مضامین

ایمان کی ابتدائی بنیادیں: کم عمر بچّوں کے لیے اسلامی تربیت کا ڈیزائن

 🍁✍۔مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📱09422724040
•┈┈•┈┈•⊰✿✿✿⊱•┈┈•┈┈•
┄─═✧═✧═✧═✧═─┄

بچّے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں، جن کی کونپلیں اگر سلیقے سے سنوار دی جائیں تو وہ خوشبو بکھیرتے ہیں، اور اگر نظر انداز کر دی جائیں تو مرجھا جاتی ہیں۔ اسلامی معاشرے کی اساس اسی سلیقہ مندی پر قائم ہے—جہاں نونہالانِ امت کو نہ صرف دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے، بلکہ ان کے دل و دماغ میں دینِ اسلام کے نور کو بھی راسخ کیا جاتا ہے۔ بچّوں کی معصومیت، ان کے نازک جذبات، اور ان کی غیر ملوث فطرت وہ بے قیمت خزانے ہیں جنہیں اگر وقت پر سنوارا جائے تو وہ عمر بھر چمکتے رہتے ہیں۔ یہی ننھے دل، جب نورِ ہدایت کی کرنوں سے روشنی پاتے ہیں، تو ایک ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جو علم و عمل کا پیکر اور اخلاق و کردار کا آئینہ بن جاتی ہے۔

بچپن دراصل وہ نرم و نازک کینوس ہے جس پر زندگی کے رنگ سب سے گہرے اور پائیدار ثبت ہوتے ہیں۔ جیسے مصور اپنی تصویر کے لیے بہترین کینوس چنتا ہے، ویسے ہی والدین اور معلمین کے لیے بچّپن کی عمر وہ مقدس وقت ہے جب معصوم ذہنوں پر دین کی روشنی سے نقشِ اول بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ذہن بالکل تازہ مٹی کی مانند ہوتے ہیں، جو جس سانچے میں ڈھالی جائے، وہی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر ان پر دینی اخلاق و اقدار کے بیج بوئے جائیں، تو یہی بیج کل کو پھل دار درخت بنتے ہیں۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو والدین کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتا ہے۔

جب ایک بچّہ پہلی بار "اللّٰہ” کا نام سنتا ہے، تو گویا اس کے دل کے آئینے پر پہلی بار نور کی کرن پڑتی ہے۔ یہ کرن اگر مسلسل روشنی میں بدلی جائے، تو اس کے باطن میں ایسا چراغ روشن ہو جاتا ہے جو تمام عمر اسے راہ دکھاتا رہتا ہے۔ یہی ابتدائی شعورِ توحید، جب محبتِ رسولﷺ، خشیتِ الٰہی، اور ذکر و تلاوت سے جُڑ جاتا ہے، تو بچّہ شعور کی اس منزل پر پہنچنے لگتا ہے جہاں دین اس کی فطرت کا حصّہ بن جاتا ہے، نہ کہ کوئی مسلّط کردہ ذمّہ داری۔

اسلامی تربیت صرف احکامِ دین بتانے کا نام نہیں، بلکہ دین کو جینے کا سلیقہ سکھانے کا نام ہے۔ بچّے وہ کچھ نہیں سیکھتے جو ہم انہیں کہتے ہیں، بلکہ وہ سیکھتے ہیں جو ہم ان کے سامنے عمل کرتے ہیں۔ اگر ماں کی زبان پر ذکرِ الٰہی ہے، باپ نماز کے لیے پابند ہے، گھر میں قرآن کی تلاوت گونجتی ہے، اور معمولاتِ زندگی میں سیرتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جھلک نظر آتی ہے، تو یہی ماحول بچّے کے دل میں ایمان کی جڑیں گہری کر دیتا ہے۔ یہ وہ خاموش تعلیم ہے جس کا اثر الفاظ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی تربیت کو تعلیمی اداروں میں بھی اسی اہمیت کے ساتھ شامل کیا جائے جس طرح دنیاوی علوم کو دیا جاتا ہے۔ کتابوں کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا کردار بھی بچّوں کے لیے ایک آئینہ ہونا چاہیے۔ کہانیوں، نظموں، تصویری سرگرمیوں اور سیرت پر مبنی مکالموں کے ذریعے ایمان کی روشنی بچّوں کے دلوں تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ جب ایک معصوم ذہن میں ایمان کے نور کی آبیاری کی جاتی ہے، تو وہی بچہ بڑا ہو کر معاشرے کا روشن چراغ بنتا ہے۔ وہ دین کا سفیر بنتا ہے، محبت و اخلاص کا علمبردار، اور اخوت و فہم کا پیامبر۔ ایسے افراد ہی معاشرے میں خیر کے بیج بوتے ہیں، اور انہی کی بدولت امت کا مستقبل محفوظ اور روشن ہوتا ہے۔

