مضامین

محبت ہو اگر ہو پاکیزہ جذبہ تو بن جاتی ہے وہ جنّت کا رستہ

 🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•

اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جو انسانی جذبات، تعلقات اور احساسات کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ ان کے لیے واضح حدود و قیود بھی متعین کرتا ہے۔ محبت، جسے قرآن نے “مودت” اور “رحمت” کے بلند عنوانات سے تعبیر کیا، دراصل ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کو انسان سے جوڑتی ہے، دلوں میں سکون پیدا کرتی ہے، اور تعلقات میں وفا اور استحکام کا ذریعہ بنتی ہے۔ مگر جب یہی محبت شریعت کی رہنمائی سے آزاد ہو جائے، نفس کی پیروی کا شکار ہو جائے، اور ذمّہ داری و طہارت سے خالی ہو کر فقط خواہشات کی تسکین کا ذریعہ بن جائے، تو یہ نعمت فتنہ بن جاتی ہے — اور فتنہ، جیسا کہ قرآن کہتا ہے، “الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ” (فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے)۔

آج کا انسان جدیدیت اور آزادی کے نام پر محبت کو جس طرح کا کھیل بنا چکا ہے، وہ نہ صرف اخلاقی پستی کا مظہر ہے بلکہ معاشرتی تباہی کا پیش خیمہ بھی۔ قرآن و سنّت نے جس محبت کو نکاح کے بابرکت ادارے کے ذریعے تحفّظ دیا، موجودہ معاشرے نے اسے حرام تعلقات، خیانت، اور نفس پرستی کی نذر کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب محبت کے قصّے محبت کی تکمیل پر نہیں، بلکہ خون، بے وفائی، قتل اور بربادی پر ختم ہونے لگے ہیں۔

نکاح میں ہے راحتِ دل و جاں
یہی ہے سنّت، یہی ہے قرآں

یہ مضمون محض ایک جذباتی کہانی نہیں، بلکہ معاشرے کے اخلاقی زوال، بے راہ روی، اور اسلامی اقدار سے دوری کی ایک عبرت انگیز تصویر ہے۔ اسے صرف ایک فرد کا جرم سمجھ کر نظر انداز کر دینا کافی نہیں، بلکہ پوری قوم کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جب معاشرہ اجتماعی طور پر محبت کو فحاشی، تعلقات کو بے قاعدگی، اور رشتوں کو وقتی تسکین کا نام دے دے، تو پھر ایسی محبت صرف تباہی لاتی ہے — دنیا میں بھی، اور آخرت میں بھی۔

محبت ایک ایسا لطیف، نازک اور بلند مقام رکھنے والا جذبہ ہے، جو اگر خلوص، احترام اور ذمّہ داری سے خالی ہو جائے، تو صرف تباہی لاتا ہے۔ یہ صرف دلوں کا کھیل نہیں، زندگیوں کا آئینہ ہے — اور جب آئینہ جھوٹ کے غبار سے دھندلا جائے، تو چہرے پہچانے نہیں جاتے، اور انجام اندوہناک ہو جاتے ہیں۔ یہ کہانی صرف دو افراد کی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرتی رویّوں کے بگاڑ اور اخلاقی قدروں کی شکست و ریخت کی آئینہ دار ہے — وہ قدریں جو کسی بھی مہذب معاشرے کی بنیاد ہوا کرتی ہیں۔ آج کا انسان، جذبات کی اندھی دوڑ میں، شاید یہ بھول بیٹھا ہے کہ انسانیت، عزّت، وفاداری اور خود زندگی، یہ سب کسی لمحاتی خواہش سے کہیں زیادہ قیمتی چیزیں ہیں۔ اور اگر ان سب کو داؤ پر لگا دیا جائے، تو اس کے انجام کے لیے کسی اور کو نہیں، خود معاشرے کو تیار رہنا ہوگا۔

یہی کچھ اُس عورت کے ساتھ ہوا — جو تین بچّوں کی ماں تھی، عمر کی تیس سے زائد بہاریں دیکھ چکی تھی، مگر دل کے کسی کونے میں  وہ محبت، وہ وارفتگی، وہ رنگینی، جسے فلمی دنیا میں رومان کا نام دیا جاتا ہے، اس کے لمس سے اب تک محروم تھی۔  وہ پیاس و لمس، وہ تشنگی اب بھی باقی تھی، جو محبت، وارفتگی، اور فلمی رومان کے تصور سے وابستہ ہوتی ہے۔ شاید وہ محبت کے اس ذائقے سے ناواقف تھی، جس کی رنگینیاں ہر طرف بکھری ہوتی ہیں، مگر اکثر محض خواب ہی ثابت ہوتی ہیں۔

