شیر میسور کی حکمرانی: ٹیپو سلطان کی فوجی ذہانت، انتظامی بصیرت اور شہادت کا روشن باب

شاہد صدیقی علیگ
ایئر انڈیا کی جانب سے جاری کی گئی آفیشیل بیان کے مطابق مسافرین اور عملے کی حفاظت کے مدنظر تل ابیب کے لیے آنے-جانے والی تمام پروازیں فوری طور پر 6 مئی تک معطل کر دی گئی ہیں۔
سلطان فتح علی ٹیپو، جنہیں تاریخ شیرِ میسور کے لقب سے یاد کرتی ہے، برصغیر کے اُن چند حکمرانوں میں شامل تھے جن کی شخصیت میں علم دوستی، اصلاح پسندی، روشن خیالی، بین المذاہب ہم آہنگی اور غیر معمولی عسکری و انتظامی صلاحیتیں یکجا تھیں۔ اگر وہ مسلسل جنگی الجھنوں کا شکار نہ ہوتے تو شاید برصغیر کی تاریخ کا دھارا ہی بدل جاتا۔
ٹیپو سلطان 20 نومبر 1750ء کو قلعہ دیون ہلی، ضلع کولار میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلطان حیدر علی ناخواندہ تھے مگر صاحبِ بصیرت اور تدبر کے حامل حکمران تھے، جنہوں نے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت اور فنونِ سپہ گری پر خاص توجہ دی۔ محض 15 برس کی عمر میں ٹیپو نے اپنی پہلی جنگ میں حصہ لیا اور ایسی شجاعت کا مظاہرہ کیا کہ دشمنوں کے دلوں میں اس کا رعب بیٹھ گیا۔ سترہ سال کی عمر میں انہیں سفارتی اور فوجی امور میں آزادانہ اختیارات دے دیے گئے۔
حیدر علی کی وفات کے بعد 27 دسمبر 1782ء (مطابق 20 محرم 1196ھ) کو ٹیپو سلطان نے میسور کی باگ ڈور سنبھالی۔ انہیں ایک مضبوط، منظم اور قدرتی وسائل سے مالامال ریاست ورثے میں ملی، مگر ساتھ ہی دشمن سازشی عناصر اور غدار امراء کا جال بھی۔ مگر ٹیپو نے ایک مدبر اور اعلیٰ منتظم کی حیثیت سے نہ صرف داخلی انتظام کو بہتر بنایا بلکہ بیرونی حملوں کے تدارک کے لیے جدید ترین اصلاحات نافذ کیں۔
ٹیپو سلطان کی ظاہری شخصیت کے متعلق ان کے معتمد منشی محمد قاسم لکھتے ہیں: ”درمیانہ قد، چوڑی پیشانی، روشن سلیٹی آنکھیں، پرکشش اونچی ناک، گندمی رنگت، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، چھوٹی مونچھیں اور صاف داڑھی۔“
ٹیپو سلطان نے دفاعی قوت کو مضبوط کرنے کے لیے فوج کو گیارہ محکموں میں تقسیم کیا اور ہر رجمنٹ کے لیے الگ وردی متعارف کرائی۔ فرانسیسی ماہرین کی نگرانی میں فوجی تربیت گاہیں قائم کیں، اور جدید طرز پر اسلحہ سازی کو فروغ دیا۔ ان کی نگرانی میں ‘فتح المجاہدین’ نامی عسکری ضابطہ تصنیف ہوا جو ایک منظم فوجی ڈھانچے کی بنیاد بنا۔
بحری طاقت کے معاملے میں بھی ٹیپو سلطان نے قابلِ ذکر اقدامات کیے۔ بھٹکل میں بحریہ کے لیے مدرسہ قائم کیا، ساحلی نگرانی کے لیے 52 جنگی جہاز تیار کرائے اور دس ہزار سے زائد ملاحوں پر مشتمل بحریہ منظم کی۔ جہازوں کی ساخت میں مقناطیسی چٹانوں کے اثرات سے بچاؤ کے لیے تانبے کا استعمال کیا گیا، جو اس دور میں ایک انقلابی قدم تھا۔
فوجی ٹیکنالوجی میں ٹیپو سلطان کی سب سے نمایاں ایجاد راکٹ (طغرق) ہے، جسے آج کی جدید میزائل ٹیکنالوجی کا ابتدائی ورژن سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایجاد نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے دفاعی خود کفالت کے لیے چار شہروں میں اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے جہاں توپیں، بندوقیں اور ایسی ڈھالیں تیار ہوتی تھیں جن پر گولیاں بھی اثر نہ کرتیں۔ معیشت، تجارت، زراعت اور تعلیمی میدان میں بھی انہوں نے متعدد اصلاحات نافذ کیں، مگر ان کی رحم دلی اور نرم مزاجی بعض اوقات ان کے عسکری فیصلوں کے آڑے آتی۔ مثلاً والد کی تیار کردہ غداروں کی فہرست ہونے کے باوجود، ٹیپو نے اُن امیروں اور سرداروں کو نہ صرف معاف کیا بلکہ ان کے عہدے بھی بحال کر دیے۔
یہی نرم دلی بالآخر ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ 4 مئی 1799ء کو جب ٹیپو سلطان کی سلطنت پر ایسٹ انڈیا کمپنی، مرہٹوں، نظام حیدرآباد اور دربار کے غداروں کی مشترکہ فوج نے حملہ کیا تو تمام حکمتِ عملی ناکام ہو گئی۔ اس نازک لمحے میں ٹیپو سلطان نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اپنے مشہور قول، ”گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے“ پر عمل کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں شہادت کو ترجیح دی۔
آج اگرچہ بعض حلقے ان کی شخصیت کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ ٹیپو سلطان ایک سچے محبِ وطن، بے مثال مجاہد اور دور اندیش حکمران تھے جن کی خدمات اور قربانی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