ایران پراسرائیلی حملوں کی تفصیلات,جوہری تنصیبات پربمباری،عسکری قیادت اور سائنسدان نشانے پر

(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ ، ایجنسیاں)
اسرائیل کی جانب سے جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائلوں کے کارخانوں اور فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا .… اور ایران کے ممکنہ انتقامی میزائل و ڈرون حملوں کے پیش نظر اسرائیل میں ہنگامی حالت کا اعلان
اسرائیل نے جمعے کے روز ایران پر بم باری کی، جس میں اس کا کہنا ہے کہ جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائلوں کے کارخانے اور فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کارروائی ایک طویل فوجی مہم کے آغاز کے طور پر کی گئی، جس کا مقصد تہران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا بتایا گیا۔ ایرانی ذرائع ابلاغ اور عینی شاہدین کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں دھماکے سنے گئے، جن میں یورینیم افزودگی کے لیے نطنز کی اہم تنصیب بھی شامل ہے۔ اسرائیل نے ایرانی جوابی حملوں کے خدشے کے پیش نظر ہنگامی حالت کا اعلان کیا ہے۔
ایرانی فوجی کمانڈروں کی ہلاکت
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ حسین سلامی فضائی حملے میں مارے گئے، اور تہران میں پاسداران کے ہیڈکوارٹر پر بھی بم باری کی گئی۔ مزید بتایا گیا کہ دار الحکومت میں ایک رہائشی علاقے پر حملے میں کئی بچے بھی جاں بحق ہوئے۔ ان حملوں میں پاسداران کے سینئر کمانڈر غلام علی رشید، اور دو معروف جوہری سائنس دان، محمد مهدی طهرانچی اور فریدون عباسی بھی مارے گئے۔ ایرانی ذرائع نے مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی۔
ایرانی رہبر اعلیٰ کے مشیر علی شمخانی بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے، یہ بات امریکی میڈیا نے بتائی۔ اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ “ہم نے ایرانی نظام کے تین اعلیٰ ترین فوجی رہنماؤں کو نشانہ بنایا ہے، جن میں چیف آف اسٹاف اور پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ شامل ہیں۔”
ایرانی سائنس دانوں کو نشانہ بنایا گیا
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے وڈیو بیان میں کہا ہے “یہ اسرائیل کی تاریخ کا ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ہم نے آپریشن ’اُبھرتا ہوا شیر‘ شروع کیا ہے تاکہ ایران کے وجودی خطرے کا خاتمہ کیا جا سکے۔” انھوں نے کہا کہ یہ کارروائی کئی روز تک جاری رہے گی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اس کارروائی میں ایرانی جوہری سائنس دانوں، بیلسٹک میزائل پروگرام اور نطنز میں موجود یورینیم افزودگی کی مرکزی تنصیب کو نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی سرکاری ذرائع کے مطابق اسرائیلی حملے میں چھ معروف جوہری سائنس دان مارے گئے، جن کے نام یہ ہیں:
1۔ عبدالحمید منوچہر
2۔ احمد رضا ذو الفقاری
3۔ امیر حسین فقیہی
4۔ محمد مهدی طہرانچی
5۔ فریدون عباسی
6۔ مطلبی زادہ
اسرائیلی فوجی ذرائع کے مطابق انھوں نے “درجنوں” جوہری اور فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران کے پاس اتنا مواد موجود ہے کہ وہ چند دنوں میں 15 ایٹمی بم بنا سکتا ہے۔
امریکی ویب سائٹ “ایکسيوس” نے ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدے دار کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ موساد نے ایران کے اندر خفیہ تخریبی کارروائیاں بھی کیں، جن کا مقصد ایرانی میزائل نظام اور فضائی دفاعی صلاحیتوں کو تباہ کرنا تھا۔ تل ابیب میں بن گوریون ہوائی اڈا بند کر دیا گیا ہے اور اسرائیلی فضائی دفاعی یونٹس کو الرٹ پر رکھا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے کہا “ہماری پیشگی کارروائی کے بعد ایران کی جانب سے میزائل اور ڈرون حملے متوقع ہیں۔”
امریکی موقف اور سفارتی سرگرمیاں
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بیان دیا کہ اسرائیل نے یہ کارروائی تنہا کی ہے، امریکہ اس میں شامل نہیں تھا۔ انھوں نے کہا “ہماری اولین ترجیح خطے میں امریکی افواج کا تحفظ ہے۔” وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج صبح قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کریں گے۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے کہا کہ ہزاروں فوجیوں کو متحرک کیا گیا ہے۔ “ہم ایک تاریخی اور فیصلہ کن فوجی مہم کے درمیان ہیں، جس کا مقصد ایک وجودی خطرے کو ختم کرنا ہے۔”
اس حملے کے بعد عالمی بازاروں میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، جب کہ اسٹاک مارکیٹس متاثر ہوئیں اور سرمایہ کار محفوظ اثاثوں کی طرف راغب ہوئے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان یورینیم افزودگی سے متعلق مذاکرات کا چھٹا دور اتوار کو عمان میں ہونا تھا، لیکن اب وہ تعطل کا شکار دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ روز صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران پر اسرائیلی حملے کا امکان “انتہائی ممکن” ہے، مگر ساتھ ہی وہ پرامن حل کی امید بھی رکھتے تھے۔ امریکی خفیہ اداروں نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ اسرائیل ایران کے جوہری ٹھکانوں پر حملہ کر سکتا ہے۔ ایک امریکی فوجی ذریعے نے “روئٹرز” کو بتایا کہ امریکی فوج خطے میں تمام ممکنات کے لیے تیار ہے، جن میں امریکی شہریوں کا انخلا بھی شامل ہے۔