ایک روز، ایک ہجوم سے بھرے میلے میں، اس کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی۔ وہ عمر میں اس سے دس برس چھوٹا تھا، اور شاید جذبات کے پہلے سفر کے لیے بے قرار بھی۔ چند رسمی جملے، چند نگاہوں کی جھجک، اور پھر فون نمبروں کا تبادلہ — آغاز ہو چکا تھا۔ رابطے کا یہ سلسلہ تیزی سے آگے بڑھا۔ ملاقاتیں ہوئیں، قربتیں بڑھیں، اور رفتہ رفتہ وہ سب کچھ ہونے لگا، جو اکثر محبت کے نام پر جائز و ناجائز کی حدود کو مٹا دیتا ہے۔ ایک ایسی دنیا بسنے لگی تھی، جس کا دروازہ بند تھا مگر انجام کھلا۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود تھی کہ محبت کی گلی بہت تنگ ہوتی ہے — اتنی تنگ کہ ذرا سی لغزش بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔

جہاں جذبات ہوں بے لگام
وہاں بربادی ہو انجام

جلد ہی عورت کے شوہر کو شک ہونے لگا۔ وہ فاصلے اختیار کرنے لگی۔ ممکن ہے اس کے لیے یہ تعلق صرف ایک وقتی کشش تھا، ایک خلا جسے وقتی طور پر پُر کیا جا سکا۔ اب اسے اپنے اصل دائرے، اپنے خاندان، اپنے بچّوں، اور اپنی زندگی کی طرف لوٹ جانا تھا۔ لیکن نوجوان کے لیے یہ سب کچھ زندگی کا مرکز بن چکا تھا۔ وہ اس رشتے کو دل سے سچ مان بیٹھا تھا۔ جب فاصلوں نے شدّت اختیار کی تو اس نے ایک “آخری ملاقات” کا وعدہ لیا — شاید دل میں یہ امید لیے کہ کچھ واپس مل جائے، شاید رشتہ ایک نئی کروٹ لے۔ مگر اُس ملاقات کے اختتام پر عورت نے وہ فیصلہ کن جملہ کہا: “اب دوبارہ رابطہ مت کرنا”۔

یہ جملہ، نوجوان کے لیے گویا ایک زلزلہ تھا۔ اُس کے جذبات کی زمین ہل گئی۔ اس کے دل پر ایک ایسا نشتر چلا، جو نہ صرف جذبات کو زخمی کر گیا بلکہ عقل کو بھی مفلوج کر گیا۔ اور پھر وہ قدم اٹھا لیا گیا، جو صرف تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا تھا — اُس نے جنون کی حالت میں اپنی محبوبہ کو قتل کر دیا۔ یوں محبت کا وہ خواب، جو وارفتگی سے شروع ہوا تھا، المیے پر ختم ہوا۔ یہ محض ایک کہانی نہیں، ایک نشانِ عبرت ہے۔ معاشرے کو سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ کیا ہم جذبات کو اصولوں سے بالا رکھ کر اپنی بنیادیں کھو رہے ہیں؟ اور اگر ہاں — تو ہم سب اس زوال کے شریک مجرم ہیں۔

محبت ایک لطیف اور بلند جذبہ ہے — ایسا جذبہ جو دلوں کو جوڑتا ہے، روحوں کو ہم آہنگ کرتا ہے، اور زندگی کو ایک نئے مفہوم سے آشنا کرتا ہے۔ مگر یہی محبت، اگر خلوص سے خالی ہو، احترام سے محروم ہو، اور ذمّہ داری سے دامن بچاتی پھرے، تو پھر یہ محض ایک فریب بن جاتی ہے — ایک ایسی آگ جو سب کچھ راکھ کر دیتی ہے: اعتماد، عزّت، رشتے، اور آخرکار زندگی خود۔ یہ کہانی صرف دو افراد کی جذباتی لغزش کی داستان نہیں، بلکہ ایک بڑے معاشرتی زوال کی عکّاس ہے۔ یہ ان قدروں کی خاموش موت کی علامت ہے جن پر انسانیت کا قصر استوار ہوتا ہے — وفاداری، حرمتِ تعلق، وفورِ احساس، اور قربانی۔

