مضامین

قدس کی آگ: فطرت کا احتجاج یا تاریخ کا انتقام؟

══════•❁ا۩۝۩ا❁•══════
قدس کی آگ
فطرت کا احتجاج یا تاریخ کا انتقام؟
══════•○ ا۩۝۩ا ○•══════
🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
┄─═✧═✧═✧═✧═─┄

وَاِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمۡ رَبُّكَ اَعۡمَالَهُمۡ‌ ؕ اِنَّهٗ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ (القرآن – سورۃ هود: 111)
اور (اے نبی !) آپ کا ربّ ان سب کو ان کے اعمال کا لازماً پورا پورا بدلہ دے گا یقیناً وہ باخبر ہے اس سے جو عمل یہ لوگ کر رہے ہیں۔

قدس… وہ مبارک سر زمین جس کے بارے میں خود خالق کائنات نے فرمایا: "الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ” (سورۃ الاسراء: 1)۔ "جس کے گرد و نواح کو ہم نے برکت دی”۔ یہ سر زمین صرف جغرافیہ نہیں، یہ تاریخ کا مرکز، وحی کا مقام، اور انسانیت کے لیے الٰہی ہدایت کا دروازہ ہے۔ یہاں نہ صرف انبیاء کے قدم پڑے بلکہ سجدے، قربانیاں، اور صدائیں اس کی خاک میں جذب ہو چکی ہیں۔

اسلامی عقیدہ ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ فطرت خاموش نہیں رہتی۔ جب زمین پر ظلم بڑھ جائے، جب مظلوم کی فریادوں کو طاقت کے شور میں دبایا جائے، تو قدرت بول اٹھتی ہے—کبھی زلزلوں سے، کبھی طوفانوں سے، اور کبھی شعلوں سے۔ قرآن ان آفات کو صرف مادی مظاہر نہیں مانتا، بلکہ یہ "آیات” ہیں—نشانیاں، جن کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ انسانوں کو جھنجھوڑتا ہے، متنبہ کرتا ہے، اور بسا اوقات ظالموں کو ان کے انجام سے آشنا کرتا ہے۔

پس قدس کی آگ صرف ایک سانحہ نہیں، یہ ایک آیت ہے—ایک الٰہی پیغام، ایک تاریخی گواہی، اور عدلِ الٰہی کا ابتدائی مقدمہ۔ اس مضمون کا مقصد بھی صرف خبر دینا نہیں، بلکہ شعور جگانا ہے کہ کہیں ہم ان مظلوموں کی سسکیوں سے غافل ہو کر اس خاموش گواہی کے مجرم نہ بن جائیں جو آج شعلوں کی زبان میں ہم سے مخاطب ہے۔

قدس کی سر زمین—وہی مقدس وادی جہاں انبیاء نے سجدے کیے، جہاں صداؤں میں وحی گونجی، جہاں ہر ذرہ ایک دعا اور ہر آہٹ ایک صدا معلوم ہوتی تھی—آج ایک بار پھر آزمائش کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن اس بار آزمائش صرف ایک قدرتی آفت نہیں، یہ گویا ایک تاریخ کا احتجاج ہے، جو شعلوں کی صورت میں ظہور پذیر ہو رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں قدس کے نواحی علاقے ایک ہولناک اور غیر معمولی آگ کی زد میں آ چکے ہیں۔ یہ آگ فقط درختوں کو نہیں جلا رہی، بلکہ اس نے گھروں، خوابوں، اور اُن دعاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جو صدیوں سے اس خاک پر پروان چڑھتی آئی ہیں۔ شعلے جیسے بے قابو طوفان بن چکے ہیں، اور ہوائیں—جو کبھی اذان کی خوشبو بکھیرتی تھیں—اب بارود کی طرح ان شعلوں کو اور بھی بھڑکا رہی ہیں۔ فضاء میں سرخی نہیں، بلکہ احتجاج کی آگ ہے۔ ہر لپٹ ایک چیخ ہے، ہر دھواں ایک گواہی ہے۔

اس قیامت خیز منظر نے صہیونی آبادکاروں کو نہ صرف زخمی کر دیا ہے، بلکہ ان کے غرور کو بھی چٹخا کر رکھ دیا ہے۔ جھلسے ہوئے جسم اور گھٹتی ہوئی سانسیں اس حقیقت کا اشارہ ہیں کہ ظلم کی فصیلیں جب ٹوٹتی ہیں، تو صرف آوازیں نہیں، آگ بھی بولتی ہے۔ اس منظر کی سنگینی نے صہیونی ریاست کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے اپنے غرور کا لبادہ اتار کر دنیا کے سامنے مدد کی درخواست کرنی پڑی ہے۔

