از قلم:محمد فرقان
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)
8495087865, mdfurqan7865@gmail.com
فلسطین وہ سرزمین ہے جہاں انبیاء علیہ السلام نے قدم رکھے، وہ مقدس خطہ جہاں اللہ کے محبوبوں کی صدائیں گونجتی تھیں، جہاں آسمانوں کی طرف معراج کا سفر شروع ہوا، جہاں بیت المقدس کے در و دیوار نے رسول اللہ ﷺ کی امامت دیکھی۔ وہی فلسطین آج خون میں نہایا ہوا ہے، وہی القدس آج صیہونی جارحیت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے، وہی اقصیٰ آج اُمت کے غفلت آلود سکوت پر نوحہ کناں ہے۔یہ مسئلہ صرف کسی قوم یا قبیلے کا مسئلہ نہیں، یہ کسی جغرافیائی یا نسلی نزاع کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ اُمت مسلمہ کی روحانی، دینی، اور ایمانی غیرت کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ درد ہے جسے ہر مومن کو اپنے سینے میں محسوس کرنا چاہیے، یہ وہ زخم ہے جو چودہ سو سالہ تاریخِ اسلام کے قلب پر لگا ہے۔ یہ وہ صدا ہے جو ارضِ
اقصیٰ سے اٹھتی ہے اور ہر باضمیر مسلمان کے دل کو چیر دیتی ہے۔
فلسطین کی اہمیت محض اس کی جغرافیائی حیثیت میں نہیں، بلکہ یہ وہ سرزمین ہے جسے قرآن نے مبارک کہا، جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے خوابوں کی وادی قرار دیا، جسے صحابہؓ نے اپنی جانوں سے سینچا، جس پر سیدنا فاروق اعظم ؓنے فتح کے بعد عدل کا جھنڈا گاڑا، اور جس کے باسیوں کو نبی کریم ﷺ نے اپنا بھائی قرار دیا۔ بیت المقدس وہ قبلہ اول ہے جس کی طرف رخ کرکے صحابہؓ نے برسوں نماز ادا کی، وہی مسجد ہے جہاں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء نے اللہ کے آخری نبی کے پیچھے نماز پڑھی، وہی جگہ ہے جہاں سے حضوراکرم ﷺ نے آسمانوں کا سفر کیا، اور وہی جگہ ہے جو قیامت کے قریب دجال اور امام مہدیؑ کے درمیان آخری معرکہ کی گواہ بنے گی۔
فلسطین کی سرزمین پر آج جو ظلم ہو رہا ہے، وہ تاریخ کا سب سے بھیانک باب ہے۔ لاکھوں بچے یتیم ہو چکے، ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں، مساجد کھنڈر بنادی گئیں، قرآن کے اوراق جلا دیے گئے، اسپتالوں پر بم برسائے گئے، اسکولوں میں بارود بھرا گیا، حتیٰ کہ وہ نومولود جنہوں نے ابھی دنیا کی ہوا تک نہ چھوئی، انہیں بھی میزائلوں نے آغوشِ اجل میں پہنچا دیا۔ یہ ظلم محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، یہ انسانیت کے چہرے پر طمانچہ ہے، یہ تہذیبِ مغرب کا اصل چہرہ ہے، یہ اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مکمل منافقت کا عکاس ہے۔ایک طرف غزہ کی گلیوں میں بچوں کے ٹکڑے بکھرے ہیں، دوسری طرف امریکہ و اسرائیل ہتھیاروں کے سودے کررہے ہیں۔ ایک طرف فلسطینی مائیں اپنے معصوم بچوں کی لاشیں گود میں لیے بین کررہی ہیں، تو دوسری طرف یورپی اقوام اسرائیلی جارحیت کو ”دفاعی کارروائی“ قرار دے کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کررہی ہیں۔ اقصیٰ کے منبر پر اذان دینے والے شہید کردیے گئے، قرآن سنانے والوں کے سینے چھلنی کردیے گئے، اور پوری دنیا… بالخصوص 57/ اسلامی ممالک… صرف مذمتی بیانات، علامتی اجلاس، اور خاموش دعاؤں تک محدود ہیں۔
کیا یہ امت محمد ﷺ کی غیرت کا مظہر ہے؟ کیا یہ اُمت جو ایک جسم کی مانند کہلائی، وہ اپنے ہی جسم کے ایک عضو کے زخم پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے؟ کیا یہ وہی امت ہے جس کے لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر تم نے ایک مظلوم مسلمان کی مدد نہ کی، تو اللہ تمہیں بھی بے یار و مددگار چھوڑ دے گا؟۔فلسطین آج صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، یہ پوری اُمت کا مسئلہ ہے، یہ ہماری ایمانی بقا، دینی غیرت، اور نبوی نسبت کا امتحان ہے۔ اگر آج ہم اقصیٰ کے حق میں نہ اٹھے، اگر آج ہم نے فلسطینیوں کی صداؤں پر لبیک نہ کہا، اگر آج ہم نے اپنی زبان، قلم، دل، اور وجود کو اس میں شریک نہ کیا، تو کل جب ہم رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہوں گے، تب ہم کس منہ سے کہیں گے کہ ہم آپ کی امت ہیں؟
