زلفوں کا رقص یا وقار کی لغزش؟ استقبال یا استسلام؟ عرب دنیا کا فکری زوال

۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
┄─═✧═✧═✧═✧═─┄
اسلام ایک ایسا ضابطۂ حیات ہے جو انسان کے ہر انفرادی و اجتماعی عمل کے لیے حدود و قیود متعین کرتا ہے۔ تہذیب، ثقافت، رسم و رواج اور روایات اگرچہ انسانی معاشرے کی شناخت کا حصّہ ہوتے ہیں، لیکن اسلام ان مظاہر کو اخلاق، حیاء، وقار اور شریعت کی کسوٹی پر پرکھتا ہے۔ کوئی بھی ثقافتی اظہار اگر شرعی اصولوں، حیاء کے تقاضوں، اور معاشرتی اعتدال سے ہم آہنگ ہو تو وہ قابلِ قبول ہو سکتا ہے، لیکن اگر وہ فتنہ، نمائش، یا حدودِ شریعت کی پامالی کا ذریعہ بن جائے تو اسے قابلِ اعتراض بلکہ ناجائز قرار دیا جاتا ہے۔
اسلام میں عورت کو عزّت، وقار، اور حیاء کا پیکر قرار دیا گیا ہے۔ اس کی شخصیت کو محض جسمانی اظہار یا جمالیاتی نمائش کا ذریعہ بنانا، اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ نبی کریمﷺ نے عورت کی عزّت و تکریم کو اس قدر بلند کیا کہ اسے معاشرے کی بنیاد، نسلوں کی محافظ، اور ایمان کی علامت قرار دیا۔ اس پس منظر میں اگر کوئی تہذیبی مظاہرہ، چاہے وہ مقامی روایت ہو یا عالمی ثقافتی پرفارمنس، عورت کو بطور "تماشا” یا "دلچسپی کا مرکز” بنا دے، تو وہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں قابلِ نظر ثانی بن جاتا ہے۔
اس مضمون میں جس منظر کا تجزیہ کیا گیا ہے — یعنی "النشاعت” نامی خلیجی رقص کے ذریعے ایک متنازعہ غیر مسلم سیاستدان کا استقبال — اس کی معنویت، اثرات اور تہذیبی دلالتیں محض ایک ثقافتی مظاہرہ نہیں بلکہ ایک فکری و دینی سوال بن کر ابھرتی ہیں۔ یہیں سے تہذیب، شریعت اور سیاسی بصیرت کا مکالمہ جنم لیتا ہے، جس کا مقصد صرف تنقید نہیں بلکہ اصلاح اور توازن کی طرف رہنمائی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب متحدہ عرب امارات پہنچے، تو ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کے لیے جو منظر ترتیب دیا گیا، وہ نہ صرف میڈیا میں مرکزِ توجہ بنا بلکہ ثقافت، وقار اور سیاسی تاثر کے کئی سوالات کو جنم دے گیا۔ سفید لباسوں میں ملبوس مقامی خلیجی دوشیزاؤں نے خلیجی روایتی رقص "النشاعت” کے انداز میں اپنے بال لہراتے ہوئے صدر ٹرمپ کا استقبال کیا۔ یہ مناظر بظاہر ثقافتی اظہار تھے، مگر اس موقع پر ان کی پیشکش نے کئی حلقوں میں سنجیدہ تنقید کو جنم دیا۔
استقبال کے اس لمحے کو ایک منفرد ثقافتی رقص سے مزین کیا گیا تھا۔ دو قطاروں میں کھڑی ان مقامی لڑکیوں نے اپنی لمبی زلفیں خاص انداز میں لہرا کر ایسا سماں باندھا جو اکثر ناظرین کے لیے بالکل نیا تجربہ تھا۔ ٹرمپ ان کے بیچ سے گزرتے ہوئے جیسے کسی صوفیانہ لمحے کا حصّہ بن گئے ہوں — جہاں رقص، روایت اور ریاست ایک وحدت میں ڈھل چکے تھے۔
