سفرنامۂ سمرُدّھی: رفتار، فطرت اور فن کا حسین امتزاج

۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
10؍ جون 2025ء بعد نمازِ فجر کی وہ صبح خاص طور پر یادگار بن گئی، جب میں نے ممبئی کے نواحی علاقے امانے (نزد پڈگھا) سے روانہ ہو کر اِگتپُری کے راستے سمرُدّھی مہامارگ کے آخری حصّے پر گاڑی دوڑائی — اور یوں ممبئی سے اورنگ آباد تک کا ایک خواب ناک، سہل اور دلکش سفر مکمل کیا۔ حالانکہ اِگتپُری سے سمرُدّھی مہامارگ پر میرا یہ پہلا سفر نہیں تھا، سفر تو پہلے بھی کئی بار ہوا تھا، مگر اس بار کی بات ہی کچھ اور تھی۔۔۔ بارہا اس شاہراہ پر چلتے ہوئے مناظر دیکھے، پہاڑوں کے دامن کو چھوتی ہوئی سڑک، سرنگوں کی دلربا تاریکی اور روشنی کا کھیل، اور رفتار کی وہ خاموش موسیقی، جو مسافر کے دل میں ایک انجانی سرشاری بکھیر دیتی ہے۔ لیکن کچھ سفر تاریخ میں محفوظ نہیں ہوتے، بلکہ دل کے کسی گوشے میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتے ہیں۔ 5؍ جون کی صبح بھی ایک ایسا ہی لمحہ تھی، اورنگ آباد کی جانب روانگی تھی، لیکن لگتا تھا جیسے منزل سے زیادہ راستہ خود ایک مسحور کن تجربہ بن گیا ہو۔
پتہ نہیں کیا وجہ تھی، شاید آسمان پر بکھرے بادلوں کی ترتیب، یا پہاڑیوں کی خاموشی میں چھپی ہوئی گفتگو، یا وہ لمحاتی سکون جو انسان کو زندگی کی بےتابی سے نکال کر کسی گہرے عرفان میں لے جاتا ہے۔ جو بھی تھا، اس سفر میں ایک ایسا لطف، ایک ایسی معنویت محسوس ہوئی جو شاید پہلے کبھی ان راستوں پر محسوس نہ کی تھی۔ رفتار وہی تھی، راہ وہی تھی، مقامات بھی وہی، لیکن دل کی کیفیت کچھ اور تھی، جیسے ہر منظر مجھے خوش آمدید کہہ رہا ہو، اور ہر موڑ زندگی کا کوئی بھولا ہوا سبق دہرا رہا ہو۔ یہ سفر محض فاصلہ طے کرنے کا عمل نہ تھا، بلکہ خود سے ملاقات کا ایک خاموش لمحہ تھا۔
یہ صرف ایک سفر نہ تھا، بلکہ ایک نئے دور کا آغاز محسوس ہوا؛ جہاں رفتار ہو، سکون ہو، اور راستہ ہو ایسا جو منزل سے زیادہ خود ایک تجربہ بن جائے۔ جیسے ہی میں اس عالمی معیار کی ایکسپریس وے پر داخل ہوا، راستے کی کشادگی، جدید سہولیات اور قدرتی مناظر نے ایک الگ ہی دنیا میں پہنچا دیا۔ پہاڑوں کے دامن سے گزرتی ہوئی شاہراہ، سبزے میں لپٹے میدان، اور وقت کی بچت ہر لمحہ اس بات کی گواہی دیتا رہا کہ موجودہ انسان ترقی کے ایک نئے سنگِ میل کو چھو رہا ہے۔