تربیت: معنی، مقاصد اور اثرات

تربیت، کردار سازی کا وہ مقدس عمل جو نسلوں کی تقدیر بدل دیتا ہے، تربیت ایک ایسا عمل ہے جو محض معلومات کی ترسیل کا نام نہیں، بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو نکھارنے اور سنوارنے کا فن ہے۔ یہ علم کا ایک ایسا روپ ہے جس کا مقصد انسان کو ظاہری فہم سے نکال کر باطنی حکمت تک پہنچانا ہے۔ یہ وہ لطیف لمس ہے جو شخصیت کے کچے گوشوں کو چُھوتا ہے، اور انھیں نکھار کر ایک مکمل انسان بناتا ہے۔

ایک بچّہ، فطرتاً معصوم، غیر متأثر اور گہری صلاحیتوں سے بھرپور ہوتا ہے—بلکل اس کچی مٹی کی مانند، جو کسی بھی شکل میں ڈھالی جا سکتی ہے۔ اس کے اندر فطری خیر کی روشنی موجود ہوتی ہے، جسے مناسب رہنمائی، نرمی، اور مستقل محبت سے اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ والدین اور اساتذہ وہ فنکار ہیں، جن کے ہاتھوں میں یہ مٹی ہے؛ اگر وہ چاہیں تو اسے خوبصورت صورت میں گوندھ کر، ایسا گلدان بنا سکتے ہیں جو دنیا کو خوشبو دے، اور اگر وہ لاپرواہی برتیں، تو یہی مٹی بے ہنگم، بکھری ہوئی اور سخت ہو سکتی ہے۔

دینی تربیت صرف نصاب پڑھانے کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا سفر ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے، اور روح کو سنوارتا ہے۔ یہ تربیت بچّے کے اندر ایمان کی وہ پہلی چنگاری سلگاتی ہے جو بعد میں شعلۂ محبتِ الٰہی میں بدل جاتی ہے۔ یہی چنگاری، اخلاقِ حسنہ کی روشنی سے روشن ہوتی ہے، اور شریعت کی لکیروں میں سیدھ میں آتی ہے۔ پھر محبتِ رسولﷺ کے نغمے جب دل میں گونجنے لگتے ہیں، تو بچّہ صرف مذہبی نہیں بلکہ روحانی طور پر باشعور اور متوازن انسان بنتا ہے۔

تربیت وہ بیج ہے جو صبر، دعا، اور محنت کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بیج ایک شاداب درخت کی صورت اختیار کرتا ہے، جو اپنی جڑوں میں ایمان کی مضبوطی، شاخوں میں اخلاق کی رفعت، پتوں میں علم کا نور اور پھلوں میں عمل کی مٹھاس لیے کھڑا ہوتا ہے۔ ایسا درخت نہ صرف اپنے وجود سے سایہ فراہم کرتا ہے، بلکہ اس کے سائے میں دوسروں کو بھی سکون ملتا ہے۔ اس کے پھل معاشرے کو فائدہ دیتے ہیں، اور اس کی خوشبو نسلوں کو مہکاتی ہے۔

ایک فرد کی تربیت دراصل ایک قوم کی تعمیر ہے۔ جب ہم ایک بچّے کی شخصیت کو سنوارتے ہیں، تو ہم دراصل آئندہ کل کے لیڈر، معلم، والد، اور معمار کی بنیاد رکھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ بنیاد مضبوط، صاف اور دینی اصولوں پر استوار ہو، تو پوری عمارت پائیدار اور شفاف ہوتی ہے۔ تربیت ایک مقدس امانت ہے۔ یہ والدین، معلمین اور معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امانت کو شعور، محبت، اور اخلاص کے ساتھ نبھائیں۔ کیونکہ یہی تربیت ہے جو دنیا و آخرت کی فلاح کا ذریعہ بنتی ہے، اور انسان کو وہ مقام عطاء کرتی ہے جس کا خواب انبیاء علیہم السلام نے دیکھا تھا۔