لیکن آج کی آگ صرف ایک سانحہ نہیں، یہ ایک علامت ہے—ایک جھلستا ہوا استعارہ، جو اس پورے نظام، اس پورے تسلّط، اس پوری استعماری ذہنیت پر سوالیہ نشان بن کر کھڑا ہے۔ قدس کی فضاؤں میں جو دھواں اٹھ رہا ہے، وہ محض جھلسے ہوئے پودوں کا نہیں، بلکہ ایک سچ کی راکھ ہے—وہ سچ جسے طاقت نے سالہا سال دبانے کی کوشش کی، اور جو اب خود کو شعلوں میں ڈھال کر زبان دے رہا ہے۔ قدس جل رہا ہے—لیکن شاید یہ جلن ایک نئی روشنی کی نوید ہے۔

یہ منظر گویا ماضی کے آئینے میں جھانکتا ہوا 2010ء کی کارمل جنگل کی اُس خوفناک آگ کی یاد تازہ کر رہا ہے، جب اسرائیل کی نام نہاد عسکری برتری اور تکنیکی خود کفالت کا طلسم خاک میں مل گیا تھا۔ اُس وقت، جبر و استبداد کی علمبردار ریاست کو مجبوراً اپنی عاجزی کا اعتراف کرنا پڑا، اور 24 مختلف ممالک کے دروازے کھٹکھٹا کر مدد کی درخواست کرنی پڑی تھی۔ اب تاریخ خود کو دہرا رہی ہے—لیکن اس بار شعلوں کی لپٹ کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔

آج بھی قدرت نے غرور کے قلعوں کو جھلسانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آگ، جو نہ مذہب جانتی ہے نہ نسل، اب انصاف کی زبان میں بولنے لگی ہے۔ صہیونی ریاست، جو ہمیشہ اپنی کمزوریوں کو مظلوموں کی سازش قرار دے کر چھپانے کی عادی رہی ہے، اس بار بھی وہی پرانا کھیل دہرا رہی ہے۔ صہیونی میڈیا، جو الفاظ کو ہتھیار بنا کر مظلوم کو مجرم ٹھہرانے کا ہنر خوب جانتا ہے، اب اس آفت کو بھی فلسطینیوں کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدیوں سے جن لوگوں نے جبر، قید، تشدّد، اور بے وطنی کی آگ میں اپنے وجود کو جھونکا ہے، انہیں آج اس شعلہ باری کا ذمّہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جن کے آنگن برسوں سے ویران ہیں، جن کے خواب ملبے تلے دفن ہو چکے ہیں، وہ اب ان شعلوں کے پس پردہ دکھائے جا رہے ہیں—گویا ظلم کے ماروں نے اب آگ کا سہارا لے کر فریاد کی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ محض ایک اور الزام ہے، ایک اور فریب، ایک اور کہانی جو سچ کو دفنانے کے لیے گھڑی جا رہی ہے؟ یا پھر ان شعلوں میں کوئی ایسی صدا پوشیدہ ہے جو دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے آئی ہے؟ وقت ہی وہ کاتب ہے جو سچ کو سنوار کر تاریخ کے اوراق پر ثبت کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دن ان شعلوں کو سازش لکھیں گے یا صدائے احتجاج۔

قدس، وہ سر زمین جس پر پیغمبر قدم رکھتے تھے، جہاں ہر پتھر ایک دعا کی صورت میں سانس لیتا ہے، آج ایک المیہ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس کے نیلے آسمان پر کالے دھوئیں کی چادر تنی ہوئی ہے، اور اس کی مقدس فضائیں دہکتے شعلوں کی لپیٹ میں آ کر کراہ رہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فطرت نے اپنا صبر کھو دیا ہو، جیسے صدیوں سے دبی ہوئی سسکیاں اب انگاروں کی زبان میں اظہار پا رہی ہوں۔

زمین کے اندر کہیں کوئی ان دیکھی لرزش ہے، جیسے وہ اپنے سینے میں چھپے ہوئے درد کو ہلا کر باہر نکال رہی ہو۔ آسمان، جو ہمیشہ نور برساتا تھا، اب خود سہم کر خاموش ہو چکا ہے، گویا وہ بھی اس الم ناک منظر کے سامنے ندامت سے آنکھیں جھکا چکا ہو۔ اور قدرت—وہ جو تماشائی نہیں بلکہ منصف بھی ہے—خاموشی کی اس دبیز تہہ کو چیر کر ایک سوال بلند کر رہی ہے: "کس کے حصّے میں آگ ہے، اور کس کے حصّے میں خاکستر؟”۔

یہ کوئی عام آگ نہیں، جو صرف درختوں کی شاخیں یا مکانوں کی چھتیں خاکستر کر دے۔ یہ ایک آگ ہے جو ظلم کی بنیادوں کو چٹخا رہی ہے، جو غرور کے ستونوں کو جھلسا رہی ہے، اور جو اس نظام کو جلا رہی ہے جو طاقت کے نشے میں مظلوموں کی صدائیں سننے سے قاصر رہا۔ یہ شعلے صہیونی تسلّط، استعمار کی حاکمانہ ذہنیت، اور مصنوعی برتری کے بتوں پر نازل ہونے والی وہ آفت ہیں، جو صرف قدرت کے انصاف کی علامت نہیں بلکہ ایک نادیدہ عدالت کا فیصلہ ہیں۔