سمرُدّھی مہامارگ کا 76؍ کلومیٹر طویل آخری مرحلہ بھی عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے، یوں 701؍ کلومیٹر پر مشتمل یہ ایکسپریس وے اب مکمل طور پر فعال اور قابلِ استعمال ہو چکا ہے۔ اب جب کہ سمرُدّھی مہامارگ کا یہ آخری اور اہم ترین حصّہ عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے، ایک نیا عہد دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ تیز رفتار، محفوظ، اور بے مثال سفر کا عہد۔ تو آئیے، خود کو تیار کیجیے۔ ایک ایسے سفر کے لیے جو صرف منزل تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک خوبصورت تجربہ ہے؛ ایک خاموش انقلاب جو بنیادی ڈھانچے کو نئی جہت دے رہا ہے۔
اس سفر میں 5؍ ٹنلز سے سابقہ ہوا۔ یہ سرنگیں مہاراشٹر کی سمرُدّھی مہامارگ (Hindu Hrudaysamrat Balasaheb Thackeray Maharashtra Samruddhi Mahamarg) کا ایک اہم حصّہ ہے، جو جدید انفراسٹرکچر اور ٹنل انجینئرنگ کا خوبصورت نمونہ ہے۔ جدید وینٹیلیشن سسٹم، سی سی ٹی وی نگرانی، ریفلیکٹو سائن ایجز، فائبر آپٹک کیبلز برائے نگرانی و کنٹرول، ایمرجنسی ایگزٹ اور فائر سیفٹی سسٹمز، روشنی کا بہترین انتظام، اور صوتی دیواریں اور جمالیاتی ڈیزائن سے آراستہ یہ سرنگیں انجینئرنگ میں مہارت اور چیلنجز کی علامت ہے۔ اندرونی سطح کو نرم روشنی اور ہموار فنشنگ سے آراستہ کیا گیا ہے تاکہ ڈرائیور کو آرام دہ تجربہ حاصل ہو۔
سرنگوں کے اطراف سرسبز پہاڑ، قدرتی گھاٹیاں اور گھنے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں، جو اس مقام کو نہ صرف فنی لحاظ سے بلکہ فطری حسن کے اعتبار سے بھی منفرد بناتے ہیں۔ برسات کے موسم میں یہاں ہلکی دھند اور سبزے کی فراوانی ایک دلکش فوٹوگرافک منظر پیش کرتی ہے۔ سرنگوں کے داخلی و خارجی کناروں پر تعمیر شدہ سادہ مگر ہم آہنگ طرزِ تعمیر، شاہراہ کے مجموعی حسن کو نکھار دیتا ہے۔ دونوں سروں پر پھیلے گھنے درخت، بل کھاتی پہاڑیاں اور بارش کے دوران چھا جانے والی دھند، سبزے کے ساتھ مل کر ایک ایسا طلسماتی منظر تخلیق کرتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ فطرت کی آغوش میں لپٹے، مستقبل کی طرف بڑھتے جا رہے ہوں۔
سرنگ نمبر 1 – امبرجے ٹنل (Ambarje tunnel): واپسی پر خوش آمدید کا خوبصورت پیام
سفر کا ہر راستہ اپنے اندر ایک داستان سموئے ہوتا ہے، مگر کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو دل پر نقش ہو جاتے ہیں اور یادوں کا حصّہ بن کر ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ ایسا ہی ایک لمحہ اُس وقت میری روح کو چھو گیا جب میں اورنگ آباد سے ممبئی کی جانب واپسی کے سفر پر تھا اور سمرُدّھی مہامارگ کی ایک دلکش شریان”امبرجے ٹنل” میں داخل ہوا۔ یہ صرف ایک سرنگ نہ تھی، بلکہ جیسے وجد اور جمال کا ایک دروازہ کھل گیا ہو۔ جوں جوں گاڑی تاریکی سے روشنی کی طرف بڑھتی گئی، یکایک سرنگ کی دیوار پر ایک منظر ابھرتا چلا گیا۔ گیٹ وے آف انڈیا کی حسین تصویر، جو اپنی روشنی کے ساتھ اس پرسکون فضا میں روحانی چمک بکھیر رہی تھی۔ اس منظر کے نیچے سنہری حروف میں ایک جملہ جگمگا رہا تھا: “ممبئی میں خوش آمدید”۔ وہ ایک لمحہ تھا، مگر اس کی تاثیر دیر پا تھی۔ جیسے شہر کی گود میں واپس آتے ہوئے فطرت اور فن کا امتزاج انسان کو خاموشی سے خوش آمدید کہہ رہا ہو۔
