وقف ترمیمی قانون پر جزوی پابندی حوصلہ افزا، لیکن مساجد کی انہدامی کارروائیاں تشویشناک: مولانا ارشد مدنی

نئی دہلی / احمد آباد – جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی قانون کی متنازعہ شقوں پر جاری پابندی کو "امید افزا پیش رفت” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا یہ موقف مظلوموں کے لیے ایک عارضی ڈھال ضرور ہے، لیکن زمینی سطح پر صورت حال مختلف ہے۔
مولانا مدنی نے کہا، "اخباروں میں شائع خبروں کے مطابق نئے وقف قوانین کی متنازعہ شقوں پر روک کے باوجود، کئی مقامات پر مساجد، قبرستان اور درگاہوں کو غیرقانونی قرار دے کر منہدم کیا جا رہا ہے، جو نہ صرف قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھی مجروح کرنے والا عمل ہے۔”
اسی ضمن میں ایک اور تشویشناک واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں گجرات کے مؤقر روزنامہ ’گجرات سماچار‘ کے مالک باہوبلی شاہ کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار کر لیا ہے۔ ان کی گرفتاری کے فوراً بعد طبیعت بگڑ گئی، جس کے بعد انہیں احمد آباد کے وی ایس اسپتال منتقل کیا گیا، لیکن طبی سہولتوں کی کمی کے سبب بعد میں انہیں زائیڈس اسپتال لے جایا گیا۔
باہوبلی شاہ میڈیا کے ساتھ ساتھ کئی کاروباری اداروں سے بھی وابستہ ہیں۔ ان کے خلاف انکم ٹیکس اور ای ڈی کی کارروائی کو اپوزیشن جماعتوں نے سیاسی انتقام قرار دیا ہے۔
گجرات کانگریس کے صدر شکت سنگھ گوہل نے اس گرفتاری کو میڈیا پر قدغن لگانے کی ایک اور مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’بی جے پی حکومت اُن اداروں کو نشانہ بناتی ہے جو حکومت کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ‘گجرات سماچار’ نے حال ہی میں کئی اہم قومی معاملات پر تنقیدی رپورٹنگ کی تھی، جس کا یہ انجام نظر آ رہا ہے۔‘‘
گوہل نے مزید کہا کہ باہوبلی شاہ ایک بزرگ اور بیمار شہری ہیں، اور ایسے وقت میں جب ان کا خاندان سوگ میں تھا، ان کے احاطوں پر چھاپے مارنا غیر انسانی قدم تھا۔ ادھر ’گجرات سماچار‘ کا ایکس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ بھی بلاک کر دیا گیا ہے، جس پر سوشل میڈیا میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
ملک کے کئی صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے ان واقعات پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پر پہلے ہی میڈیا کی آزادی کو محدود کرنے کے الزامات ہیں، اور ان گرفتاریوں سے جمہوریت کا ستون مزید کمزور ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ادھر مولانا مدنی نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ عدالت کے احکام کی خلاف ورزی روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے اور مذہبی مقامات کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، تاکہ ملک میں اقلیتوں کا اعتماد بحال ہو سکے۔