مضامین

ایران-اسرائیل جنگ: مشرقِ وسطیٰ سے عالمی ضمیر تک ایک لرزہ خیز پیغام

🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•

                      (حصّہ دوّم)

6- ایران-اسرائیل جنگ: اُمّتِ مسلمہ کی بیداری یا فرقہ وارانہ تقسیم؟

ایران کی جانب سے فلسطینی عوام کی کھلی حمایت اور اسرائیل کے خلاف اس کی جرات مندانہ پوزیشن، عالمی سطح پر اُمّتِ مسلمہ کے ایک بڑے طبقے کے جذبات کو ابھار سکتی ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل، جو پہلے ہی فلسطین کے مسئلے پر بیدار ہے، وہ اس جنگ کو مظلوم کے حق میں اٹھنے والی آواز، قبلۂ اول کے دفاع اور اسلامی وحدت کی ممکنہ علامت کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔ یہ جذبات درج ذیل ممالک میں احتجاج، ریلیوں اور عوامی بیداری کی شکل میں سامنے آ سکتے ہیں۔ پاکستان، ترکی، ملیشیا، انڈونیشیا، تیونس، مراکش، اردن یہاں تک کہ مغربی ممالک کے مسلمان نوجوان بھی سرگرم ہو سکتے ہیں۔ یہ صورتحال بعض اسلامی تحریکوں اور علماء کو بھی جرات کے ساتھ اپنی رائے عامہ کو منظم کرنے کا موقع دے سکتی ہے۔

تاہم، تصویر کا دوسرا رخ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ عرب-عجم تقسیم، کئی سنی عرب ریاستیں، خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، ایران کو ایک نظریاتی و اسٹریٹجک خطرہ سمجھتی ہیں۔ ان کے نزدیک ایران کا اثر و رسوخ شیعہ ملیشیاؤں کے ذریعہ عرب دنیا میں عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ اخوان المسلمون اور مزاحمتی تحریکوں کی حمایت سے ان کے اقتدار کے لیے خطرہ بنتا ہے۔ اسی لیے اسرائیل کے ساتھ خفیہ یا علانیہ تعلقات کو وہ ایران کے خلاف توازن کے طور پر دیکھتی ہیں۔

بعض مسلم حکومتیں اپنے اقتصادی مفادات اور امریکی دباؤ کے تحت اسرائیل مخالف بیانیے سے گریزاں رہتی ہیں۔ اس لیے ایران کی طرفداری کرنا ان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ جہاں عوامی سطح پر بیداری، جذبات، اور فلسطین سے ہمدردی میں اضافہ ہوگا، وہیں حکومتی سطح پر اضطراب، محتاط بیانیہ، یا خاموشی غالب رہے گی۔ یہ تضاد درج ذیل مشکلات پیدا کرے گا عوامی رویہ حکومتی رویہ، ایران کی حمایت ایران سے فاصلہ، فلسطینی کاز کی حمایت اسرائیل سے مصلحت، سوشل میڈیا پر سرگرمی سفارتی خاموشی یا دوغلا پن۔

مسئلہ فلسطین کو مسلکی چشمے سے نہ دیکھا جائے، ایران کی حمایت کا مطلب شیعت کی ترویج نہیں بلکہ ظلم کے خلاف مؤقف ہو۔ اسلامی ممالک کو فلسطینی کاز پر مشترکہ پالیسی بنانی چاہیے، OIC یا دیگر پلیٹ فارم پر مؤثر آواز بلند کی جائے۔ علماء، مفکرین اور سول سوسائٹی کو قیادت کرنی ہوگی تاکہ عوامی جذبات کو مہم میں ڈھالا جا سکے، محض ردعمل میں نہ بہہ جائیں۔

ایران-اسرائیل جنگ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری اسلامی دنیا کے اجتماعی شعور کا امتحان بن سکتی ہے۔ یہ جنگ ایک طرف عوامی بیداری کا ذریعہ بن سکتی ہے، تو دوسری طرف حکومتی مصلحتوں اور فرقہ وارانہ تقسیم کا آئینہ بھی بنے گی۔ اب یہ اُمّت پر ہے کہ وہ تاریخ کے اس موڑ پر انصاف، وحدت اور بصیرت کا راستہ اختیار کرتی ہے یا فرقہ، مفاد اور خاموشی کا۔

