ٹرمپ کا سعودی کے تاریخی شہر الدرعیہ کا دورہ

سعودی عوام کے لیے الدرعیہ محض ایک تاریخی شہر نہیں بلکہ ریاستِ سعودی عرب کے سیاسی اور ثقافتی ورثے کا مجسمہ ہے۔ یہ قومی شناخت کا مینار ہے، جو صدیوں میں تشکیل پایا۔
سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تاریخی تعلقات کی عکاسی کرنے والا ایک غیر معمولی منظر اس وقت سامنے آیا جب منگل کی شام امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ہمراہ ریاض کے نزدیک واقع تاریخی علاقے الدرعیہ کا دورہ کیا۔ یہ علاقہ پہلی سعودی ریاست کا گہوارہ ہے۔ یہ دورہ نہ صرف سیاسی نوعیت رکھتا ہے بلکہ ثقافتی علامت کے طور پر بھی نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق یہ شہر 850 ہجری میں وادی حنیفہ کے کنارے شہزادہ مانع المریدی (بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن کے بارہویں جد) کے ہاتھوں قائم ہوا تھا۔ امریکی صدر کا یہ دورہ سعودی ریاست کی تاریخی جڑوں سے گہرے تعلق کی نمائندگی کرتا ہے۔ صدیوں کے دوران، الدرعیہ ایک تہذیبی اور سیاسی مرکز میں تبدیل ہوا، جو جزیرہ عرب کے قلب میں واقع ہے، اور وہ مقام ہے جہاں سے پہلی سعودی ریاست نے بیشتر علاقوں کو متحد کرنا شروع کیا۔
ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جنھوں نے الدرعیہ کا دورہ کیا۔ انہوں نے اس کے تاریخی مقامات کا مشاہدہ کیا، جن میں الطریف محلہ (جو یونیسکو کے عالمی ورثہ میں شامل ہے)، البجیری علاقہ، قصر العوجا، اور غصیبہ محلہ شامل ہیں۔ یہ تمام مقامات آج بھی اپنے اصل طرزِ تعمیر کے ساتھ موجود ہیں اور سعودی تاریخ کے ایک اہم دور کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ الدرعیہ کو "نجد کا گوہر” کہا جاتا ہے، اور یہ تاریخ کے مختلف ادوار میں علم، ثقافت اور روشن خیالی کا مرکز رہا ہے۔ امام محمد بن سعود کے دور میں یہ ایک چھوٹے شہر سے ایک تہذیبی مرکز میں تبدیل ہو گیا، جو اس وقت کی اسلامی دنیا میں سیاسی حوالہ بن گیا تھا۔
سعودی خبر رساں ایجنسی (ایس پی اے ) کی ایک رپورٹ کے مطابق، الدرعیہ علم و فنون کا گہوارہ رہا ہے اور تاجروں و علما کا مرکز رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سعودی عوام کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور عرب جزیرے میں سیاسی اتحاد اور احیائے نو کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سعودی وژن 2030 کے تحت الدرعیہ کو انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اسے دنیا کی معروف ثقافتی و سیاحتی منزلوں میں تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام جاری ہے، جس پر 236 ارب ریال سے زائد کی لاگت آئے گی۔ اس کا مقصد قومی شناخت کو مضبوط کرنا اور نئی نسلوں کو اپنے ملک کی تاریخ سے جوڑنا ہے۔
درعیہ گیٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو جیرارڈ انزیریلو کے مطابق، یہ منصوبہ الدرعیہ کو ایک عالمی ثقافتی اور مہمان نوازی کے مرکز کے طور پر زندہ کر رہا ہے، جو سعودی عرب کے قومی تبدیلی پروگرام میں سیاحت اور ثقافت کے اہداف کے مطابق ہے۔
سعودی عوام کے لیے الدرعیہ محض ایک تاریخی شہر نہیں بلکہ ریاستِ سعودی عرب کے سیاسی اور ثقافتی ورثے کا مجسمہ ہے۔ یہ قومی شناخت کا مینار ہے، جو صدیوں میں تشکیل پایا۔ ٹرمپ کا اس مقام کا دورہ اس بات کا عالمی اعتراف ہے کہ یہ جگہ کس قدر علامتی اہمیت کی حامل ہے، اور یہ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی کردار کا بھی اعتراف ہے۔