ایک لمحے کو یوں محسوس ہوا جیسے یہ دیوار کوئی جامد پتھر نہیں بلکہ شہرِ خواب ممبئی کے بازو ہیں، جو اپنائیت سے پکار رہے ہوں: “آؤ، لوٹ آؤ اپنی دھڑکنوں کے شہر میں!”۔ یہ تحریر محض ایک استقبالیہ جملہ نہیں تھی، بلکہ ان تھک مسافروں کے لیے ایک جذباتی ہم آہنگی، ایک تسلی، ایک پیغام تھی کہ سفر ختم نہیں ہوا، بلکہ یہ واپسی بھی اپنی جگہ ایک نیا آغاز ہے۔ ٹنل کی ٹھنڈی ہوا، دیواروں پر روشنیوں کا کھیل، اور اس منظر کا جذباتی حسن، سب کچھ ایک ساتھ دل میں اُترتا چلا گیا۔ یوں لگا جیسے ممبئی، جو ہمیشہ سے زندگی کی ایک دوڑ معلوم ہوتی ہے، آج بانہوں کو پھیلائے خاموشی سے خوش آمدید کہہ رہی ہو۔ سمرُدّھی مہامارگ پر یہ ایک چھوٹا سا لمحہ، ایک سادہ سا منظر، درحقیقت سفر کے ان قیمتی لمحوں میں سے تھا جو عمر بھر یاد رہ جاتے ہیں۔
سرنگ نمبر 2 – شیرو٘ل ٹنل (Shirol Tunnel):
یہ سرنگ مہاراشٹر کے ضلع ناسک کی اِگتپُری تحصیل میں واقع ہے، اور اس کا نام قریبی گاؤں شیرو٘ل سے منسوب ہے۔ تقریباً 1.1؍ کلومیٹر طویل، یہ ایک دوغلی سرنگ (dual bore tunnel) ہے، جس میں ہر سمت کے لیے ایک علیحدہ ٹنل ہے، اور ہر ایک ٹنل میں تین لینز موجود ہیں۔ شیرو٘ل ٹنل صرف ایک انجینئرنگ ڈھانچہ نہیں، بلکہ سہایادری پہاڑی سلسلے کو عبور کرنے کے لیے ایک مہارت بھرا اور دور اندیش حل ہے۔ یہ سرنگ نہ صرف رفتار کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے، بلکہ سفر کو محفوظ، آرام دہ اور دلکش بھی بناتی ہے۔
سرنگ نمبر 3 – سرلامبے سرنگ (Sarlambe Tunnel):
سمرُدّھی مہامارگ کی یہ تیسری سرنگ ایک قابلِ ذکر انجینئرنگ کارنامہ ہے، جو ممبئی-ناگپور ایکسپریس وے کے آخری حصّے کا اہم جزو ہے۔ تقریباً 1.6؍ کلومیٹر (1600 میٹر) طویل یہ سرنگ، تھانے ضلع کے سرلامبے گاؤں کے قریب واقع ہے، جو سمرُدّھی مہامارگ کی ممبئی کنیکٹیویٹی کا آخری اور اہم جغرافیائی چیلنج شمار ہوتی ہے۔ اس سرنگ کی تکمیل سے ممبئی کے نواحی علاقوں تک تیز رفتار، رواں اور بلا رکاوٹ رسائی ممکن ہو سکی ہے۔ جو اس سے پہلے پہاڑی، تنگ اور پیچ دار راستوں کی وجہ سے سست رفتار اور دشواری کا باعث تھی۔ سرلامبے سرنگ، سہولت، سلامتی اور رفتار کا حسین امتزاج ہے، جو جدید ہند کی شاہراہ سازی کا بہترین نمونہ ہے۔