7- ایران-اسرائیل جنگ: کیا دنیا ایٹمی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے؟

ایران-اسرائیل جنگ کے ممکنہ اثرات صرف ایک علاقائی جنگ تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ یہ ایک ایسا بحران بن سکتا ہے جو عالمی امن و استحکام کو جڑوں سے ہلا دے۔ اس تصادم کے تیزی سے بگڑنے والے حالات نہ صرف سفارتی و سیاسی نظام کو چیلنج کریں گے، بلکہ دنیا کو ایٹمی ہلاکت خیزی کے دہانے تک لے جا سکتے ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ جنگ روایتی فوجی تصادم کے دائرے میں رہ سکتی ہے، جیسے میزائل حملے، ڈرون حملے، سائبر وار، پراکسی گروہوں کی کارروائیاں لیکن جیسے ہی نقصان کی شدّت بڑھے گی، جنگ کے توازن میں تبدیلی آئے گی اور ایٹمی خطرہ سر اٹھا سکتا ہے۔

اگر ایران کو لگے کہ اس کا وجود خطرے میں ہے، عالمی برادری اس کے خلاف متحد ہوگئی ہے، اسرائیل کی جارحیت بے لگام ہوگئی ہے تو ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو تیز کرسکتا ہے۔ اس کی علامات پہلے سے موجود ہیں۔ یورینیم کی بلند سطح تک افزودگی، IAEA سے تعاون میں کمی، “ڈیٹرنس”  Deterrence کی حکمت عملی پر زور۔ یہ اقدام اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے لیے ناقابلِ قبول سرخ لکیر ہوگا۔

اسرائیل کی دفاعی پالیسی میں “سمسن آپشن” ایک انتہائی اور خطرناک حکمت عملی ہے، جس کے تحت “اگر اسرائیل کا وجود خطرے میں پڑ جائے، تو وہ ایٹمی حملے سے اپنے دشمنوں کو مکمل تباہ کر دے گا، خواہ اس میں خود بھی تباہ ہو جائے”۔ یہ نظریہ ایک خودکشی پر مبنی انتقامی حملہ تصور کیا جاتا ہے، اور اس کی بنیاد بائبل کے ایک کردار “سمسن” کی کہانی پر ہے، جس نے دشمنوں کو مارنے کے لیے خود کو بھی قربان کر دیا تھا۔ اس کی ممکنہ علامات، ایٹمی سب میرینز کی حرکت، ایٹمی تنصیبات کو الرٹ پر لانا، عالمی برادری کو سخت پیغامات دینا: “ہم زندہ نہیں رہیں گے تو تم بھی نہیں بچو گے”۔

خلیجی ممالک خوفزدہ ہوں گے کہ وہ ایٹمی fallout یا حملوں کی زد میں نہ آ جائیں۔ ایران اور اسرائیل دونوں کے خلاف غم و غصّہ، لیکن عملی طور پر خاموشی یا مصلحت۔ امریکہ و یورپ فوری جنگ بندی پر زور دیں گے۔ ایران کے خلاف مزید پابندیاں لگائی جائیں گی۔ اسرائیل کی پشت پناہی، لیکن ایٹمی حملے سے گریز کی کوشش کی جائے گی۔ روس و چین ایران کی حمایت یا کم از کم مخالفت نہیں کریں گے۔ مغرب کے اثر کو محدود کرنے کی سفارتی کوشش کی جائے گی۔

ایران-اسرائیل جنگ اگر طول پکڑتی ہے، تو روایتی جنگ کی حد سے نکل کر ایٹمی تصادم میں بدل سکتی ہے۔ ایسے میں دنیا کو ایک نئی ہیروشیما و ناگاساکی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اُمّتِ مسلمہ کی وحدت، انسانیت کی بقا اور عالمی امن، تینوں شدید خطرے میں ہوں گے۔ اس لیے اس جنگ کو محض جغرافیائی تنازع نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے انسانی تاریخ کی ممکنہ المیے کے طور پر دیکھا جائے، جس سے بچاؤ کے لیے عالمی سطح پر بروقت اور دانشمندانہ اقدامات ناگزیر ہیں۔