تربیت کا وقت: آغاز کا صحیح لمحہ

تربیت کوئی اچانک آغاز لینے والا مرحلہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا مقدس سفر ہے جو بچّے کی زندگی کے پہلے لمحے سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ ماں کی آغوش وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں الفاظ نہیں بلکہ احساسات تعلیم دیتے ہیں، اور یہی احساسات بعد میں عقائد، اخلاق، اور شخصیت کی بنیاد بنتے ہیں۔ جب ایک نو مولود پہلی بار ماں کی آغوش میں آتا ہے، تو وہ صرف جسمانی تحفّظ نہیں بلکہ روحانی شفقت میں بھی لپٹا ہوتا ہے۔ اس لمحے اگر ماں کے لبوں پر اللّٰہ کا نام ہو، تو وہ بچّہ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ ایمان کے دائرے میں داخل ہو رہا ہوتا ہے۔ جب لوریاں گنگنائی جائیں، تو ان میں "محمد عربیﷺ” کا تذکرہ ہو، تاکہ محبتِ رسولﷺ بچپن ہی سے دل کی دھڑکن بن جائے۔ یہ وہ نرم وقت ہے جب بچّے کا شعور ابھی سفید کاغذ کی مانند ہوتا ہے—صاف، معصوم، اور اثرپذیر۔ جو کچھ بھی اس پر لکھا جائے گا، وہ پائیدار اور دیرپا ہوگا۔

بچّہ جو کچھ دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا ہے، وہ سب لاشعوری طور پر اس کی فطرت کا حصّہ بن جاتا ہے۔ اگر وہ ماحول ایمان، ذکر، اخلاق اور پاکیزگی سے لبریز ہو، تو وہ خودبخود انہی خوبیوں کو جذب کرتا ہے۔ ایک گھر جہاں قرآن کی تلاوت ہو، اذان کی آواز گونجتی ہو، نماز باقاعدگی سے ادا کی جاتی ہو، اور سیرتِ نبوی کے واقعات روزمرّہ کا حصّہ ہوں—وہ گھر بچّے کے لیے ایک چھوٹا سا جنّت نما مدرسہ بن جاتا ہے۔ بچّے کو یہ سب کچھ سیکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ خود سیکھ جاتا ہے، کیونکہ بچّے نقل سے سیکھتے ہیں، نصیحت سے نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جو سیکھ بچپن میں لیا جائے، وہ پتھر پر لکیر کی طرح ہوتا ہے۔ اسی لیے اگر دینی تربیت کا آغاز ابتدائی عمر سے نہ کیا جائے، تو بعد میں سیکھانا ایک طویل اور مشکل مرحلہ بن جاتا ہے۔ لیکن اگر ابتدا ہی سے "اللّٰہ” کا نام، "رسول” کی محبت، اور "قرآن” کی روشنی دل میں اتار دی جائے، تو یہی بچّہ آگے چل کر دین کا روشن چراغ بن جاتا ہے۔ ہم بچّوں کو غذا دیتے ہیں تاکہ ان کا جسم مضبوط ہو، لیکن ان کی روح کو غذا دینا اس سے زیادہ ضروری ہے۔ روح کی غذا ایمان ہے، ذکر ہے، محبتِ خدا و رسول ہے، اور یہ غذا جتنی جلد دی جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔

تربیت کا آغاز اس دن سے ہونا چاہیے جب بچّہ پہلی بار آنکھ کھولے، اور اس کے کانوں میں اذان کی آواز گونجے۔ اس کی زبان جب "ماما” اور "بابا” کہنا سیکھے، تو اس کے ساتھ ساتھ "اللّٰہ”، "محمد” اور "قرآن” جیسے الفاظ بھی سکھائے جائیں۔ یہ ابتداء چھوٹی ضرور ہوتی ہے، مگر اثر میں بہت بڑی۔ یہی ابتداء ایک نیک، باعمل اور صالح انسان کی بنیاد رکھتی ہے—جو آگے چل کر نہ صرف اپنی زندگی کو سنوارتا ہے، بلکہ امت کے لیے روشنی کا مینار بن جاتا ہے۔