سرلامبے سرنگ کا داخلی و خارجی منظر قدرتی سبزے، پہاڑی چٹانوں اور پُرسکون ماحول سے آراستہ ہے۔ بارش یا صبح کے وقت یہاں کی ہلکی دھند ایک ایسا خواب ناک منظر تخلیق کرتی ہے، گویا مسافر کسی دل فریب تصویری دنیا کا حصّہ بن گیا ہو۔ سرنگ کے داخلی راستوں کی دیواروں پر سادگی مگر فنکاری سے بھرپور ڈیزائن نقش ہیں، جو سفر میں جمالیاتی احساس پیدا کرتے اور بوریت کا احساس زائل کرتے ہیں۔
ساخت کے اعتبار سے، اس سرنگ میں روک تھام کی دیواریں، مضبوط ری اِنفورسڈ کانکریٹ، اور ایک جدید ڈرینیج سسٹم شامل ہے، جو مٹی کے کٹاؤ، پانی کے بہاؤ اور زمین کھسکنے جیسے قدرتی خطرات سے تحفّظ فراہم کرتا ہے۔ سرنگ کے اندر جدید LED روشنیوں، GPS پر مبنی سائن ایج (signage) اور حساس سینسرز کی تنصیب کی گئی ہے تاکہ ڈرائیونگ کا تجربہ محفوظ، ہموار اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
سرنگ نمبر 4 – وشالہ سرنگ (Vashala Tunnel):
وشالہ سرنگ، سمرُدّھی مہامارگ کی چوتھی اور نمایاں سرنگ ہے، جو اپنے محلِ وقوع، تعمیراتی فن اور جمالیاتی حسن کے باعث خاص مقام رکھتی ہے۔ تقریباً 600؍ میٹر (0.6 کلومیٹر) طویل یہ سرنگ وشالہ گاؤں کے قریب واقع ہے، جس کی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا۔
اگرچہ وشالہ سرنگ نسبتاً چھوٹی ہے، تاہم یہ ٹریفک کے بہاؤ کو رواں رکھنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے، بالخصوص اس لیے کہ یہ تھانے ضلع کے مضافات میں واقع ہے۔ یہ سرنگ ممبئی ریجن میں داخلے سے ذرا قبل آتی ہے، اور اسی لیے مسافروں کے لیے یہ ایک طرح کا نفسیاتی سنگِ میل بن جاتی ہے، گویا منزل قریب آ گئی ہو۔
وشالہ سرنگ اُن گنے چنے منصوبوں میں شامل ہے جنہیں وقت سے قبل مکمل کیا گیا، جو مہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ڈیولپمنٹ کارپوریشن (MSRDC) کی تیز رفتار پیش رفت اور منصوبہ بندی کی کامیابی کا مظہر ہے۔ اس سرنگ کا مقام ایکو-سینسٹیو زون قرار دیا گیا تھا، جس کے سبب تعمیراتی مراحل کے دوران ماحولیاتی تحفّظ کا خاص خیال رکھا گیا۔
سرنگ نمبر 5 – اِگتپُری ٹنل (Igatpuri Tunnel):
یہ سرنگ اس وقت مہاراشٹر کی سب سے طویل اور بھارت کی چوتھی سب سے بڑی سرنگ ہے، جس کی لمبائی 7.8؍ کلومیٹر ہے۔ سہایادری پہاڑی سلسلے کو کاٹ کر بنائی گئی یہ سرنگ ایک انجینئرنگ کا شاہکار ہے، جہاں زمین کی چٹانی ساخت، غیر متوازن سطح اور ماحولیاتی حساسیت ایک بڑا چیلنج تھیں۔ بارش، لینڈ سلائیڈز اور سخت ماحولیاتی ضوابط کے باوجود، اس منصوبے کو عالمی معیار کے مطابق مکمل کیا گیا۔ تعمیر میں بلاسٹنگ ٹیکنالوجی، ٹی بی ایم (Tunnel Boring Machine) اور نیٹ سپورٹ سسٹم جیسے جدید ترین طریقے استعمال کیے گئے۔ سرنگ کے اطراف گھنے جنگلات، پہاڑی مناظر اور پرسکون جھیلیں واقع ہیں، جو سفر کو ایک فطری حسن سے بھرپور تجربہ بنا دیتے ہیں۔ اندرونی تزئین میں آرٹ ورک، موشن لائٹنگ ایفیکٹس اور ماحول دوست مواد استعمال کیا گیا ہے، جب کہ داخلی و خارجی مقامات پر خوبصورت لینڈسکیپنگ مسافروں کو ایک آرام دہ اور خوشگوار احساس فراہم کرتی ہے۔
اِگتپُری ٹنل نے ممبئی–اورنگ آباد–ناگپور کے درمیان سفر کی نوعیت بدل دی ہے۔ جہاں پہلے پہاڑی بلندیوں کو عبور کرنا مشکل اور وقت طلب تھا، وہیں اب یہ سفر گھنٹوں سے منٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔ یہ منصوبہ ریاستی و قومی سطح پر ایک ماڈل کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے، جس سے دیگر ریاستیں بھی رہنمائی حاصل کر رہی ہیں۔ اِگتپُری ٹنل ان معدودے چند بھارتی سرنگوں میں شامل ہے جنہیں بین الاقوامی سرٹیفیکیشنز حاصل ہیں۔ اس کا مکمل راستہ موبائل نیٹ ورک کوریج، ایمرجنسی کالنگ اور فائر رسپانس سروسز سے آراستہ ہے۔ جو ایک نئی مثال قائم کرتا ہے۔
سفر محض فاصلے طے کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ دل، دماغ اور روح کے درمیان ایک ہم آہنگ مکالمہ بھی ہوتا ہے۔ سفرِ سمرُدّھی — صرف ایک سڑک کا تجربہ نہ رہا، بلکہ یہ ایک تہذیبی، فطری اور انجینئرنگ کے حسن کا امتزاج بن کر دل و نگاہ کو وہ تاثر دے گیا جو برسوں یاد رہے گا۔ ہر سرنگ اپنے اندر ایک نئی کہانی لیے ہوئے تھی؛ ہر موڑ ایک نئے جذبے کی آماجگاہ بنا، اور ہر منظر ایک خاموش پیغام بن کر ساتھ چلتا رہا۔
سمرُدّھی مہامارگ نے نہ صرف شہروں کو قریب کر دیا، بلکہ دلوں کو بھی جوڑ دیا ہے۔ یہ راستہ جدید علاقوں کی امنگوں، اس کی ترقی کی راہوں، اور اس کے عزم کی تصویر بن کر ابھرا ہے۔ اِگتپُری سے اورنگ آباد تک کا یہ تجربہ، اپنی رفتار، ترتیب، قدرتی ہم آہنگی اور تکنیکی مہارت کے ساتھ، ایک ایسے مستقبل کی نوید ہے جہاں سفر صرف فاصلہ نہیں، بلکہ فہم و شعور کی ایک نئی دنیا ہو۔
ممکن ہے وقت گزر جائے، اور ہم نئے سفر طے کریں، لیکن سفرِ سمرُدّھی — جو ایک عام صبح سے شروع ہوا اور دل کی گہرائیوں میں جا کر ٹھہر گیا — ہمیشہ یاد رہے گا، ایک خوشبو کی طرح جو ہر بار یادوں کے دریچے کھول دیتی ہے۔ یہ سفر صرف ایک راستے کی تعریف نہیں، بلکہ اُس خاموش انقلاب کا اعتراف ہے جو ہر کلومیٹر پر محسوس ہوتا ہے۔ ایک ایسا انقلاب جو ہمیں ماضی سے جوڑتا ہے، حال میں سنوارتا ہے، اور مستقبل کی جانب خوش آئند پیش قدمی کا پیغام دیتا ہے۔
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)