ایک نیر تاباں کاغروب

ازمفتی محمد اظہارالحق قاسمی ناندیڑ
مولانا وستانوی ,ایک روشن مینار
علم و عمل کے پیکر، سخاوت کے سمندرتھے، مولانا غلام محمد وستانوی ایک ایسی شخصیت تھی جنہوں نے اپنی زندگی دینِ اسلام کی خدمت اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دی۔ ان کی ذاتِ گرامی ایک ایسے روشن مینار کی مانند تھی جس کی ضیاء سے لاکھوں دل منور ہوئے اور علم کی پیاسی روحوں نے سیرابی حاصل کی۔
انہوں نے اپنی بصیرت اور عزمِ صمیم سے تعلیمی میدان میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ لاکھوں مدارس اور مساجد کا قیام ان کی دور اندیشی اور محنتِ شاقہ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں علما اور حفاظِ کرام نہ صرف ملک و قوم کی خدمت میں پیش پیش ہیں بلکہ دنیا بھر میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کر رہے ہیں۔
ان کی خدمات کا دائرہ صرف مدارس اور مساجد تک محدود نہیں رہا، بلکہ انہوں نے ہزاروں کالجز قائم کر کے جدید تعلیم کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ان اداروں میں زیرِ تعلیم نوجوان نہ صرف عصری علوم سے آراستہ ہو رہے ہیں بلکہ اپنی دینی اقدار سے بھی مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔
قرآنِ کریم اور حاملینِ قرآن کے ساتھ ان کی محبت و عقیدت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انہوں نے ہمیشہ قرآن کی تعلیمات کو عام کرنے اور اس کے پیغام کو گھر گھر پہنچانے کی سعی کی ہے۔ حفاظِ کرام کی سرپرستی اور ان کی حوصلہ افزائی ان کا خاصہ رہی ہے۔میرے دل سےان کے لئے یہ اشعار نکلے۔
علم کی شمع جلائی
نور سے دل آباد کئے۔
تعمیر مساجد کر کر کے
اللہ کے گھر آباد کئے
مدارس بنائے کالجز بنائے
گلشن علم و ہنر شاد کئے
زندگی خدمت قرآن میں گزاری
امت کی امداد کئے
مولانا وستانوی کی رحلت
ایک روشن ستارے کا غروب ہے
جس کے ماند پڑجانے سے علم و حکمت کی بزم سونی پڑ گئی، ایک ایسا چراغ گل ہو گیا جس کی لو سے کتنے ہی دلوں نے روشنی پائی تھی۔ مولانا غلام محمد وستانوی، وہ نام جو ایک عہد کی پہچان تھا، اب خاموشی کی ابدی وادیوں میں جا بسے۔ ان کی رحلت صرف ایک عالم دین کی موت نہیں، بلکہ ایک ایسی کائنات کا خاتمہ ہے جو علم، اخلاص اور محبت کے رنگوں سے سجی تھی۔
مولانا وستانوی ایک بحرِ علم تھے، جس کی گہرائیوں میں حکمت کے موتی پوشیدہ تھے۔ ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دلوں میں اترتے چلے جاتے تھے، اور ان کی وعظ و نصیحت میں ایک ایسا سوز تھا جو روح کو گرما دیتا تھا۔ وہ صرف ایک مدرس نہیں تھے، بلکہ ایک مرشد تھے، ایک رہبر تھے، جنہوں نے اپنی زندگی علم کی شمع روشن کرنے اور انسانیت کی خدمت کرنے میں وقف کر دی تھی۔
ان کی شخصیت میں ایک خاص کشش تھی، ایک ایسی جاذبیت جو ہر خاص و عام کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ ان کی مجلسیں علم و ادب کا گہوارہ ہوتی تھیں، جہاں ہر کوئی اپنی تشنگی بجھانے آتا تھا۔ ان کے شاگرد آج دنیا کے گوشے گوشے میں علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں، یہ ان کے لگائے ہوئے ان پودوں کی بارآوری ہے جن کی انہوں نے اپنی زندگی بھر آبیاری کی۔
مولانا وستانوی کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پر کرنا آسان نہیں۔ ان کی شفقت، ان کی دانائی، ان کی بے لوث خدمت، یہ سب کچھ اب صرف یادوں کے جھروکوں سے جھانکے گا۔ لیکن ان کی روشن کی ہوئی مشعلیں ہمیشہ جلتی رہیں گی، ان کا چھوڑا ہوا علم کا خزانہ نسلوں تک منتقل ہوتا رہے گا۔
آج ہم سوگوار ہیں، ہماری آنکھیں اشکبار ہیں، لیکن ہمارے دلوں میں ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان کی یہ کاوشیں محض تعمیرات یا ادارے نہیں،بلکہ ایک ایسی روحانی اور عملی تحریک ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت کی محبت پر رکھی گئی ہے۔ایک ایسا تعلیمی انقلاب جس کا مقصد ایک ایسی متوازن اور باشعور امت کی تشکیل ہے جو دنیا میں سربلند اور آخرت میں سرخرو ہو۔ وہ ایک ایسا نقش چھوڑ گئے ہیں جو رہتی دنیا تک محو نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