ہمارا معاشرہ، جو بظاہر ترقی کے سفر پر ہے، دراصل اخلاقی طور پر ایک ایسی گہری کھائی کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں جذبات کا تقدّس پامال ہو رہا ہے، جہاں تعلقات محض وقتی تسکین کے کھلونوں میں بدل چکے ہیں، اور جہاں انسان کی وقعت، صرف ایک “لمحاتی تجربے” سے زیادہ نہیں رہی۔ محبت جب نفس کی تسکین، معاشرتی بندشوں سے فرار، یا فلمی رومانس کی نقل بن جائے، تو وہ اپنی اصل کھو دیتی ہے۔ پھر وہ وہی بنتی ہے جو اس کہانی میں بنی — بے لگام خواہش کا شکار، یک طرفہ شدّت کا مظہر، اور آخر میں خوں آشام انجام کا پیش خیمہ۔

ہمیں سوچنا ہوگا — سنجیدگی سے، دیانت داری سے — کہ کیا واقعی ہم اس محبت کو سمجھتے ہیں جسے ہم ہر گیت، ہر کہانی، ہر فلم اور ہر خیال میں دہراتے رہتے ہیں؟ یا ہم صرف اس کے سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ اگر محبت سے عزّت رخصت ہو جائے، اگر وہ فریب، خود غرضی اور غیر اخلاقی آزادی کا بہانہ بن جائے، تو پھر ہمیں کسی قاتل کو موردِ الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے — اس سانحے کے پیچھے صرف ایک شخص نہیں، ایک سوچ، ایک بے مہار رویہ اور ایک خاموش معاشرہ ہوتا ہے۔

ایسے میں اخلاقیات کے پرچارک اگر خاموش ہیں، یا طنز کا نشانہ بن رہے ہیں، تو یہ نہایت افسوسناک ہے — کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو اندھیرے میں جلتے چراغوں کی مانند ہیں، جن کی روشنی کبھی راہ دکھا سکتی تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم محبت کو ایک ذمّہ داری، ایک عہد، اور ایک صداقت سمجھیں۔ وگرنہ، یہ “محبت کی گلی” مزید تنگ ہوتی جائے گی — اتنی تنگ کہ آخرکار صرف اندھیرا باقی رہ جائے گا، اور ایک اور لاش۔

نہ دل بچتا ہے، نہ جسم و جاں،
رہ جاتی ہے فقط اک خالی آغوشِ فغاں

اسلام، محبت کو فطری جذبہ مانتا ہے، لیکن اس کی رہنمائی میں محبت کو پاکیزگی، وفاداری اور طہارت کا پیکر بنایا گیا ہے۔ قرآن و سنّت کی تعلیمات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہر جذبہ، خواہ وہ کتنا ہی فطری اور دلکش کیوں نہ ہو، اگر اس کی باگ نفس کے ہاتھ میں دے دی جائے اور شریعت کے اصولوں سے آزاد کر دیا جائے، تو وہ انسان کو حیوانی سطح تک گرا دیتا ہے۔

محبت، جب اللّٰہ کی رضا اور حلال دائرے میں ہو، تو یہ عبادت بن جاتی ہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا: “لم يُرَ للمتحابين مثلُ النكاح”، “محبت کرنے والوں کے لیے نکاح جیسی (حلال) چیز کوئی نہیں دیکھی گئی” (سنن ابن ماجہ: 1847)۔

اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ محبت اگر حدود اللّٰہ کے تابع ہو، تو وہ خاندان کی بنیاد مضبوط کرتی ہے، نسلوں کو سنوارتی ہے، اور معاشرے میں سکون، عفّت اور رحمت کا سبب بنتی ہے۔ لیکن اگر یہی محبت شہوت، خود غرضی اور معاشرتی بغاوت کا روپ دھار لے، تو پھر وہ نہ صرف فرد کو برباد کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کے لیے زہرِ قاتل بن جاتی ہے۔ لہٰذا، ہمیں ضرورت ہے کہ ہم محبت کو “مقدس جذبہ” کی حیثیت دیں — ایسا جذبہ جو خلوص، وفا، اور شرعی حدود کے اندر پروان چڑھے۔ اس کے برعکس، اگر محبت کو “دہکتا جنون” بنا دیا جائے، تو وہ انسان کو ظالم، سفاک اور کبھی کبھار قاتل بنا دیتی ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ ہمیں نفس کے فریب سے بچائے، ہمارے جذبات کو ایمان اور شریعت کے تابع کرے، اور ہمارے دلوں کو اُس محبت سے روشن کرے جو ہمیں اُس کی محبت تک لے جائے — کیونکہ “وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ”
“ایمان والے اللّٰہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں”(سورہ بقرہ: 165)۔ آئیے ہم محبت کو پھر سے عبادت بنائیں، نہ کہ خواہشات کا کھلونا۔

أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ” ہے عشق کی معراج
باقی سب کچھ محض دھوکہ، فریب و سماج

                    (12.06.2025)
•┅┄┈•※‌✤م✿خ✤‌※┅┄┈•
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!