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کا دفاع محض عسکری یا سیاسی مسئلہ نہیں، یہ ایمان کا تقاضا ہے۔ جس طرح ہم اپنے گھر کی دیوار کے ایک پتھر کو بھی غیروں کے قبضے میں نہیں جانے دیتے، اسی طرح بیت المقدس… جو ہمارا قبلہ اول ہے… وہ صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی مشترکہ وراثت ہے، اور اس کا تحفظ ہم سب کا فریضہ ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، اپنی ترجیحات کو بدلیں، اپنے دلوں میں فلسطین کے لیے درد پیدا کریں، اور ہر محاذ پر؛ چاہے وہ میڈیا ہو، معیشت ہو، سیاست ہو یا سفارت؛ فلسطین کے لیے ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، ان کمپنیوں کا محاسبہ کرنا چاہیے جو صیہونی جرائم میں شریک ہیں، ہمیں اپنی حکومتوں پر دباؤ بنانا چاہیے کہ وہ محض مذمتی بیانات پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں۔ہماری مساجد، ہمارے مدارس، ہمارے اسکول، ہمارے میڈیا، ہماری تحریریں، ہماری تقریریں، ہر ہر چیز کو فلسطین کا ترجمان بننا چاہیے۔ ہمیں امت کو بیدار کرنا ہوگا، دلوں میں ایمان کی حرارت جگانی ہوگی، نوجوانوں میں بیداری کی روح پھونکنی ہوگی، اور ظالموں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ امتِ محمدیہ مر نہیں گئی، بلکہ وہ لمحہ قریب ہے جب یہ امت اپنا کھویا ہوا وقار واپس لے گی۔
یاد رکھیے! اقصیٰ کا مسئلہ صرف فلسطینی ماں کے بیٹے کا مسئلہ نہیں، یہ آپ کے بیٹے کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کی بیٹی کے حجاب کا مسئلہ بھی ہے، یہ آپ کے ایمان کا مسئلہ بھی ہے۔ اگر آج ہم نے فلسطین کو تنہا چھوڑ دیا، تو کل ہماری گلیوں میں بھی یہی ظلم دہرایا جائے گا۔آج مسجد اقصیٰ پکار رہا ہے، غزہ چیخ رہا ہے، اور مظلوم بچوں کے لاشے ہم سے سوال کر رہے ہیں کہ کہاں ہے وہ امت جس کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا: ”مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں“؟ کہاں ہے وہ غیرت جو بدر و اُحد کے میدانوں میں گونجی تھی؟ کہاں ہیں وہ آنسو جو مظلوموں کے لیے بہا کرتے تھے؟ کہاں گیا وہ جذبہ جو کربلا میں یزید کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا تھا؟ اے امت مسلمہ! اُٹھ جا، ابھی وقت ہے، اب بھی جاگ جائے تو اقصیٰ بچ سکتا ہے، اگر تُو نے صدائے حق بلند کی تو ظلم کے ایوان لرز سکتے ہیں، اگر تُو نے فلسطینی بچوں کی چیخوں کو اپنی صدا بنا لیا تو پھر اقصیٰ کے منبر سے اذان کی گونج سنائی دے سکتی ہے، ورنہ یاد رکھ، تاریخ خاموش نہیں رہتی، کل یہی فلسطین تمہیں یاد کرے گا اور کہے گا: ”تم ہمارے اپنے تھے، مگر تم نے ہمیں یتیموں کی طرح تنہا چھوڑ دیا!“۔ اگر تیرے ہاتھ میں قلم ہے تو اسے فلسطین کا سفیر بنا، اگر تیری زبان میں اثر ہے تو اس سے فلسطین کی آہ کو دنیا تک پہنچا، اگر تیرے پاس دولت ہے تو اسے مظلوموں کی مدد میں خرچ کر، اگر تیرے پاس اثر و رسوخ ہے تو اسے اسرائیلی بائیکاٹ کے لیے استعمال کر، اور اگر تیرے پاس صرف دعا ہے تو اسے آنسوؤں اور سچائی سے بھر دے تاکہ وہ عرشِ الٰہی تک جا پہنچے؛ ورنہ جب قیامت کے دن ایمان کا سوال ہوگا، تو فلسطین کی چیخ تیرے جواب کے بیچ گونجے گی، اور بیت المقدس کی دیواریں گواہی دیں گی: ”یہ وہ لوگ تھے… جو امت کے زخموں پر پھول چڑھاتے رہے!“
اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے
مومن ہے تو پھر مسجد اقصیٰ کی خبر لے
(مضمون نگار مرکز تحفظ اسلام ہندکے بانی وڈائریکٹرہیں)
Mohammed Furqan
+918495087865