"مسلمان وفادار، سنگھی غدار” لکھنے پر مسلم ٹیچر معطل – پوسٹ پر تنازع، حب الوطنی یا نفرت انگیزی؟

چوپان، 8 مئی 2025: اتر پردیش کے ضلع سون بھدر کے چوپان بلاک میں واقع مالوگھاٹ پرائمری اسکول کی اسسٹنٹ ٹیچر زیبا افروز کو سوشل میڈیا پر کی گئی ایک متنازع پوسٹ کے بعد نوکری سے معطل کر دیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے فیس بک پر فرقہ وارانہ تبصرہ کیا، تاہم ان کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔
📝 پوسٹ کا متن اور تنازع: زیبا افروز نے اپنی اب حذف شدہ فیس بک پوسٹ میں لکھا تھا:
"ملک کے وفادار ہمیشہ مسلمان رہے ہیں، غدار ہمیشہ سنگھی رہے ہیں۔”
انہوں نے آگرہ میں ایک مسلمان نوجوان، گلفام کے قتل کی بھی مذمت کی تھی، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ فرقہ وارانہ منافرت کا نتیجہ ہے۔
🔥 تنازع کی نوعیت: پوسٹ پر شدید ردعمل سامنے آیا، خاص طور پر بعض ہندوتوا تنظیموں اور مقامی سیاسی کارکنوں کی جانب سے، جنہوں نے اسے "فرقہ وارانہ اور اشتعال انگیز” قرار دیا۔
زیبا افروز کے خلاف محکمہ تعلیم کو شکایت کی گئی، جس کے بعد انہیں معطل کر دیا گیا۔
🗣️ حمایتیوں کا مؤقف: مقامی سماجی کارکنوں اور بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ زیبا افروز کی پوسٹ کا مقصد "ملکی وفاداری میں مسلمانوں کا کردار اجاگر کرنا” تھا۔ ان کے مطابق، "سنگھی” لفظ کو کسی خاص نظریے کے پیروکاروں پر تنقید کے طور پر لیا جانا چاہیے، نہ کہ پورے مذہب یا قوم کے خلاف۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اقدام اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف ہے اور مسلمانوں کو حب الوطنی ظاہر کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
🏛️ سرکاری اقدام: ضلع تعلیمی افسر نے بتایا کہ پوسٹ کے مواد کی جانچ کی جا رہی ہے اور انضباطی کارروائی آئندہ دنوں میں مکمل ہوگی۔ زیبا افروز کو فی الحال تحقیقات مکمل ہونے تک معطل رکھا جائے گا۔
🤔 اہم سوالات: کیا زیبا افروز نے اپنے منصب کی حساسیت کے برخلاف رائے دی؟
کیا حب الوطنی کے اظہار کو سیاسی نظریات پر تنقید سے الگ نہیں کیا جا سکتا؟
کیا اس معاملے میں سوشل میڈیا پوسٹس کی تشریح غیرجانبداری سے ہوئی ہے؟
یہ واقعہ ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آزادیِ اظہار اور سماجی ذمہ داری کے درمیان توازن کیسے قائم رکھا جائے۔ کیا حب الوطنی کے اظہار کی قیمت نوکری سے ہاتھ دھونا ہونی چاہیے، یا ہمیں معاشرتی حساسیت کے ساتھ ہر رائے کو پرکھنے کی ضرورت ہے؟