قومی

کرناٹک کے تمام اضلاع میں ڈی سی کے توسط سے صدر جمہوریہ ہند کو میمورنڈم پیش

وقف ترمیمی قانون کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی زیر قیادت متحدہ عوامی موقف اور تحریک تیز

بنگلور، 16/ جون (پریس ریلیز): آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے وقف بچاؤ، دستور بچاؤ تحریک کے تحت ریاست کرناٹک کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کی ملی، سماجی و مذہبی تنظیموں کے ذمہ داران اور نمائندہ شخصیات نے متحد ہوکر وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف ایک مضبوط عوامی موقف اختیار کیا۔ اس ضمن میں تمام اضلاع میں متعلقہ ڈپٹی کمشنرز سے ملاقاتیں کی گئیں اور صدر جمہوریہ ہند کے نام ایک مفصل میمورنڈم پیش کیا گیا، جس میں اس قانون کو دستورِ ہند کے خلاف، اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی اور وقف املاک پر براہ راست مداخلت قرار دیتے ہوئے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی سلسلے میں آج بنگلور میں ایک اہم پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے وقف بچاؤ،

 

دستور بچاؤ تحریک کے کرناٹک کے ذمہ داران بالخصوص اس تحریک کی نگرانی میں ریاست بھر میں ڈی سی کو میمورنڈم دینے کیلئے بنائی گئی ذیلی کمیٹی کے کنوینر محمد یوسف کنی، معاون کنوینر سید شفیع اللہ، امیر جماعت اسلامی کرناٹک ڈاکٹر سعد بلگامی، بورڈ کے رکن عاصم افروز سیٹھ، میڈیا انچارج محمد فرقان اور دیگر ذمہ داران نے شرکت کی اور میڈیا کے سامنے اس قانون کے مضمرات پر روشنی ڈالی۔ مقررین نے واضح کیا کہ وقف ترمیمی قانون 2025، 1995 کے اصل وقف ایکٹ، اقلیتوں کے آئینی و بنیادی حقوق اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہے۔ اس قانون کے ذریعے وقف جائیدادوں پر حکومت کو غیر ضروری اختیارات دیے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی اور فلاحی اداروں کی خودمختاری کو متاثر کرنے بلکہ ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو کہ مذہبی آزادی کے بنیادی حق دفعہ 25 اور اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم و منظم کرنے کے حق دفعہ 26 اور 29 کے خلاف ہے۔ وقف املاک پر مسلمانوں کا دینی، شرعی، تاریخی اور قانونی حق ہے، جو صرف اللہ کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔

اس میں حکومت کی مداخلت شرعی، اخلاقی اور آئینی ہر لحاظ سے ناقابلِ قبول ہے۔ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ میمورنڈم میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ 1995 کا وقف ایکٹ اقلیتوں کو ان کے مذہبی، فلاحی اور تعلیمی مقاصد کے لیے وقف املاک کی حفاظت اور انتظام کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ لیکن ترمیمی قانون کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی وقف جائیداد کو اپنی تحویل میں لے کر اس کا مالک بن جائے، جو کہ آئین کی روح کے خلاف ہے۔ نیز اگر وقف جائیداد کو حکومت اپنی تحویل میں لے تو وہ وقف کا مقصد فوت ہو جائے گا، جو کہ شرعی اصولوں کے خلاف ہے۔ نیز یہ قانون وقت کی حد (Law of Limitations) جیسے اہم تحفظات کو بھی نظرانداز کرتا ہے، جو کہ صریح ناانصافی ہے۔ آخر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے متفقہ مطالبہ یہ کیا گیا کہ صدر جمہوریہ فوری مداخلت کر کے اس قانون کو منسوخ کریں اور اقلیتوں کو دیے گئے آئینی تحفظات کو برقرار رکھا جائے۔

اور برسر اقتدار حکومت بھی اس غیرآئینی ترمیم کو فی الفور واپس لے، مسلمانوں کے دینی و شرعی حقوق کا احترام کرے، اور وقف املاک کے نظم و نسق کو اسی طرح برقرار رکھے جیسا کہ دستور اور شرعی اصولوں کے مطابق ہمیشہ رہا ہے۔ مسلم قیادت نے اعلان کیا کہ اگر حکومت نے اس غیر دستوری قانون کو واپس نہ لیا، تو بورڈ کی نگرانی میں ریاست گیر سطح پر پرامن جمہوری احتجاجات کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا، اور تمام دستوری و قانونی راستے اختیار کیے جائیں گے۔ آخر میں میڈیا کے توسط سے ملک کے انصاف پسند طبقے سے اپیل کی گئی کہ وہ اس آئینی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کریں اور اقلیتوں کے مذہبی و ملی تشخص کا دفاع کریں۔ قابل ذکر ہے کہ اس موقع پر محمد یوسف کنی نے اس بات کا ذکر کیا کہ ریاست کرناٹک کی سول سوسائٹیز، برادران وطن کی تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور اہم شخصیات کا ایک اجلاس 23/ جون کو ایل ایچ، بنگلور میں منعقد ہوگا، اس میں وقف ایکٹ 2025کی مخالفت کی بنیادی وجوہات اور برادران وطن کی غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کی جائے گی۔

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!