یہ منظر محض ایک رسمی استقبال نہ تھا، بلکہ ایک ثقافتی بیانیہ تھا، جس میں ٹرمپ، جو دنیا بھر میں سیاست کے نئے زاویے تراشنے کے لیے مشہور ہیں، ان عرب زلفوں کے سائے میں خاموشی سے گزر رہے تھے — گویا تاریخ کی کسی کہانی کا اجنبی کردار جو اپنے معنی تلاش کرنے کی جستجو میں ہو۔
جو زلف تھی کبھی سایۂ عفت و حیاء
اب بن گئی سرِ بازار ہنر کی ادا
اس مخصوص موقع پر جس رقص نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کی، وہ "النشاعت” تھا—جو متحدہ عرب امارات میں بالخصوص خواتین کی جانب سے پیش کیا جانے والا ایک روایتی رقص ہے۔ قطار در قطار کھڑی یہ خلیجی دوشیزائیں اپنے آبشار جیسے لمبے، سیاہ، خوشبو میں رچے ہوئے بالوں کو ایک جانب سے دوسری جانب لہراتی ہیں، اور اس دوران مخصوص دائرے میں گھومتی یا تھرکتی ہیں۔
یہ حرکات محض رقص نہیں ہوتیں بلکہ نسوانی شجاعت، اعتماد، اور قبائلی وفاداری کا علامتی اظہار ہوتی ہیں۔ "النشاعت” کی یہ پیشکش تاریخی طور پر ان محفلوں میں کی جاتی تھی جو محرم حدود یا خالص قبائلی معاشروں کے اندر منعقد ہوتی تھیں، جہاں یہ عمل نہ فتنہ سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی اسے نمائش کا ذریعہ مانا جاتا تھا، بلکہ یہ ایک تہذیبی اظہار اور باہمی اعتماد کی علامت تھا۔
مخصوص رقص "النشاعت” دراصل العیالہ نامی مقبول ثقافتی پرفارمنس کا ایک جزو ہے۔ جب کہ اس کی جدید صورت کو عموماً "خلیجی رقص” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ العیالہ خود ایک جنگی جوش اور اجتماعی ہم آہنگی کا مظاہرہ تھا، جو عرب قبائل خاص طور پر شمال مغربی عمان اور متحدہ عرب امارات میں عام رہا۔ مرد اس میں اشعار گنگناتے، دف بجاتے، اور تلواروں کے ساتھ جنگی حرکات کرتے، جب کہ قدیم دور میں عورتیں اپنی مخصوص حرکات سے ان کا ساتھ دیتیں۔
رقص، موسیقی اور ثقافتی مظاہر ہر قوم کی شناخت کا حصّہ ہوتے ہیں۔ "النشاعت” بھی خلیجی خواتین کے مخصوص انداز میں نسوانی وقار، فن اور تہذیبی لطافت کی علامت رہا ہے۔ لیکن جب یہی فن ایک عالمی سیاسی شخصیت کے استقبال کے لیے اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ صرف ایک "دکھاوے” کا منظر لگے، تو سوال پیدا ہوتا ہے: کیا ثقافت کو صرف نمائشی کارکردگی تک محدود کر دینا درست ہے؟
یہ زلف کا لہرانا تھا اک وقت میں حوصلہ
اب بن گیا ہر موج پہ سودا کسی آنکھ کا
"النشاعت” دراصل بدوی ثقافت کا حصّہ تھا، جہاں خواتین قبیلے کے مردوں کو ان کے تحفّظ کے بدلے میں عزّت و اعتماد کے اظہار کے طور پر رقص پیش کرتی تھیں۔ یہ رقص کبھی ایک نجی، مقدس اور خالصتاً مقامی مظہر تھا۔ لیکن جدید ریاستی سیاست میں یہ روایت اب ایک اسٹیجڈ اسقبال کا حصّہ بن چکی ہے، جس میں اصل روح کہیں کھو جاتی ہے۔
جب ٹرمپ جیسے سیاستدان — جن کی مسلم دنیا سے متعلق پالیسیوں پر بارہا تنقید ہو چکی ہے — اس انداز میں خوش آمدید کہے جائیں، تو اس میں محض مہمان نوازی ہی نہیں، ایک طاقتور سیاسی علامت بھی پنہاں ہوتی ہے۔ رقص کرتی لڑکیوں کے بیچ سے ایک غیرمسلم، متنازعہ عالمی رہنما کا گزرنا ایک ایسا علامتی فعل ہے جسے نہ صرف مغربی میڈیا نے ایک ثقافتی "شو” کے طور پر دکھایا بلکہ خود عرب دنیا کے اندر بھی اس پر ملے جلے ردعمل سامنے آئے۔