اسلامی تربیت کے بنیادی عناصر

ایمان کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے وہ ستون، جن پر صالح نسلوں کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، ہر عمارت کی پائیداری اس کی بنیاد پر منحصر ہوتی ہے۔ اسی طرح دینی تربیت کی عمارت بھی چند مضبوط، نورانی اور بامقصد ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ اگر یہ ستون ابتدائے عمر میں استوار ہو جائیں، تو شخصیت کا ہر زاویہ متوازن، روشن اور خیر سے معمور ہوتا ہے۔

توحید کا شعور— ایک خدا، ایک مرکزِ وابستگی: بچّپن وہ عمر ہے جب دل و دماغ میں پہلی لکیریں کھنچی جاتی ہیں۔ یہی وقت ہے جب "لا الٰہ الا اللّٰہ” کا مفہوم دل میں اتارا جائے۔ بچّے کو آسان زبان میں بتایا جائے کہ ہمارا اللّٰہ ایک ہے—وہی ہمیں رزق دیتا ہے، ہمیں سنبھالتا ہے، اور ہر حال میں ہمارا خیر خواہ ہے۔ یہ شعور بچّے کو داخلی سکون اور روحانی وابستگی عطاء کرتا ہے۔ توحید کا بیج جب نرمی، محبت اور مثالوں کے ساتھ بویا جائے، تو وہ تمام عمر کے لیے عقیدے کی جڑ بن جاتا ہے۔

محبتِ رسولﷺ— دل کا چراغ: رسولِ رحمتﷺ کی ذات، بچّوں کے لیے ایک ایسا آئینہ ہے جس میں وہ حسن، رحمت، اخلاص، اور نرمی کی جھلک پا سکتے ہیں۔ اگر ان کی سیرت کہانیوں، نظموں اور روزمرہ کی گفتگو کا حصّہ بنا دی جائے، تو بچّہ نبی اکرمﷺ کو صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں، بلکہ دل کے محبوب کے طور پر جاننے لگتا ہے۔ محبت کی یہ چنگاری جب بچّپن میں روشن ہوتی ہے، تو عمر بھر روشنی بکھیرتی ہے۔

اخلاقیات کی تعلیم— کردار کا زیور: دین صرف عبادات کا نام نہیں، بلکہ اخلاق کا مکمل نظام ہے۔ بچّپن میں جب سچ بولنا، امانت داری، نرمی، خندہ پیشانی، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت جیسے اوصاف سکھائے جاتے ہیں، تو بچّہ صرف ایک نمازی نہیں، بلکہ ایک مکمل انسان بن کر اُبھرتا ہے۔ یہ تعلیم زبانی نصیحت سے نہیں، بلکہ عملی مثال سے مؤثر ہوتی ہے۔ جب والدین اور اساتذہ خود ان صفات کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو بچّے بے ساختہ انہی صفات کو اپناتے ہیں۔

نماز کی رغبت— بندگی کا ذوق: نماز، اللّٰہ سے تعلق کا وہ پل ہے جو انسان کو بندگی کی بلند ترین منزل تک لے جاتا ہے۔ اگر بچّپن ہی سے بچّے کے دل میں نماز کی محبت پیدا کی جائے—اسے مسجد لے جایا جائے، مخصوص جائے نماز دی جائے، اور نرمی سے رغبت دلائی جائے—تو وہ اسے بوجھ نہیں، بلکہ خوشی سمجھے گا۔ نماز کے لیے تیار ہونا، وضو کا سیکھنا، اور والدین کے ساتھ صف میں کھڑے ہونا—یہ سب یادیں بچّے کے دل میں دین سے محبت کے نقوش چھوڑتی ہیں۔

قرآن سے تعلق— نور کی راہنمائی: قرآن، بچپن سے دل میں اتر جائے، تو وہ شخصیت کے ہر پہلو کو منور کر دیتا ہے۔ ابتداء حروفِ تہجی سے ہو، پھر چھوٹی سورتیں، اور پھر منتخب آیات—یہ ایک ایسا سفر ہے جو بچّے کو کتابِ الٰہی کے ساتھ محبت، فہم، اور وابستگی عطاء کرتا ہے۔ جب بچّہ آہستہ آہستہ ترجمہ اور سیرت کی روشنی میں قرآن کو سمجھنے لگتا ہے، تو وہ محض حافظِ قرآن نہیں بلکہ حاملِ قرآن بن جاتا ہے—جس کی زندگی میں قرآن کا اثر جھلکتا ہے۔