8- اسرائیل کا داخلی زلزلہ: ایران-اسرائیل جنگ اور ایک نظریاتی ریاست کا بحران

ایران-اسرائیل جنگ کی صورت میں جہاں علاقائی اور عالمی سطح پر زبردست ہلچل پیدا ہوسکتی ہے، وہیں خود اسرائیل کے اندر ایک سنگین داخلی بحران جنم لے سکتا ہے۔ اگر ایران کی جوابی صلاحیت، خصوصاً اس کے میزائل اور ڈرون حملے مؤثر ثابت ہوئے، تو اسرائیل کی وہ اندرونی ساخت جو برسوں سے عسکری قوت اور سیکیورٹی کی بنیاد پر قائم ہے، لرز سکتی ہے۔ ایران کے حملوں کی تباہ کن مؤثریت، اگر ایران براہ راست یا اپنے اتحادیوں (حزب اللّٰہ، حماس، عراقی یا یمنی ملیشیائیں) کے ذریعے تل ابیب، حیفا، اشدود، بیر شبع یا دیگر بڑے شہروں پر میزائل اور ڈرون حملے کرتا ہے۔ اسرائیل کی آئرن ڈوم (Iron Dome) دفاعی نظام کو مکمل ناکام یا جزوی طور پر ناکام بنا دیتا ہے۔ بجلی، پانی، اور مواصلاتی نظام مفلوج ہو جاتے ہیں۔ تو اس کے نتائج صرف فزیکل ڈیمیج تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ اسرائیلی عوام کے اعتماد کی بنیادیں ہل جائیں گی۔

یہودی آبادی میں خوف اور ممکنہ نقل مکانی، اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر ایک “محفوظ پناہ گاہ” فراہم کرنے کے نظریے پر قائم ہے۔ لیکن اگر عام شہری علاقوں میں بڑی تباہی ہوتی ہے۔ اسکول، اسپتال، بازار، عبادت گاہیں نشانہ بنتی ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی ہے۔ تو یہ نظریہ شدید چیلنج کا شکار ہو گا، اور یہودی آبادی کا ایک طبقہ دوسرے ممالک (خصوصاً یورپ، امریکا، آسٹریلیا) کی طرف واپسی یا ہجرت پر غور کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ صرف فزیکل سیکورٹی کا نہیں بلکہ نفسیاتی اور نظریاتی صدمے کا ہوگا۔

نیتن یاہو حکومت کے خلاف داخلی احتجاج، نیتن یاہو کی قیادت پہلے ہی عدالتی اصلاحات کے تنازع، کرپشن کے الزامات، غزہ جنگ میں بھاری جانی نقصان، فلسطینیوں سے سخت گیر پالیسی کے باعث شدید تنقید کی زد میں رہی ہے۔ جنگی ناکامی کی صورت میں عوامی مظاہروں میں شدت آسکتی ہے۔ فوجی قیادت پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے۔ خاص طور پر اگر جنگ طول پکڑتی ہے اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، تو حکومت کی سیاسی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

اسرائیلی معاشرتی تانے بانے میں دراڑیں، اسرائیل میں مختلف النوع یہودی گروہ آباد ہیں، اشکنازی، سیفاردی، مزراحی، روسی، ایتھوپیائی، اور مذہبی و سیکولر طبقات جن کے درمیان پہلے ہی نسلی، طبقاتی اور نظریاتی تفریق پائی جاتی ہے۔ جنگ کی تباہ کاریوں سے، ان طبقات کے درمیان قصوروار ٹھہرانے کا رجحان بڑھے گا۔ حکومتی ترجیحات اور عدم مساوات پر سوالات اٹھیں گے۔ شہریوں کے درمیان اعتماد کمزور ہوگا۔ اسرائیل کے لیے وجودی بحران، اگرچہ اسرائیل ایک مضبوط عسکری قوت ہے، لیکن اس کی اندرونی استحکام کی دیوار، سیکیورٹی، فکری وحدت، عالمی حمایت، نظریاتی اعتماد، پر قائم ہے۔ ایران کے مؤثر حملے ان تمام ستونوں کو متزلزل کر سکتے ہیں، اور ایک ایسے وجودی بحران کو جنم دے سکتے ہیں جس سے نکلنا اسرائیل کے لیے آسان نہ ہوگا۔

