مضامین

ہائی پاور ڈسٹنس سوسائٹی اور بھارت

(معز الرحمان، ناندیڑ.)

گیرٹ ہافسٹید نام کے ایک مشہور ماہرِ عمرانیات تھے انہوں نے مختلف ملکوں کی ثقافتوں گہرا مطالعہ کرکے موازنہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ ہر معاشرے میں طاقت اور اختیار کو قبول کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ اس نظریے کو انہوں نے “پاور ڈسٹنس انڈیکس (Power Distance Index)” کا نام دیا۔

جب کسی معاشرے میں اپنے سے بڑے عہدے والے لوگوں کو بے چوں و چراں مانا جاتا ہے، اور عام لوگ ان سے سوال کرنے سے ڈرتے ہیں، تو اسے “ہائی پاور ڈسٹنس سوسائٹی” کہا جاتا ہے۔

گیرٹ ہافسٹید نے ہمارے ملک عزیز بھارت کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے. انکے مطابق بھارت ایک “ہائی پاور ڈسٹنس سوسائٹی” ہے۔

جہاں بڑوں، والدین، اور افسران کی بات کو حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے.
بچے اور نوجوان اپنی رائے کھل کر ظاہر نہیں کرتے.
اداروں میں اوپر والوں کی بات ماننا لازم سمجھا جاتا ہے.
ذات پات اور سماجی درجہ بندی کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے.

ہافسٹیڈ کے مطابق یہ سب رویے معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں، کیونکہ سوال، تحقیق اور تنقید کے بغیر نیا سوچنا اور آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوتا۔
جب ہم اپنے اطراف کے معاشرے کو گہرائی سے دیکھتے ہیں تو انکی بات درست لگتی ہے. بھارت کی جس سوسائٹی میں ہم رہتے ہیں یہاں “مان-مریادا” کا خاص خیال رکھا جاتا ہے.

ایک اہم نکتہ:
ہافسٹیڈ کے مطابق اس سے ترقی اور جلد تبدیلی ممکن نہیں ہے، لیکن دعوتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس سوسائٹی میں ہمارے لئے افہام اور تفہیم کے زیادہ مواقع ہیں. اور لوگ چونکہ اتھارٹی کو مانتے ہیں اس لئے دعوت اگر باوقار اور ممتاز ترین لوگ پیش کریں تو زیادہ موثر ہو سکتی ہے.

[گزشتہ مضمون “پنجرے میں بند روایتی سوچ” میں میں نے گیرٹ ہافسٹیڈ کے نظریات کا ذکر کی تھا جس کے متعلق بہت سے سوالات آئے ہیں، اس نوٹ میں ہافسٹیڈ کے نظریات کو آسان الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے. ان تفصیلات کو جاننے کے بعد آپ کا احساس کیا ہے ضرور شیئر کریں.]

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!