مضامین

غارِ ثور سے سرنگِ غزہ تک — ربّ کی معیت کا سفر

    ══════•○ ا۩۝۩ا ○•══════
🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
┄─═✧═✧═✧═✧═─┄

تمام تعریفیں اُس ربّ العالمین کے لیے ہیں، جو مظلوم کی آہ سننے والا، یتیموں کا سہارا، اور کمزوروں کا مددگار ہے۔ وہ ربّ، جس کی قدرت کے سامنے فرعونوں کے تخت لرزتے ہیں، اور جس کے انصاف کے میزان میں کبھی خطا نہیں ہوتی۔ درود و سلام ہو اُس نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر، جنہوں نے طائف کے پتھروں میں صبر کی لذت پائی، شعبِ ابی طالب کی بھوک کو عزیمت بنایا، اور بدر و احد کے میدانوں میں صبر و توکل کی وہ مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک اہلِ ایمان کے لیے چراغِ راہ ہیں۔

آج جب غزہ کی مٹی خون سے سرخ ہے، اور ظلمتوں نے زمین کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، تب ہمیں یاد آتی ہے قرآن کی وہ صدائیں جو مظلوموں کو صبر، دعا، اور استقامت کا راستہ دکھاتی ہیں۔ "وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ” (سورۃ ابراہیم: 42)۔ "اور ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ اللّٰہ ان ظالموں کے اعمال سے غافل ہے”۔ یہ مضمون اسی یقین کی ترجمانی ہے—ایک ایسی فریاد جو محض فریاد نہیں بلکہ ایمان، صبر، اور قربِ الٰہی کا ایک مظہر ہے۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍۢ مِّنَ ٱلْخَوْفِ وَٱلْجُوعِ وَنَقْصٍۢ مِّنَ ٱلْأَمْوَٰلِ وَٱلْأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٰتِ ۗ وَبَشِّرِ ٱلصَّٰبِرِينَ
(البقرۃ: 155)۔ "اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف، بھوک، مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور خوشخبری دے دو صبر کرنے والوں کو”۔

غزہ کے وہ مرد و زن، جو ظلم و ستم کی بھٹی میں کندن بن کر نکل رہے ہیں، ہماری نگاہوں میں شاید بے یار و مددگار ہوں، لیکن قرآن کی روشنی میں وہی اللّٰہ کے مقرب بندے ہیں جن پر صبر کا تاج رکھا گیا ہے، جن کے لیے بشارتیں ہیں، جن کے آنسو عرش کو ہلا دیتے ہیں، اور جن کی سسکیاں زمین پر نہیں، بلکہ آسمان پر لکھی جا رہی ہیں۔ یہ تحریر ایک فریاد بھی ہے اور ایک عہد بھی—کہ ہم ان اہلِ ایمان کے ساتھ ہیں جنہوں نے ظلمت میں بھی نور کو تھاما، اور تاریکیوں میں بھی اللّٰہ کے وعدوں پر یقین رکھا۔

یا ربِّ کریم! تو جانتا ہے کہ جب زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہو جائے، جب نیلگوں آسمان آگ اگلنے لگے، جب گھروں کی چھتیں خوف سے لرزنے لگیں، جب دیواریں سایہ نہیں دیتیں بلکہ شعلہ بن جاتی ہیں، تو تیرے بندے، اے ربِّ ذوالجلال، کسی قلعے میں پناہ نہیں لیتے، نہ کسی آہنی قصر کی چاہ کرتے ہیں—بلکہ وہ رخ کرتے ہیں اس خاک آلود گہرائی کی طرف، جسے دنیا حقارت سے سرنگ کہتی ہے، اور ہم اسے عزیمت کا قلعہ سمجھتے ہیں، صبر کی چھاؤں، اور ایمان کی چھلکتی روشنی۔ یہ سرنگیں صرف مٹی کی کھودی ہوئی راہداریاں نہیں—یہ وہ مقامات ہیں جہاں آنکھیں، خوف سے نہیں بلکہ تیری رضا کی جستجو میں بھیگتی ہیں؛ جہاں وقت ساکت ہوتا ہے، اور ہر سانس تیرے ذکر سے بامعنی ہو جاتی ہے۔

غزہ کی وہ مائیں، جن کے ہونٹوں پر لوریاں تھم چکی ہیں، اب اپنے بچّوں کو آیاتِ قرآنی کی خاموش تلاوت سے سلا رہی ہیں۔ وہ مائیں جن کے آنچل میں صرف خاک ہے، مگر دل میں جبرائیل کی پرچھائیں۔ وہ بچّوں کو نہ خواب دے سکتی ہیں نہ صبحوں کا وعدہ، بس سینے سے لگا کر تجھے سونپ دیتی ہیں—تیرے سپرد کر کے، خود سجدے میں جا گرتی ہیں۔ اور وہ بزرگ، جن کے چہروں پر جھریاں ہیں، مگر ایمان آج بھی تازہ ہے؛ جنہوں نے نسلوں کے بچھڑنے کا دکھ جھیلا، شہادتوں کے قافلے رخصت کیے، مگر اب بھی سرنگ کی تاریکی میں ایک دیا جلائے بیٹھے ہیں—وہ دیا جس کا تیل تیرے وعدوں سے کشید کیا گیا ہے۔