9- اندرونی محاذ پر جنگ: ایران-اسرائیل تصادم اور ایرانی ریاست کا وجودی بحران

ایران-اسرائیل جنگ کی صورت میں جہاں مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی نقشے پر ہلچل پیدا ہوگی، وہیں خود ایران کے اندر حکومت کی ساکھ، سیاسی استحکام اور داخلی نظام ایک بڑے چیلنج سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس جنگ کے اثرات محض خارجی محاذ تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ یہ ایرانی ریاست کے نظامِ حکومت، عوامی جذبات، اور طاقت کے توازن کو بھی شدید متاثر کر سکتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس داخلی بحران کو تسلسل و ربط کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

ایران کی موجودہ حکومت (سپریم لیڈر، پاسدارانِ انقلاب، اور قدامت پسند مذہبی اشرافیہ) اپنی طاقت کا سر چشمہ درج ذیل پر مبنی ہے۔ انقلابی بیانیہ (“استکبار کے خلاف مزاحمت”)، اسلامی نظریاتی جواز، فلسطین اور مظلوموں کی حمایت کا موقف۔ لیکن اگر جنگ طول پکڑتی ہے، بڑے پیمانے پر ایرانی شہری علاقوں پر اسرائیلی حملے ہوتے ہیں، اقتصادی نظام بیٹھ جاتا ہے، عوامی جانی نقصان بڑھتا ہے، تو یہ بیانیہ کمزور پڑنے لگے گا، اور عوام کی نظر میں حکومت کی اہلیت اور نیت دونوں پر سوالات اٹھنے لگیں گے۔

عوامی مظاہروں کا از سر نو ابھار، ایران ماضی قریب میں کئی عوامی تحریکوں سے گزر چکا ہے۔ 2009ء کا “گرین موؤمنٹ”، 2019ء کے تیل کی قیمتوں پر مظاہرے، 2022ء میں مہسا امینی کی موت کے بعد کی تحریک، یہ مظاہرے مہنگائی، بے روزگاری، شہری آزادیوں کی کمی، خواتین پر پابندیوں، جیسے مسائل پر مبنی تھے۔ جنگ کی صورت میں اگر بنیادی سہولیات متاثر ہوں (بجلی، پانی، دوائیں)، معیشت مزید دباؤ کا شکار ہو، نوجوانوں کی بڑی تعداد مارے جائے یا جنگ کے لیے بھرتی کی جائے۔ تو یہ مظاہرے مزاحمتی تحریک میں تبدیل ہو سکتے ہیں، جو صرف پالیسی نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کرے۔

نظام میں دراڑیں اور ممکنہ بغاوت، ایران کا سیاسی و عسکری نظام اندرونی طور پر کئی گروہوں میں منقسم ہے۔ پاسدارانِ انقلاب (IRGC)، روایتی فوج (Artesh)، اعتدال پسند سیاستدان، اصلاح پسند اپوزیشن، قدامت پسند مذہبی طبقہ، جنگی دباؤ کے دوران ان میں درج ذیل قسم کی دھڑے بندی ممکن ہے۔ پاسداران انقلاب طاقت کا ارتکاز، اقتدار پر مکمل قبضے کی کوشش، روایتی فوج اگر جنگ میں زبردست نقصان ہو تو ممکنہ بغاوت، اصلاح پسند حکومت کی ناکامی پر نظام کی تبدیلی کا مطالبہ، عوامی دباؤ مظاہروں سے مکمل انقلابی فضا، یہ حالات ایسی داخلی انارکی کی صورت اختیار کر سکتے ہیں جس سے فوجی بغاوت، سویلین نافرمانی، نظامِ ولایت فقیہ پر کھلا سوال جیسے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