کچھ ناقدین نے اس منظر کو "نئی جہالت” کا نام دیا — یعنی جدید وسائل اور ریاستی طاقت کے باوجود فکری خودمختاری کا زوال۔ کیا یہ واقعی ثقافت کی ترویج ہے، یا محض عالمی توجہ حاصل کرنے کے لیے ثقافت کی "بازاری” تشہیر؟ کیا خلیجی تہذیب کو ایک سیاسی مہمان کی خوشنودی کے لیے اس طرح پیش کرنا اس کے وقار کے شایانِ شان ہے؟
ثقافت کو ریاستی نرم قوت (soft power) کے طور پر استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں، مگر اس کا طریقہ اور موقع اہمیت رکھتا ہے۔ "النشاعت” جیسے فن پاروں کو اگر عزّت، سیاق اور تقدس کے ساتھ پیش کیا جائے تو یہ حقیقی نمائندگی بنتی ہے۔ لیکن جب یہی اظہار مخصوص سیاسی پیغام یا استقبالی تماشا بن جائے، تو اصل ثقافت پس منظر میں چلی جاتی ہے اور صرف تماشا باقی رہ جاتا ہے۔
سلطنتوں نے ثقافت کو ساز بنا ڈالا
ہر تال میں چھپایا گیا پیغامِ غلامی
ایک وقت تھا جب "النشاعت” یہ رقص صرف قبیلوی مجالس و میلوں، شادیوں، نجی تقریبات، خفیہ خیموں اور شبانہ محفلوں میں محدود تھا۔ لیکن متحدہ عرب امارات کی ریاست نے اسے اپنی قومی ثقافتی شناخت کے فخریہ تعارف کے طور پر عالمی منظرنامے پر لانا شروع کیا، بالخصوص ان مواقع پر جب غیر ملکی سربراہان، تاجران، یا معزز مہمان امارات میں آتے ہیں۔ یہاں یہ رقص ایک ثقافتی مظاہرہ بن گیا، نہ کہ صرف روایتی یا دینی روایت۔ زلفوں کا لہرانا اب صرف ایک نسوانی اظہار نہیں بلکہ فن، شناخت اور ریاستی وقار کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
"النشاعت” کا اصل مقصد قبائلی فخر، وفاداری، اور نسوانی حوصلہ افزائی کا اظہار تھا۔ تاریخی طور پر یہ فتنہ انگیزی یا نمائش پسندی سے خالی تھا۔ لیکن عصر حاضر میں جب یہ رقص عالمی اسٹیج پر پیش کیا جاتا ہے، تو اس کا مفہوم، نیت اور اثر بدل جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ، ثقافت، اور شریعت کا تہذیبی مکالمہ شروع ہوتا ہے — اور یہی "النشاعت” کی سب سے دلچسپ، مگر پیچیدہ حقیقت ہے۔
"النشاعت” جیسا رقص اگر عورتوں کی نجی محفلوں تک محدود ہو، اور اس میں بے پردگی، فتنہ یا فحاشی نہ ہو، تو بعض صورتوں میں جائز ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ رقص مردوں کے سامنے، عوامی سطح پر، یا سیاسی و بین الاقوامی شخصیات کے سامنے کیا جائے، جیسا کہ ٹرمپ کی آمد پر ہوا، تو اسے اسلامی اصولوں کے مطابق جائز قرار دینا مشکل ہے۔
جب کوئی روایت ثقافت سے نکل کر بین الاقوامی نمائش بن جائے تو اس میں بعض اوقات حیاء اور پردے کی حدود پامال ہونے لگتی ہیں۔ اسلامی تہذیب و اقدار سے ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ عورت محض ایک "نمائش” کا ذریعہ بننے لگتی ہے، جو بدوی سادگی سے ہٹ کر جدید فیشن کا حصّہ بن جاتی ہے۔