ان راہداریوں میں بظاہر روشنی نہیں، مگر یقین کی ایک ایسی چمک ہے جو ظلمت کو چیر کر، ہر لمحہ تیرا قرب یاد دلاتی ہے۔ ان سرنگوں میں ہوا کا گزر نہیں، مگر تیرے نام کی صدا ہے جو ان بند راستوں میں گونجتی ہے، جیسے غارِ ثور میں "لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا” کی بازگشت۔ پانی نہیں، مگر وہ آنسو ہیں جو سجدوں میں بہہ کر زمین کو تیری رحمت کا گواہ بنا رہے ہیں۔ کھانا نہیں، مگر وہ روزہ ہے جو تیرے لیے رکھا گیا، اور افطار تیرے لطف پر چھوڑ دیا گیا۔

اے ربِّ رحیم! ان لوگوں کو وہ بلندی عطاء فرما جس کا تصور بھی اہلِ غرور کو نصیب نہیں۔ ان کے ان سجدوں کو، ان آہوں کو، ان بےنوا آنکھوں کی التجا کو قبول فرما۔ ان کے حق میں وہ فیصلے صادر فرما دے جو بدر کی زمین پر اتارے گئے تھے، جو احد کی گھاٹیوں میں جھلملائے تھے، جو کربلا کے میدان میں لہو سے لکھے گئے تھے۔ اے ربّ العالمین! ان سرنگوں کو مظلوموں کی پناہ گاہ سے بدل کر تیرے عرش کا عکس بنا دے—ایسا عکس، جس سے ظلم کا چہرہ جھلس جائے، اور حق، ایک دن مسجدِ اقصیٰ کی پیشانی پر سجدہ کرے۔

سرنگیں یا قلعے؟ — غزہ کا ایمان افروز سفر

اے اللّٰہ! ان مٹی کی دیواروں کو فرشتوں کے بازوؤں جیسا استحکام عطا فرما، جن پر نہ کوئی چھت ہے، نہ کوئی سائبان، مگر جن میں بسا ہر دل تیرے بھروسے پر قائم ہے۔ وہ دیواریں جو نہ صرف طوفانوں سے نبرد آزما ہیں بلکہ دشمن کے بارود سے بھی مقابلہ کرتی ہیں—انہیں اپنی حفاظت کا حصار بنا دے، جیسے تُو نے اصحابِ کہف کو غار میں اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لیا تھا۔ ان مکینوں کے دلوں میں وہ حوصلہ اتار دے جو خندق کے تنگ و تاریک لمحوں میں تیرے نبیؐ کے ساتھیوں نے پایا تھا، جب دشمن کے گھیراؤ میں بھی اذان کی صدا گونجی، جب مٹی، پانی، فاقہ اور خوف کے باوجود ایمان کمزور نہ ہوا بلکہ اور نکھر آیا۔ اے ربّ! انہیں وہ یقین دے دے جو ابراہیم کو نمرود کی آگ میں حاصل تھا، اور وہ صبر جو زینبؓ نے کوفہ کے دربار میں دکھایا۔

ان کی خاموشی کو اپنا کلام بنا دے، تاکہ دنیا سمجھے کہ خاموش آنکھیں بھی بولتی ہیں، اور سسکیاں بھی تکبیر کا روپ دھار سکتی ہیں۔ ان کے خوف کو وہ فریاد بنا دے جس نے کربلا کی زمین کو مقدس کر دیا—جہاں سر کٹ گئے، مگر حق کا علم جھکا نہیں؛ جہاں پانی روک دیا گیا، مگر وفا کے چشمے خشک نہ ہوئے۔ ان کی ہر آہ کو فتح کے طبل کی گونج بنا دے، ہر آنسو کو تیری رحمت کی بارش کا پہلا قطرہ قرار دے۔ یہ صرف سرنگیں نہیں، اے ربّ! یہ اہلِ غزہ کی غیرت کے گواہ ہیں، یہ اُمتِ محمدیہ کے صبر کا وہ مقام ہیں جہاں زمین کے نیچے ظلم ہے، اور آسمان کے اوپر تیری نگاہِ کرم۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں مظلوم کا دل بے زبان ہو کر بھی تیری بارگاہ میں فریاد کرتا ہے، اور عرش الٰہی لرز اٹھتا ہے۔ یہ وہ گلیاں ہیں جن میں بچوں کے ہنسنے کی آواز نہیں، مگر فرشتوں کی تسبیح کی بازگشت ضرور سنائی دیتی ہے۔ اے اللّٰہ! ان معصوموں کو وہ فتح عطا فرما جو تیرے وعدے کی سچائی کا اعلان ہو۔ ان کے قدموں کو ثابت رکھ، ان کے گھروں کو امن کا گہوارہ بنا، اور ان کے صبر کو پوری دنیا کے لیے چراغِ راہ کر دے۔

