جامع الاوصاف بھی تھے،
حضرت مولانا رحمۃاللہ علیہ کی ایک خوبی انکی بےلوثی، بے باکی اور بے خوفی تھی،کسی طرح کی بھی بے دینی انکے لئے ناقابل برداشت تھی، اس سلسلہ میں وہ بڑے بڑے قومی و ملی راہنماؤں کو ٹوک دیتے تھے،حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں وہ اتنی بڑی شخصیت کے مالک تھے کہ بہت سے اکابرین بھی انکی رائے کا لحاظ رکھتے تھے، دنیا سے بےنیازی، مال و دولت کی طرف عدم التفات ان سے سیکھنے کی چیز تھی، انکی خوبیاں بے مثال، انکی نیکیاں بے شمار ، کوئی کہاں تک ان کا تذکرہ کریں، اسی وجہ سے ہم علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر گنگناتے ہیں۔۔
چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری۔
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری۔
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری۔
کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری۔
وقتِ فرصت ہےکہاں کام ابھی باقی ہے۔
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے۔
اس موقع پر بندۂ عاجز حضرت مولانا رحمۃاللہ علیہ کے جمیع اہل خانہ کی خدمت عالیہ میں تعزیت مسنونہ بذریعہ جانشین خادم القرآن والمساجد حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی زیدت معالیکم پیش کرتے ہیں، اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دست بدعاء ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت والا مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے اعلی علیین میں جگہ عطاء فرمائے، جمیع پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!