اسلام ثقافت کی ترویج کے خلاف نہیں، جب تک کہ وہ شرعی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ لہٰذا اگر کسی ثقافتی عمل میں اسلامی اصول پامال ہو رہے ہوں تو وہ عمل قابلِ اعتراض سمجھا جائے گا، چاہے وہ کسی قوم یا ملک کی روایت ہو۔ اگر عورتیں نامحرم مردوں کے سامنے، یا عوامی جگہ پر ایسا رقص کریں جس میں زلفوں کا لہرانا، جسم کی لچک کا اظہار، اور سراپا نمائش شامل ہو، تو علماء کی اکثریت کے نزدیک یہ ناجائز ہے کیونکہ، یہ حیاء کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ فتنہ کا باعث بن سکتا ہے۔ نامحرم مردوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اسلام ایک ہمہ گیر دین ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ عبادات ہوں یا معاشرت، سیاست ہو یا ثقافت۔ اسلام ثقافت اور تہذیب کی خوبصورتی کا منکر نہیں، بلکہ اسے ایک قوم کی شناخت، تاریخ، اور جمالیاتی شعور کا مظہر سمجھتا ہے — بشرطیکہ وہ ثقافتی مظاہر حدودِ شریعت کے اندر ہوں، فتنہ سے پاک ہوں، اور انسانی وقار و حیاء کے اصولوں کو مجروح نہ کرتے ہوں۔
"النشاعت” جیسے روایتی رقص کو اگر خواتین کی نجی محفلوں تک محدود رکھا جائے، جہاں پردے، حیاء، اور اسلامی اخلاقی اقدار کی مکمل پاسداری ہو، تو وہ ایک ثقافتی سرگرمی کے طور پر قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔ لیکن جب یہی رقص نامحرم مردوں کے سامنے، بین الاقوامی سطح پر، یا سیاسی مفادات کے لیے استعراض کی صورت میں پیش کیا جائے، تو اس میں نہ صرف اسلامی حدود کی پامالی ہوتی ہے، بلکہ عورت کی حیثیت ایک باحیاء اور باوقار فرد کے بجائے محض ایک "تماشائی مظہر” تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔
اسلام کسی بھی ایسی روش کی تائید نہیں کرتا جس میں حیاء کو مجروح کیا جائے، عورت کی نسوانیت کو تجارتی یا سیاسی مفادات کی نذر کیا جائے، یا ثقافت کو محض ایک "اسٹیج شو” کی سطح پر لا کر اس کی اصل روح کو مسخ کر دیا جائے۔
لہٰذا اسلامی نقطۂ نظر سے یہ لازم ہے کہ ثقافتی مظاہر کو ان کی اصل تہذیبی روح، اخلاقی حدود اور شرعی اقدار کے دائرے میں رہ کر پیش کیا جائے۔ ورنہ ایسا "ثقافتی اظہار” جس میں عورت کی نمائش ہو، مرد و زن کے تعلقات میں بے جا اختلاط ہو، یا حیاء و عفّت کی قدریں پامال ہوں، وہ نہ صرف اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے بلکہ تہذیبی زوال کی علامت بھی ہے۔
اسلام، عورت کو عزّت، تحفّظ اور وقار عطا کرتا ہے — نہ کہ اسے سیاسی استقبال کے نمائشی منظر کا جزو بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں اسلام، ثقافت اور سیاست کے درمیان توازن قائم کرنے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور امت مسلمہ کو یاد دلاتا ہے کہ ثقافت کا اصل حسن اس کی اقدار میں پوشیدہ ہوتا ہے، نہ کہ اس کی نمائش میں۔
لباسِ رقص میں چھپ گئی روحِ قبیلہ
تاریخ کا سینہ کر گیا حرفِ تماشا
مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)
masood.media4040@gmail.com