انقلابی نظریہ کا بحران، ایران کی ریاستی شناخت 1979ء کے اسلامی انقلاب سے جڑی ہے، جو سامراج مخالف جدوجہد، مظلوموں کی حمایت، شیعہ نظریاتی قیادت، پر مبنی ہے۔ لیکن اگر اسرائیل کے حملوں سے تہران یا قم جیسے مقدس شہروں کو نقصان پہنچے، عوام میں مایوسی اور غصّہ پیدا ہو، قیادت محفوظ بنکروں میں نظر آئے تو انقلابی نظریے کو عوامی سطح پر شدید دھچکا لگے گا۔ اگرچہ ایرانی حکومت سخت گیر اور منظم ہے، لیکن جنگ جیسے وجودی بحران میں قیادت کے لیے سیاسی ساکھ بچانا مشکل ہوگا، ریاست کے سیکورٹی ڈھانچے میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ عوامی بغاوت، اپوزیشن کی حوصلہ افزائی، اور بیرونی مداخلت!! تینوں مل کر نظام کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔ ایران-اسرائیل جنگ، ایران کے لیے ایک دو دھاری تلوار بن سکتی ہے، جہاں ایک طرف وہ فلسطینی کاز کا دفاع کرتے ہوئے عالمی سطح پر اپنی اخلاقی پوزیشن مستحکم کرنا چاہے گا، وہیں داخلی محاذ پر اسے اپنے نظام کے وجود کو بچانے کے لیے سب سے بڑی آزمائش کا سامنا ہو سکتا ہے۔

10- تباہی کے بطن سے اُمید: ایران-اسرائیل جنگ اور مسئلہ فلسطین کی عالمی بازگشت

ایران-اسرائیل جنگ بلاشبہ ایک مہلک اور خطرناک تصادم ہوگا، لیکن اس کے اندر ایک عجیب قسم کی سچائی یہ بھی چھپی ہو سکتی ہے کہ اس کے ذریعے وہ مسئلہ جو برسوں سے دنیا کی بے حسی، اسرائیلی پروپیگنڈے اور عالمی طاقتوں کی دوغلی پالیسیوں کے نیچے دب گیا تھا۔ فلسطین کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر مرکزی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ یہ پہلو اگرچہ ایک مثبت سفارتی اور انسانی اثر ہوگا، لیکن اس کی بنیاد ایک بڑی تباہی پر استوار ہوگی۔ فلسطین عالمی ضمیر کا موضوعِ بحث بنے گا۔ گزشتہ چند دہائیوں سے فلسطینی کاز کو “دہشت گردی” کے بیانیے میں گم کر دیا گیا، عرب ریاستوں نے خاموشی اختیار کی یا اسرائیل سے معاہدے کر لیے، عالمی میڈیا نے اسے “غزہ کے راکٹ” یا “امن کی کوششوں” کے محدود زاویے سے دکھایا۔

مگر اگر ایران اس جنگ کو فلسطین کے دفاع کے عنوان سے لڑتا ہے، اور اسرائیل کی غزہ، جنین، نابلس، یا مسجد اقصیٰ پر جارحیت کو بنیاد بناتا ہے۔ عالمی سطح پر اسے “مظلوموں کی حمایت” کا مقدمہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہ (حماس، اسلامی جہاد، وغیرہ) اس جنگ میں کھل کر شامل ہو جاتے ہیں۔ تو یہ پوری جنگ فلسطین کو مرکزِ نگاہ بنا دے گی، اور دنیا کو مجبور کرے گی کہ وہ اس بنیادی تنازعے کو نظر انداز نہ کرے۔

عالمی میڈیا میں کوریج اور بیانیے کی تبدیلی، ایران-اسرائیل جنگ کی نوعیت ایسی ہو گی کہ مغربی میڈیا کے لیے اسے مکمل طور پر ایران کے خلاف بیانیہ بنانا آسان نہیں ہوگا۔ تصاویر، ویڈیوز اور زمینی رپورٹس میں فلسطینی عوام کی تباہی نمایاں ہوگی۔ مظلوم و ظالم کا امتیاز واضح تر ہو جائے گا۔ یہ صورتحال ایک نئی پبلک اوپینین تشکیل دے سکتی ہے، جس میں فلسطین کو “عالمی انصاف” کا ٹیسٹ کیس تصور کیا جائے گا۔