جب زمین چیخ اُٹھتی ہے، جب آسمان ساکت ہو جاتا ہے، جب ہوائیں شعلے لے کر دوڑنے لگتی ہیں، تو جان لو کہ یہ کسی ایک رات کی داستان نہیں۔ یہ اُن سجدوں کی مقبولیت کا پیغام ہے جو زنجیروں میں مقید دلوں نے کئے، یہ اُن دعاؤں کا اثر ہے جو پتھروں سے بندھی زبانوں نے خاموشی سے کیں، اور یہ اُن آنکھوں کے آنسوؤں کا قرض ہے جو مسلسل رواں تھے۔ قدس کی یہ آگ شاید پانی سے نہ بجھے۔ یہ صرف عدل سے تھم سکتی ہے، صرف انصاف سے، صرف اس وقت جب مظلوم کے آنسوؤں کو سننے والا کوئی ہو۔

اسلامی تعلیمات میں ظلم کے خلاف مزاحمت اور مظلوم کی حمایت کو نہ صرف اخلاقی فرض سمجھا گیا ہے بلکہ یہ ایمان کی علامت بھی ہے۔ قرآن کہتا ہے: "ولا تحسبن اللّٰہ غافلاً عما یعمل الظالمون، إنما یؤخرهم لیوم تشخص فیہ الأبصار” (ابراہیم: 42) — "اور ظالموں کے اعمال سے اللّٰہ کو غافل نہ سمجھو، وہ تو انہیں اس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی”۔

قدس کی آگ ہمیں محض ایک موسمی حادثہ نہیں، بلکہ ایک یاد دہانی کے طور پر دیکھنی چاہیے—یاد دہانی اس عدلِ الٰہی کی جو کبھی بھی حرکت میں آ سکتا ہے۔ یہ آگ اُس صبر کی زبان ہے جو فلسطینی مظلومین نے برسوں سے اختیار کر رکھی ہے، اور جو اب قدرت کے ذریعے گونج رہا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموش رہنا، خود ظلم کا حصّہ بن جانا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: "جس نے کسی ظالم کو دیکھا اور اس کے ظلم کو اپنے ہاتھ یا زبان سے نہ روکا، تو اللّٰہ کا حق ہے کہ اسے اسی انجام سے دو چار کرے جس سے ظالم دوچار ہوگا” (مسند احمد)۔

قدس کی یہ آگ نہ صرف صہیونی استعمار کے لیے ایک وارننگ ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک آئینہ ہے—ایسا آئینہ جو ہمیں اپنے ضمیر، اپنے رویّے اور اپنی خاموشی کا عکس دکھاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہر باضمیر انسان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ سچائی کے ساتھ کھڑا ہوگا یا خاموشی کے ساتھ ظلم کا حصّہ بنے گا۔ یہ شعلے ہم سب کو پکار رہے ہیں—کہ ہم صرف خبر کے قاری نہ بنیں بلکہ کردار کے حامل بنیں؛ محض تماشائی نہیں بلکہ تبدیلی کے نمائندہ ہوں۔ پس، یہ دہکتی آگ ہمیں ہمارے ایمان، ہمارے اتحاد، اور ہماری اجتماعی ذمّہ داری کا محاسبہ کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی دعاؤں، اتحاد، اور شعوری جدوجہد سے اس شعلہ زدہ مقدس سر زمین کو ایک بار پھر نور، عدل اور انسانیت کا گہوارہ بنائیں—جہاں نہ کوئی غاصب ہو، نہ مظلوم، بلکہ صرف امن، انصاف اور انسانی وقار کا غلبہ ہو۔

آخر میں، یہ کہنا بجا ہوگا کہ قدس کی آگ صرف ایک جغرافیائی خطے کی آزمائش نہیں، بلکہ انسانیت کا ایک روحانی امتحان ہے۔ یہ آگ ہمیں جھنجھوڑتی ہے، ہمارے ضمیر کو للکارتی ہے، اور ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے کردار، اپنی ذمّہ داری، اور اپنے ایمان کا جائزہ لیں۔ اور شاید، انہی دہکتے شعلوں سے کوئی نئی صبح پھوٹے—ایسی صبح جو ظلمتوں کے سینے کو چیر کر امید کی نئی کرن بن جائے؛ وہ صبح، جہاں قدس صرف ایک جلتا ہوا شہر نہ رہے، بلکہ امن، انصاف، اور آسمانی روشنی کا حقیقی مظہر بن جائے۔ ‘قدس کی آگ’—شاید یہ فطرت کا احتجاج ہے، تاریخ کا انتقام ہے، اور اس سے بڑھ کر، یہ ضمیر کی عدالت کا وہ فیصلہ ہے جسے نہ جھٹلایا جا سکتا ہے، نہ ٹالا جا سکتا ہے۔ یہ آگ ہمیں متنبہ کرتی ہے کہ وقت کم ہے، اور فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!