اے اہلِ غزہ! ہم تمہارے ساتھ ہیں—نہ فقط الفاظ کی حد تک، بلکہ دلوں کی دھڑکنوں، دعا کی لرزتی ہوئی لہروں، اور تحریر کی روشنائی کے ہر قطرے میں تمہارا تذکرہ ہے۔ تمہاری تکلیف، ہماری نیندوں کی بے قراری ہے؛ تمہاری آہوں کی بازگشت ہمارے سجدوں میں سنائی دیتی ہے؛ اور تمہاری استقامت، ہمارے ضمیر کی بیداری ہے۔ تمہاری آنکھوں میں چھپی وہ چمک جو اندھیروں کو چیر دیتی ہے، ہمارے لیے امید کا چراغ ہے۔ تمہارے بچّے، جنہوں نے کھیلنے کے میدان نہیں، شہادت کی گود دیکھی؛ تمہاری مائیں، جنہوں نے لوریاں نہیں، تکبیر کی صداؤں میں لال روانہ کیے؛ تمہارے جوان، جنہوں نے مستقبل کے خواب نہیں، قافلۂ حریت کی پیشوائی کی—یہ سب ہمارے لیے ایمان کی تازہ تفسیر ہیں۔

اللّٰہ ربّ العزت تمہیں وہ عزّت اور نصرت عطاء فرمائے جو بدر کے دن آسمان سے نازل ہوئی تھی، جب قلیل لشکر ایمان کی گہرائی سے کثرت پر غالب آیا، اور جب فرشتے، غبارِ معرکہ میں اہلِ حق کے شانہ بہ شانہ اترے تھے۔ تمہیں وہ حوصلہ عطاء ہو جو موسیٰ کو نیل کے کنارے ملا، اور وہ تسکینِ قلب نصیب ہو جو ابراہیمؑ کو آگ میں ملی۔ ایک دن تمہیں ان سرنگوں، ملبوں اور تاریکیوں سے نکل کر قبلۂ اوّل پر کھڑا ہونا ہے—جہاں تمہارے لہو کی قسم کھا کر اذانِ فتح دی جائے گی؛ جہاں تمہارے بچّوں کی ہنسی اذان کے بعد پہلی مسکراہٹ ہوگی؛ اور جہاں تمہارے شہیدوں کے نام مسجدِ اقصیٰ کی دیواروں پر نور بن کر چمکیں گے— اے دلوں کے حال جاننے والے! اے دعاؤں کے راز سننے والے! انہیں تنہا نہ چھوڑنا، کہ ہم جانتے ہیں تیرے وعدے سچے ہیں، اور تیرے لشکر ہی غالب آتے ہیں۔

یہ مضمون نہ صرف ایک دلی فریاد ہے بلکہ ایمان، صبر، اور توکّل کا ایک جیتا جاگتا بیان بھی ہے۔ ان مظلوموں کی زندگی ہمیں وہ درس دیتی ہے جو قرآن اور سیرتِ نبویؐ کے سنہری اوراق میں رقم ہے—کہ صبر مصیبت میں کامیابی کی کنجی ہے، اور ظلم کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، صبحِ عدل ضرور طلوع ہوتی ہے۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زمین پر بہنے والا مظلوم کا ایک ایک قطرۂ خون، آسمان کے دربار میں گواہی بن کر پیش ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اتق دعوۃ المظلوم، فانہ لیس بینہا و بین اللّٰہ حجاب”۔ (مظلوم کی دعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللّٰہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔)

غزہ کے ان سرفروشوں کی استقامت ہمیں بدر و احد کے غازیوں کی یاد دلاتی ہے، اور ان کے گھروں کی مٹی ہمیں کربلا کی غیرت کا پتہ دیتی ہے۔ یہ لوگ ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ فرماتا ہے: "وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ…” (البقرہ: 155)۔ لیکن اسی کے بعد خوشخبری دیتا ہے: "وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ”۔ (اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو)۔

لہٰذا یہ سرنگیں، یہ آنسو، یہ سجدے—سب اللّٰہ کے نزدیک محفوظ ہیں، اور ایک دن یہی سرنگیں فتح کے دروازے بنیں گی۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کے لیے دعا کریں، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں، اور ان کی استقامت سے اپنے ایمان کو تازہ کریں۔ الٰہی! غزہ کے ان اہلِ ایمان کو وہ عزّت، وہ امن، اور وہ آزادی عطا فرما جو صرف تیرے ہاتھ میں ہے۔ ان کے صبر کو ہماری بیداری کا ذریعہ بنا، اور ہمیں وہ دل عطاء فرما جو اُمت کے درد سے دھڑکتا ہو۔ (آمین، یا ربّ العالمین)۔

•┅┄┈•※‌✤م✿خ✤‌※┅┄┈•
🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!