مضامین

عیدالاضحی مخبری کا بازار گرم: ایک سنجیدہ جائزہ

مخبری اپنوں کی ، وار قانون کا۔ قربانی مسلمان کی ، فائدہ دوسروں کا !

تحریر نگار
عمران عبدالعلیم باحشوان
Cell: +91 9730000675

قربانی کی نیست، مگر مسلمانوں کا خون پسینے کا پیسہ، مخبر کی مخبری سے بر باد!

عید الاضحی کے موقع پر مسلمان نہ صرف مذہبی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ سنت ابراہیمی کی ادائیگی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

عید الاضحی کے موقع پر مسلمانوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بیف پر مکمل پابندی نافذ ہے، جیسے کہ مہاراشٹر ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ دیہاتوں سے بڑے جانور خرید کر شہر لاتے ہیں، کسانوں سے جانور خریدنے کے بعد انہیں پیسے بھی دے دیے جاتے ہیں، لیکن بعد میں ان جانوروں کی اطلاع (ٹیپ) پولیس کو دے دی جاتی ہے۔ نتیجا پولیس آتی ہے اور وہ جانور ضبط کر کے لے جاتی ہے۔ اس سارے معاملے میں نقصان صرف خریدار مسلمان کا ہوتا ہے، جبکہ فائدہ دینے والے کو ہوتا ہے، جو اکثر شناخت سے
باہر رہتا ہے۔

عید الاضحی سے قبل بیشتر حساس علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی جاتی ہے، جس کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہوتی ہے۔ پولیس گشت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود کچھ افراد ایسے جانور لا کر قربانی کی تیاری کرتے ہیں جن کی قربانی پر مہاراشٹر حکومت کی جانب سے پابندی ہے۔
واضح رہے کہ مہاراشٹر میں بیف پر مکمل پابندی 2015 میں ترمیم شدہ مہاراشٹرا اینیمل پریزرویشن ایکٹ 1976 کے تحت نافذ کی گئی تھی۔ اس قانون کے مطابق گائے، بیل یا بچھڑے کی قربانی ، ان کی نقل و حمل یا گوشت کی فروخت پر سخت قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی فردان جانوروں کی قربانی کرتا ہے تو اس پر قانونی ایکشن لیا جاتا ہے، چاہے اس کی نیت کتنی ہی صاف کیوں نہ ہو۔
عید الاضحی کے موقع پر مسلم محلوں میں بعض منافق لوگ مخبری کر کے ان کی اطلاع
پولیس کو دے دیتے ہیں۔ ٹیپ دینے والے افراد کا پتہ لگانا مشکل : ا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے ، وہ محلے کے رہائشی ہوں یا باہر سے آئے ہوں ، مرد ہوں یا عورت، ان کی شناخت چھپی رہتی ہے۔ قربانی کرنے والے افراد اپنے آپ کو بچا کر قربانی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان مخبروں کی وجہ سے اکثر مالی نقصان اٹھاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اتنے سخت قوانین کے باوجود بھی عوام خطرہ مول لیتے ہیں۔ گاؤں گاؤں جا کر جانور خریدنا اور پھر شہر لا کر قربانی کی تیاری کرنا، جب کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسا کرنا قانوناً جرم ہے، یہ خود کو اور اپنے مال کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
لاکھوں روپے کے جانور جب پولیس لے جاتی ہے تو خریدار خاموش بیٹھ کر صرف یہ کہتا ہے: "ہماری تو نیت قربانی کی تھی ، ثواب ہمیں مل جائے گا ۔ ” لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نقصان کے بعد صرف نیت کافی ہے؟ جب قانون اجازت نہیں دیتا، تو ایسے حالات میں عقل مندی اسی میں ہے کہ صرف ان جانوروں کی قربانی کی جائے جن کی اجازت ہے، جیسے بکرا وغیرہ۔ اگر آپ کو قربانی کرنے کی استطاعت ہے، تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کریں۔ ورنہ نہ کریں۔ یا پھر جمہوری انداز میں اس قانون کے خلاف جدو جہد کریں، جیسے کچھ لوگ کر رہے ہیں آپ ان کا ساتھ دیں۔ لیکن جب تک قانون موجود ہے، اس کی خلاف ورزی کر کے صرف نقصان ہی ہوگا ۔

ابھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان منافقوں کو پہچانیں جو مسلمانوں کے قریب رہ کر ہی مسلمانوں کا نقصان کرتے ہیں۔ ان سے محتاط رہنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ ان کا وار غیروں سے بھی زیادہ خطر ناک ہے، یہ مالی اور جانی نقصان دونوں کا سبب بنتے ہیں۔
اپنوں میں چھپے منافقین کو دیکھتے ہوئے قربانی کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ صرف ان جانوروں کی قربانی کریں جن کی قانونی طور پر اجازت ہے۔ علمائے کرام، سماجی کارکنان اور باشعور شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مذہبی فرائض ادا کرنے کی تلقین کریں تا کہ کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!