یہ پانچ ستون—توحید کا شعور، محبتِ رسول، اخلاقی اقدار، نماز کی رغبت، اور قرآن سے تعلق—اگر بچپن میں بچّے کی شخصیت میں شامل ہو جائیں، تو وہ دنیا میں صالح، مفید اور باعمل انسان بنتا ہے، اور آخرت میں کامیاب۔ تربیت کے یہ ستون صرف والدین کی نہیں، بلکہ ایک مکمل اسلامی معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہیں۔

کردار سازی میں ماحول کا کردار

گھر اور معاشرہ—شخصیت کی خاموش درسگاہیں ہوتی ہیں۔ جس طرح ایک ننھا سا پودا اپنی نشوونما کے لیے متوازن دھوپ، پانی اور تازہ فضاء کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح ایک بچّہ بھی اپنے ذہن، دل اور روح کی پرورش کے لیے مناسب ماحول کا طلبگار ہوتا ہے۔ یہ ماحول—خواہ وہ گھر کا ہو یا مدرسے کا، مسجد کا ہو یا معاشرتی حلقے کا—اس کی شخصیت کو وہ رنگ دیتا ہے جو زندگی بھر باقی رہتا ہے۔

گھر— پہلی درسگاہ، والدین— پہلے معلم ہوتے ہیں۔ بچپن وہ آئینہ ہے جس پر جو بھی عکس پڑتا ہے، وہ گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ اگر بچّہ اپنی آنکھیں کھولتے ہی والدین کو نماز میں مصروف پائے، ان کے لبوں پر قرآن کی آیات سننے کو ملیں، اور ان کے مزاج میں نرمی، حلم اور مسکراہٹ ہو—تو یہ تمام رویے اس کے لاشعور میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ ایسی تربیت الفاظ کی محتاج نہیں، یہ خاموشی سے دل میں اترتی ہے، اور بچّے کے کردار کا حصّہ بن جاتی ہے۔ وہ سیکھتا نہیں، جذب کرتا ہے؛ اور یہی جذب وہ بنیاد بنتی ہے جس پر ایک صالح شخصیت کی عمارت اٹھتی ہے۔

تعلیمی ادارے اور دینی مراکز— بصیرت کے مینار ہوتے ہیں۔ آج کا بچّہ صرف کتابی باتوں سے متاثر نہیں ہوتا۔ اس کی دنیا بصری، تخلیقی اور فکری تنوع سے بھرپور ہے۔ اس لیے دینی مدارس، اسکولز اور مساجد کو بھی چاہیے کہ وہ تربیت کے اس عمل کو زمانے کی روح کے مطابق پیش کریں۔ روایتی انداز سے ہٹ کر، اگر دینی تعلیم کو کہانیوں، کرداروں، ویڈیوز، ڈراموں اور تعلیمی کھیلوں کے ذریعے سکھایا جائے، تو بچّے اس سے نہ صرف متاثر ہوتے ہیں بلکہ دل سے اسے قبول کرتے ہیں۔ سیرتِ نبوی کے واقعات کو ایسے انداز میں سنایا جائے کہ بچّہ خود کو ان کرداروں میں محسوس کرے؛ قرآنی قصے ایسے انداز میں بیان کیے جائیں کہ وہ صرف سماعت نہ رہیں، بلکہ بصیرت بن جائیں۔

ماحول: وہ مٹی جس میں کردار کی جڑیں پھیلتی ہیں۔ اگر ماحول مثبت ہو—یعنی خیر خواہ، نرم مزاج، دینی رجحان رکھنے والا—تو بچّہ خودبخود نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ لیکن اگر ماحول میں غفلت، سختی، یا تضاد ہو، تو بچّہ الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تربیت میں ماحول کی تطہیر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی ماحول کی اصلاح سے کام کا آغاز کیا؛ مسجد نبوی صرف عبادت کا مقام نہیں، ایک ہمہ جہت تربیتی مرکز تھا۔

کردار کی تشکیل محض درسی عمل نہیں، بلکہ ماحول کا مسلسل اثر ہے۔ وہ بچّے جو اچھے ماحول میں پلتے ہیں، نرمی، محبت، اور دین سے جُڑے رہتے ہیں، ان کے اندر نیکی جذب کرنے کی صلاحیت خودبخود پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں دین دار، بااخلاق اور باشعور ہوں، تو ہمیں ماحول کو ایسا بنانا ہوگا جو خود بولے، خود سکھائے، اور خاموشی سے دلوں کو بدل دے۔

