سپریم کورٹ نے لال قلعہ پر مالکانہ حق کی عرضی خارج کر دی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے خاندان کی ایک خاتون کی جانب سے لال قلعہ پر مالکانہ حق کا دعویٰ کرنے والی عرضی کو غلط اور بے بنیاد قرار دے کر خارج کر دیا۔ عدالت نے عرضی پر غور کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
عرضی دہندہ سلطانہ بیگم نے خود کو بہادر شاہ ظفر دوم کے پرپوتے کی بیوہ اور قانونی وارث قرار دیتے ہوئے لال قلعہ پر قبضے کی اجازت مانگی تھی۔ لیکن چیف جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ نے اس بنیاد کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔
چیف جسٹس نے طنزیہ انداز میں سوال کیا:
"اگر دلیلیں مانی جائیں، تو صرف لال قلعہ ہی کیوں؟ آگرہ قلعہ، فتح پور سیکری جیسے دیگر قلعوں پر بھی دعویٰ ہونا چاہیے!”
عدالت نے دہلی ہائی کورٹ کے 13 دسمبر 2024 کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ عرضی میں قانونی بنیادوں کے ساتھ تاخیر بھی ناقابل قبول ہے۔ سلطانہ بیگم نے اس تاخیر کی وجہ اپنی خراب صحت اور بیٹی کی وفات کو قرار دیا تھا، لیکن عدالت نے اسے ناکافی جواز کہا۔
ہائی کورٹ نے پہلے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ ڈھائی سال کی تاخیر کے بعد کی گئی اپیل قابل قبول نہیں ہے، اور اسی بنیاد پر سپریم کورٹ نے بھی عرضی کو مسترد کر دیا۔
عدالت نے عرضی واپس لینے کی اجازت بھی نہیں دی، حالانکہ بیگم کے وکیل نے یہ استدعا کی تھی کہ وہ آزادی کے پہلے مجاہد کے خاندان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