اقوامِ متحدہ اور سفارتی حلقوں پر دباؤ جب جنگی تباہی مشرقِ وسطیٰ کو غیر مستحکم کر دے، مہاجرین کی تعداد بڑھے، تیل کی قیمتیں اور عالمی منڈی متاثر ہو، یورپی اور امریکی حکومتیں داخلی دباؤ کا شکار ہوں تو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے فلسطینی مسئلے کو صرف ایک “انسانی بحران” یا “سرحدی تنازعہ” نہیں بلکہ عالمی امن کا بنیادی چیلنج تصور کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ حالات ایک نئے عالمی امن فارمولے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں، جس میں فلسطینی ریاست کے قیام، بیت المقدس کی حیثیت، مہاجرین کی واپسی، اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے جیسے نکات سنجیدگی سے اٹھائے جا سکتے ہیں۔

اُمّتِ مسلمہ میں رائے عامہ کی بیداری، اگرچہ مسلم حکمران تقسیم کا شکار رہیں گے، لیکن عوامی سطح پر فلسطین کے لیے اتحاد بڑھے گا، ایران کی پوزیشن کو ایک “مزاحمتی طاقت” کے طور پر دیکھا جائے گا۔ عرب دنیا میں اسرائیل سے کیے گئے معاہدوں پر عوامی ناراضی میں اضافہ ہوگا۔ یہ کیفیت اُمّتِ مسلمہ کی فکری وحدت کے ایک نئے باب کا آغاز بن سکتی ہے، جو فلسطینیوں کے لیے اخلاقی اور سفارتی پشت پناہی کا مؤثر ذریعہ بنے گی۔

ایران-اسرائیل جنگ کے سبب فلسطینی کاز کو ایک نئی بین الاقوامی توجہ ملے گی۔ عالمی میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور پالیسی ساز ادارے اسے دوبارہ مرکزی تنازع ماننے پر مجبور ہوں گے۔ مسئلہ فلسطین کو “حل طلب قضیہ” کے بجائے فوری اقدام کے قابل بحران کے طور پر دیکھا جانے لگے گا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگرچہ ایران-اسرائیل جنگ خود ایک سانحہ ہوگی، مگر اس کے نتیجے میں فلسطین کے لیے عالمی سطح پر نئی راہیں، نئے سوالات، اور شاید نئی امیدیں جنم لے سکتی ہیں، بشرطیکہ دنیا ضمیر کا ثبوت دے، اور مظلوم کی آواز سننے کا حوصلہ رکھے۔

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو وہ اپنے ہی بوجھ تلے دب جاتا ہے، اور جب حق پامال ہوتا ہے تو ایک نہ ایک دن اسے آواز ضرور ملتی ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین ممکنہ جنگ محض دو ریاستوں کا تصادم نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی بےحسی، بےبسی، اور بے عملی کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ جنگ ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے کہ ہم صرف تماشائی نہ بنیں، بلکہ تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر حق، عدل اور انسانیت کی صف میں کھڑے ہوں۔ اب وقت ہے کہ ہم خالی تجزیے، سرد بیانات اور محدود مفادات کے خول سے نکلیں، اور دنیا کے مظلوموں، بالخصوص فلسطین کی سسکتی دھرتی اور شام کے زخم خوردہ بچّوں کے ساتھ اپنا رشتہ پھر سے جوڑیں۔ اس شعلہ فشاں فضا میں، جب افق پر دھواں ہے، زمین پر خون، اور فضاؤں میں آہیں، تب ہمیں اپنے ضمیر کی روشنی میں راستہ تلاش کرنا ہوگا۔

یہ وہ لمحہ ہے جب اُمّتِ مسلمہ کو صرف ایک ملت نہیں، بلکہ ایک زندہ شعور، ایک بیدار دل، اور ایک متحرک ضمیر بن کر اٹھنا ہوگا۔ ورنہ تاریخ یہ لکھے گی کہ ایک عہد ایسا بھی آیا، جب ظلم چیخا، انسانیت تڑپی، اور اُمّت خاموش تماشائی بنی رہی۔ اللّٰہ ہمیں وہ بینائی عطا کرے جو صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے دیکھی جاتی ہے۔ آمین۔

                        (ختم شد)

•┅┄┈•※‌✤م✿خ✤‌※┅┄┈•
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!