ایجوکشن

تعلیمی مافیا کی چالاکیاں:

"تعلیم عبادت تھی، اب تجارت بن گئی!"

"ہر بچہ ٹاپر نہیں، لیکن ہر بچہ قابل ضرور ہوتا ہے!”

اسکولس ،کالجس اور کوچنگ سینٹرس صرف ٹاپرس کو یاد رکھتے ہیں، باقی طلبہ کہاں گُم ہو جاتے ہیں؟

محنت طلبہ کی، پیسہ والدین کا، کریڈٹ صرف تعلیمی کاروباریوں کا؟
کامیاب طلبہ کی آڑ میں تعلیمی اداروں کی خود نمائی اور ناکام بچوں کی نظراندازی پر ایک تلخ مگر حقیقت پر مبنی تحریر….
"ٹاپ کرنے والے چند طلبہ ، لیکن فیس دینے والے ہزاروں سے…

تحریر نگار
عمران عبدالعلیم باحشوان
Cell: +91 9730000675

دسویں جماعت کے نتائج آ چکے ہیں، سب سے پہلے اُن تمام طلبہ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد جنہوں نے امتحان میں کامیابی حاصل کی، چاہے نمبرات کم ہوں یا زیادہ۔ کامیابی کی اصل پہچان یہی ہے کہ بچے نے کوشش کی، پڑھائی کی، اور اپنی محنت کے بل پر اگلے مرحلے تک پہنچا۔ اور جو طلبہ اس بار کامیاب نہ ہو سکے، اُن سے یہی کہنا ہے: ہمت مت ہاریں، ان شاءاللہ ریپیٹ امتحان میں کامیابی ضرور آپ کا مقدر بنے گی۔

لیکن افسوس، آج کا تعلیمی نظام ایک دوڑ بن چکا ہے۔ ایک ایسی ریس، جس میں صرف وہی بچے نظر آتے ہیں جنہوں نے 90 یا 95 فیصد سے زیادہ نمبرات حاصل کیے ہوں۔ جن کے نام پر کوچنگ سینٹرس اور اسکول شہر میں بڑے بڑے ہورڈنگ لگاتے ہیں، اخبارات میں اشتہارات دیتے ہیں، اور خود کو کامیابی کا واحد ذریعہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ وہ ٹاپرس بھی وہی بچے ہوتے ہیں جنہوں نے خود دن رات ایک کیا، جن کے والدین نے اپنی خون پسینے کی کمائی اُن کی تعلیم پر نچھاور کی۔

والدین آج اپنی تمام جمع پونجی، اپنے بچوں کی اچھی تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ بہترین اسکولز، مہنگے انسٹیٹیوٹس، کوچنگ کلاسس سب کچھ بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے۔ ایک بچہ صبح اسکول جاتا ہے، پھر کوچنگ، اور رات گئے تک پڑھائی میں مشغول رہتا ہے۔ مگر کیا کوئی اسکول یا انسٹیٹیوٹ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اُس بچے کی کامیابی میں اصل ہاتھ والدین کی قربانی اور بچے کی محنت کا ہے؟

ہر سال اسکول اور کوچنگ کلاسس چند ٹاپرز کے چہروں کو آگے رکھ کر اپنی کامیابی کا شور مچاتے ہیں۔ لیکن اُن سینکڑوں طلبہ کا کیا، جنہوں نے اتنی ہی فیس دی، اتنا ہی وقت دیا، لیکن نمبر کم آئے؟ کیا وہ نالائق تھے؟ نہیں! اُن کا سفر مختلف ہو سکتا ہے، اُن کی رفتار سست ہو سکتی ہے، لیکن اُن کی محنت کم نہیں تھی۔

یہ تعلیمی مافیا صرف فائدہ دیکھتا ہے۔ لاکھوں روپے کی فیسیں، مہنگے اشتہارات، اور دعویٰ یہ کہ "ہمارے ادارے نے بچے کو ٹاپر بنایا!” سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ادارے ٹاپر بناتے ہیں، تو پھر ہر بچہ ٹاپر کیوں نہیں ہوتا؟ سچ یہ ہے کہ اسکول اور کوچنگ صرف ایک سہولت دے سکتے ہیں، کامیابی کا دارومدار تو بچے کی لگن اور والدین کی قربانی پر ہے۔

"یہ ادارے لاکھوں روپے اشتہارات پر خرچ کرتے ہیں، مگر کیا کبھی کسی غریب بچے کو فری میں تعلیم دی ہے؟
کیا کبھی کسی محنتی مگر کمزور طالب علم کو اضافی وقت دیا ہے؟
ایسا ایک بھی واقعہ ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملے گا۔”

آج کا دور اس قدر ظالم ہے کہ استاد بھی وہی کامیاب مانا جاتا ہے جو ٹاپر تیار کرے۔ لیکن وہ استاد جو کمزور طالب علم کو وقت دیتا ہے، اُسے سنبھالتا ہے، اُس کی رہنمائی کرتا ہے، وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ ایسے اساتذہ اب نایاب ہیں، کیونکہ آج تعلیمی ادارے جذبات سے نہیں، منافع سے چلتے ہیں۔

ہر طالب علم اشتہار کا حصہ نہیں ہوتا، مگر وہ بھی محبت اور حوصلے کا حقدار ہے۔
ہم سب کا بچہ ٹاپر نہیں ہوتا، مگر ہر بچہ قابل ضرور ہوتا ہے۔
نمبرات نہیں، نیت اہم ہے۔ کامیابی صرف پوزیشن کا نام نہیں، بلکہ مسلسل کوشش، والدین کی دعائیں، اور بچے کی جدوجہد کا نام ہے۔

آئیے، ہم سب مل کر اُس بچے کو بھی سراہیں جو کم نمبر لا کر بھی محنت سے پڑھا۔
آئیے اُن والدین کو بھی سلام کریں جنہوں نے اپنا سب کچھ بچوں پر نچھاور کر دیا۔
اور اُن اساتذہ کو بھی خراجِ تحسین پیش کریں جو بغیر اشتہار کے، خاموشی سے اپنے شاگردوں کو تراشتے ہیں۔

تعلیم تجارت نہیں، عبادت ہے۔
ہر بچہ انمول ہے، چاہے وہ ہورڈنگ پر نظر آئے یا دل میں۔

اگر کوئی بچہ ٹاپ کرے، تو اسکول والے کہتے ہیں: "ہماری محنت ہے”، کوچنگ والے کہتے ہیں: "ہم نے ٹرین کیا ہے”۔
مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ:”
"یہ والدین کی قربانی ہے، یہ بچے کی مسلسل جدوجہد ہے۔

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!