تحفظِ ایمان اور دین کی ترسیل کا فریضہ

تربیت کی وہ شمع جو نسلوں کو اجالوں سے جوڑتی ہے۔ اسلام صرف ایک دین نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو فرد سے معاشرہ اور ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا ہے—نرمی سے، فہم سے، محبت سے۔ اور اس تسلسل کی سب سے پہلی اور مؤثر کڑی ہے: دینی تربیت۔

تربیت— صرف عبادات نہیں، شعور کا سفر ہے۔ دینی تربیت کا مقصد صرف نماز، روزہ، یا تسبیح کی گنتی سکھانا نہیں۔ یہ تو اس سے کہیں زیادہ گہرا اور ہمہ گیر عمل ہے۔ یہ دراصل ایک ایسی بنیاد رکھنا ہے جس پر ایمان کا قصر تعمیر ہوتا ہے۔ بچّوں کے ذہن و دل کو دین کی روشنی سے منور کرنا—یہی وہ اصل کامیابی ہے جو نہ صرف ان کی زندگی سنوارتی ہے، بلکہ آگے چل کر پوری امت کے مستقبل کو سنوار دیتی ہے۔ تربیت وہ خاموش بیج ہے جو دل کی زمین میں بویا جاتا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک تناور درخت میں بدل جاتا ہے؛ ایسا درخت جو سائے بھی دیتا ہے، پھل بھی، خوشبو بھی، اور روشنی بھی۔

روشنی کا چراغ، جو نسلوں میں جلتا رہے۔ اگر ایک بچّہ اپنے دل میں توحید کا نور لے کر پروان چڑھے، رسولِ اکرمﷺ کی محبت میں جوان ہو، اور قرآن کو اپنا رہنما جانے—تو وہ خود ایک روشن چراغ بن جاتا ہے۔ اور جب یہ چراغ جلتا ہے تو اس کی روشنی محض اس کے گرد محدود نہیں رہتی؛ وہ آگے آنے والی نسلوں کو بھی منور کرتا ہے۔ یہی وہ تسلسل ہے جس نے اسلام کو صدیوں سے زندہ رکھا ہے۔ ایک نسل نے ایمان کا جو نور سینوں میں سنبھالا، اسے اگلی نسلوں کے دلوں میں منتقل کیا، محبت، حکمت اور عمل کی زبان میں۔

ہر باغ کو سیراب کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ اگر بارش بروقت نہ ہو، تو زمین بنجر ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بچّوں کی تربیت کا بھی ایک وقت ہوتا ہے—وہ وقت جب دل نرم ہوتے ہیں، ذہن کھلے ہوتے ہیں، اور جذب کرنے کی صلاحیت عروج پر ہوتی ہے۔ اگر اس وقت کو سلیقے سے برتا جائے، نرمی، شفقت، بصیرت اور محبت کے ساتھ دینی اقدار ان کے اندر راسخ کی جائیں، تو یہی نونہال کل کے قافلہ سالار بن کر معاشرے کو خیر و برکت کا گلشن بنا سکتے ہیں۔

جب گھروں میں دین کی خوشبو ہو، مدرسوں میں روشنی ہو، اور مساجد میں بچّوں کی آوازیں گونجتی ہوں، تو ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے جو صرف بظاہر اسلامی نہیں، بلکہ باطن سے بھی خدا آشنا ہوتا ہے۔ یہی وہ معاشرہ ہوتا ہے جس میں عدل، رحم، علم، وفا اور پاکیزگی کے پھول کھلتے ہیں۔ ایمان کی حفاظت کوئی وقتی ذمّہ داری نہیں، بلکہ ایک نسل سے اگلی نسل تک امانت کی منتقلی ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بعد بھی اسلام زندہ رہے، دلوں میں دھڑکے، اعمال میں جھلکے، اور معاشروں میں مہکے—تو ہمیں اپنے بچّوں کی تربیت کو صرف فریضہ نہیں، بلکہ عشق کا عمل بنانا ہوگا۔ کیونکہ ایک نیک بچّہ، صرف ایک فرد نہیں، بلکہ آنے والے کل کی روشنی ہے۔ اور یہی روشنی دین کا تسلسل ہے۔

🍁مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی)🍁
📧masood.media4040@gmail.com

todayonelive@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!